Saturday, August 8, 2020

تعلیم بلوچستان کی ترجیح نہیں؟



اگر صوبہ بلوچستان کے لیے بجٹ کا 17 فیصد تعلیم کے لیے مختص ہے تو اس کی کامل تحقیق اور مکمل تفصیلات عوام کے سامنے پیش کی جائیں
بلوچستان میں اکثر دیہی علاقے ایسے ہیں جہاں آج بھی تعلیم کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ بیشر علاقے ایسے ہیں جہاں سکول و کالجز سرے سے ہیں ہی نہیں۔
بہت کم ایسےاضلاع ہیں جہاں سیکنڈری سکول اور کالجز کی تعمیر پر توجہ دی گئی ہے۔ نتیجتا پرائمری سکول سے فراغت کے بعد بچوں کی تعلیم کا آگے کوئی مستقل نظام نہیں ہوتا ہے۔ پرائمری سکولز میں ایسے سیکڑوں سکول شمار کیے جاسکتے ہیں جو اساتذہ کی عدم توجہی، قابلیت کی کمی اور مناسب انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے بند پڑے ہیں۔
جہاں سندھی اور پنجابی وڈیروں پر یہ سوالیہ نشان داغ دیا جاتا ہے کہ وڈیرے لوگوں کو تعلیم فراہم کرنے میں دلچسپی نہیں دکھاتے اور انہیں آگے بڑھنے سے روکتے ہیں، یا صوبائی حکومت اس معاملے میں کوئی حکت عملی تیار نہیں کرتی، وہیں صوبہ بلوچستان بھی انہیں محرومیوں کی وجہ سے اپنی نوجوان نسل کو تعلیم فراہم کرنے میں تاحال بری طرح ناکام ہے۔
کئی سکول ایسے ہیں جو محض ایک ہی کمرے پر مشتمل ہیں۔ اس معاملے میں اساتذہ کا تناسب قابل غور ہے۔ بلوچستان میں 10 ہزار کے قریب اساتذہ گھوسٹ ہیں جبکہ پورے بلوچستان میں اساتذہ کا شدید فقدان ہے۔ کئی مڈل سکولز تین سے چار استادوں پر ہی چل رہے ہیں اور کئی میں صرف ایک استاد تعلیمی عمل کو یقینی بنانے میں سرگرداں ہیں۔
ایسے والدین کی تعداد بہت ہی زیادہ ہیں جن کو یہ ادراک یا شعور تک نہیں ہے کہ وہ اپنی اولاد کو آنے والے زمانے کے اتار چڑھاؤ سے مقابلہ کرنے کے لیے تعلیم فراہم کریں۔ ایسے گھرانوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے جہاں والدین کو اپنے بچوں کی تعلیم کی کامل استطاعت ہو۔
تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بیروزگاری دیکھ کر والدین بچپن ہی سے اپنے بچوں کو چھوٹے موٹے کاموں میں لگا کر ان کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیتے ہیں۔ اس سے شرحِ ناخواندگی میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ستائیس لاکھ میں سے انیس لاکھ بچے سکول نہیں جاتے ہیں۔ بلوچستان کے 36 فیصد سکولز میں پانی کا، 56 فیصد میں بجلی کا مسئلہ ہے اور 15 فیصد سکول بالکل بند پڑے ہیں۔
دوسری طرف جن طلبہ کو تعلیمی اداروں میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا ہے، انہیں کافی مشکلات کا سامنا ہے۔ رہائش گاہ کے مسئلے سے لے کر لائیبریریز یا پھر داخلوں میں میرٹ کے قتل تک کے جیسے امور انہیں علمی دنیا سے دور کرنے میں کردار ادا کر رہے ہیں۔ مجبورا نوجوان نسل تعلیمی اداروں میں کم اور احتجاجی دھرنوں میں زیادہ نظر آتے ہیں۔
حالیہ ایام میں یونیورسٹیز کی طرف سے آن لائن کلاسز کے انعقاد سے وہ طلبہ جن کے علاقوں میں انٹرنیٹ تک دستیاب نہیں، پریشان حال حکومت کی طرف نظریں لگا کر بیٹھے ہیں۔ وزیر اعلی صاحب کے نوٹس کے باوجود کوئی پیش رفت نظر نہیں آ رہی ہے۔ کب تک طلبہ اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو ترک کر کے پریس کلب کے سامنے بیٹھے رہیں گے؟ یہ سوچنے کا مقام ہے کہ ہماری تعلیم یافتہ نسل کے قیمتی اوقات یا تو دھرنوں یا پھر ہڑتالوں کے نذر ہو رہے ہیں۔
کبھی ڈاکٹرز حقوق کی جنگ میں علاج سے ہاتھ اٹھا رہے ہیں تو کبھی وکلا پتھروں سے شہر کے امن پر سوالیہ نشان داغ رہے ہیں۔ تعلیم یافتہ اساتذہ اگر اپنی ملازمت چھوڑ کر بکریاں چرانے پر آمادہ ہو رہے ہیں تو لازما تعلیمی 
نظام پر سوالیہ نشان اٹھنا کوئی عجیب بات نہیں ہے۔
جام حکومت کی تعلیمی ترجیحات کیا ہیں؟ شرح خواندگی کو بڑھانے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کی جا رہی ہے؟ صوبے کے لیے مالیاتی بجٹ اگرچہ 465 ارب روپے کا پیش کیا گیا ہے مگر تعلیم کے حوالے سے اس کے 17 فیصد کے دعوے کس طرح تعلیم کی تشنگی کو تکمیل دے پا رہے ہیں؟ کوئی ایسی حکمت عملی دکھائی نہیں دے رہی ہے جو سراپا احتجاج طلبہ یا پھر ان کے والدین کو مطمئن کر سکیں جو اپنے بچوں کا سنہرا مستقبل دیکھنا چاہتے ہیں۔ تاحال واضح یہی ہے کہ حکومت کی ترجیح میں تعلیمی سرگرمیاں ہرگز نہیں ہیں۔
اگر صوبہ بلوچستان کے لیے بجٹ کا 17 فیصد تعلیم کے لیے مختص ہے تو اس کی کامل تحقیق اور مکمل تفصیلات عوام کے سامنے پیش کی جائیں تاکہ نوجوان نسل کو کم سے کم یہ احساس ہو کہ ان کے مسائل پر حکومت کی نظر ہے۔
کونسی قوم ہوگی جو تعلیم سے اپنے بچوں کودور کرنا چاہے گی۔ آج جاپان اور فن لینڈ جیسے ممالک نے تعلیم کی فراہمی کے بعد ہی دنیا کے سامنے اپنی بہترین حیثیت پیش کی ہے۔ یہ کس قدر دکھ کی بات ہے کہ ہم بلوچستان کے حقوق کے نعرے تو بہت لگاتے ہیں، قومیت سے اپنی عقیدت کا اظہار تو بہت کرتے ہیں مگر تعلیم کے معاملے پر ایک ایسی خاموشی چھا جاتی ہے جس کا اثر نہ صرف بلوچستان کو آج کے دن کے لیے اندھیرے میں دھکیلے گا، بلکہ آنے والے دنوں میں لاکھوں مشکلات ہمارے سر پر لادھ دے گا۔
اس وقت سب سے اہم امر یہی ہے کہ بلوچستان کے لوگ تعلیم کی اہمیت جان کر اپنے بچوں کو سکولوں کی طرف لائیں۔ انہیں تعلیم کے زیور سے آرستہ کریں۔ انہیں حق اور سچ کے مابین تمیز کروا کر تعلیمی آگاہی فراہم کریں۔ حکومتی سطح پر ہو یا مخیر حضرات کی تعاون سے تعلیم کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں تاکہ کسی نہ کسی صورت وہ تعلیم حاصل کرنے پر آمادہ ہوں۔ تعلیم کے لیے اپنی آواز بلند کریں، بلوچستان کو آپ کی اشد ضرورت ہے۔

No comments: