جنرل عاصم باجوہ کے خاندان کے اثاثوں کے بارے میں رپورٹ جاری کرنے والے صحافی احمد نورانی نے کہا ہے کہ انہیں اندازہ تھا کہ ان کی خبر پر شدید ردِ عمل آئے گا۔
صحافی احمد نورانی نے کہا کہ انہوں نے اسی وقت جنرل باجوہ کے اثاثوں کے بارے میں رپورٹ شائع کرنے کا فیصلہ کیا جب اس کے بارے میں ٹھوس شواہد اکٹھے کر لیے جنہیں کسی بھی عدالت میں پیش کیا جا سکتا ہے۔
احمد نورانی کی لیفٹننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کے خاندان کے کاروبار کے بارے میں رپورٹ آنے کے بعد سے میڈیا پر اس بارے میں تند و تیز بحث کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
’فیکٹ فوکس‘ نامی ایک ویب سائٹ پر جاری کردہ تفصیلی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ وزیرِ اعظم کے خصوصی مشیر برائے اطلاعات و نشریات اور سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین جنرل (ر) عاصم باجوہ کی اہلیہ اور بھائیوں کے بیرونِ ملک کروڑوں ڈالر کے اثاثے ہیں۔
جنرل باجوہ نے ایک ٹویٹ کے ذریعے اس رپورٹ کی تردید کی ہے۔
احمد نورانی اس وقت امریکہ کی ریاست مزوری میں مقیم ہیں۔ انہوں نے وٹس ایپ پر بات کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’بطور صحافی مجھے علم تھا کہ اس رپورٹ پر شدید ردِ عمل آ سکتا ہے۔ لیکن رپورٹ مکمل کرنے سے پہلے ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ صرف وہی چیز لینی ہے جس کا ہمارے پاس سرکاری شواہد موجود ہوں اور جنہیں کسی بھی عدالت میں پیش کیا جا سکتا ہو۔ تو ہم نے صرف ان شواہد کو مرتب کیا۔‘
ہم نے ان سے پوچھا کہ سوشل میڈیا پر طرح طرح کی باتیں ہو رہی ہیں، تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس خبر کے چھپنے کے بعد آپ کا واپس آنا مشکل ہو جائے گا؟
اس پر انہوں نے کہا کہ ’میں نہیں سمجھتا کہ میرا پاکستان آنا مشکل ہو جائے گا۔ کچھ دوست ہیں جو ایسی باتیں کرتے ہیں۔ پاکستان میرا ملک ہے، میں پاکستان کو ’اون‘ کرتا ہوں، یہ میرا ملک ہے، کسی کے باپ کا ملک نہیں ہے۔ جو شخص کسی پاکستانی کے لیے اس طرح کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرے ہم تو اسے بھگانے کی بات کرتے ہیں۔ خود تو ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ کوئی ہمیں ہمارے وطن میں آنے یا رہنے سے روکے گا۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’آپ کو سسٹم کو بدلنے کے لیے اس کے اندر رہنا پڑتا ہے۔ میری بھی کچھ حدیں ضرور ہیں۔ لیکن جب غلط بات ہو تو اس کے خلاف بولنا پڑتا ہے، اس کے لیے چاہے کچھ بھی ہو جائے، سچ بولنے سے باز نہیں آنا، لیکن ساتھ ہی ساتھ کوئی ایسا طریقہ بھی اختیار کرنا ہے کہ آپ کی اور آپ کے خاندان کی سلامتی کو بھی یقینی بنایا جا سکے۔‘
احمد نورانی کون ہیں؟
42 سالہ احمد نورانی نے اپنے کیریئر کا آغاز 2007 میں کیا تھا۔ عمومی طور پر صحافی پسِ پردہ ہی رہتے ہیں لیکن دو سال کے اندر اندر نورانی لوگوں کی نظروں میں آ گئے۔ پاکستان میں سوشل میڈیا گھٹنوں گھٹنوں چل رہا تھا لیکن نورانی کی سینیئر صحافی نذیر ناجی سے ایک کال کی آڈیو وائرل ہونے میں دیر نہیں لگی۔ اس کال میں وہ نذیر ناجی کو ملنے والے ایک پلاٹ کے بارے میں سوال کرتے سنائی دیتے ہیں جس کا جواب ناجی نے ننگی گالیوں کی صورت میں دیتے۔ ناجی کی موسلادھار مغلظات کے سامنے نورانی کا تحمل دیدنی تھا۔
جب پاناما لیکس کا معاملہ اٹھا تو نورانی خاصے سرگرم ہو گئے اور انہوں نے اس بارے میں پےدرپے کئی رپورٹیں شائع کیں۔ خاص طور پر ان کی ایک رپورٹ بہت زیرِ بحث آئی تھی جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا پاکستانی فوج کا خفیہ ادارہ آئی ایس آئی سپریم کورٹ کے ہدایت پر جے آئی ٹی کے لیے انتظامی خدمات سرانجام دے رہا ہے۔
اس پر سپریم کورٹ نے احمد نورانی اور جنگ گروپ کے ایڈیٹر ان چیف میر شکیل الرحمٰن کو توہینِ عدالت کے نوٹس جاری کیے تھے۔ نورانی سے کہا گیا تھا کہ وہ معافی مانگ لیں تو معاملہ رفع دفع کیا جا سکتا ہے لیکن انہوں نے معافی مانگنے سے صاف انکار کر دیا۔ البتہ بعد میں عدالتِ عظمیٰ نے خود ہی یہ کیس خارج کر دیا۔
تاہم زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ نورانی کو معافی مانگنا پڑ ہی گئی۔ ہوا یوں کہ انہوں نے نواز شریف کے خلاف کی رپورٹ آنے سے پہلے ہی دعویٰ کر دیا تھا کہ جے آئی ٹی نے نواز شریف کو بےگناہ قرار دیا ہے اور صرف ان کے بیٹوں کو قصوروار ٹھہرایا ہے۔
ظاہر ہے کہ جے آئی ٹی کا فیصلہ کچھ اور آیا، جس پر احمد نورانی نے اپنے اخبار ’دا نیوز‘ میں معافی نامہ شائع کروایا جس میں انہوں نے تسلیم کیا کہ اس خبر سے ان کی اور ان کے اخبار کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔
اکتوبر 2017 میں احمد نورانی کو اسلام آباد میں نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے حملہ کر کے شدید زخمی کر دیا۔ نورانی خاصا عرصہ ہسپتال میں رہے، اور انہیں مکمل طور پر صحت یاب ہونے میں کئی ماہ لگ گئے۔ عمران خان، شہباز شریف، بلاول بھٹو، اسد عمر، ڈاکٹر عارف علوی اور کئی دوسری نمایاں شخصیات نے اس حملے کی مذمت کی تھی۔
احمد نورانی کے ایک قریبی دوست اور سابق رفیقِ کار نے اس معاملے کی حساس نوعیت کے پیشِ نظر نام ظاہر نہ کرنے پر انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ اس دوران خود انہوں نے اور دوسرے دوستوں نے نورانی کو بہت منع کیا کہ وہ باز آ جائیں مگر نورانی نہ مانے۔ انہوں نے بتایا کہ ’حملے کے دوران نورانی کو سر پر چوٹیں لگی تھیں اور انہیں کئی ہفتے تک ذہن پر زور دینے یا کوئی واقعہ یاد کرنے میں مشکل پیش آتی تھی۔ اس کی وجہ سے خدشہ پیدا ہو گیا تھا کہ کہیں ان کی یادداشت نہ چلی جائے، مگر نورانی نے اپنی مضبوط قوتِ ارادی نے اس مسئلے پر قابو پا لیا اور پھر سے سرگرم ہو گئے۔‘
2018 میں نورانی نے ایک اور تہلکہ خیز خبر بریک کی، جس کے تحت تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کے بھی ’بےنامی‘ آف شور اکاؤنٹ کا انکشاف کیا گیا تھا۔ اس سے قبل عمران خان بارہا کہہ چکے تھے کہ آف شور بےنامی اکاؤنٹ وہی بناتا ہے جو چور ہو۔
دوست نے بتایا کہ ’نورانی بہت دبنگ اور بےخطر شخصیت کے مالک ہیں، کھری اور سیدھی بات کرتے ہیں اور ان کے قریبی دوست انہیں ’خطروں کا کھلاڑی‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔
تاہم دوست کے مطابق پھر 2019 میں وہ وقت آ گیا کہ نورانی کے لیے پاکستان میں رہنا مشکل ہو گیا اور انہوں نے امریکہ کا رخ کر لیا۔
اس وقت وہ امریکی ریاست مزوری میں ’سکالرز ایٹ رسک نیٹ ورک‘ نامی ایک نان پرافٹ ادارے کی ایک فیلو شپ کے تحت مزوری کالج آف جرنلزم سے ایک کورس کر رہے ہیں۔
https://www.independenturdu.com/node/45761
No comments:
Post a Comment