1987 سے 2017 تک 75 افراد توہینِ مذہب کے الزام میں ماورائے عدالت قتل کیے جا چکے ہیں، جن میں سلمان تاثیر، راشد رحمٰن اور شہباز بھٹی جیسے لوگ بھی شامل ہیں۔
گذشتہ بدھ کو پشاور میں 57 سالہ طاہر احمد نسیم کو ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں اس وقت قتل کر دیا گیا جب وہ توہین رسالت کے ایک مقدمے میں پیش ہوئے تھے۔
تل ہونے والے ملزم پر آئین پاکستان کی دفعہ 295، 198 اور 253 کے تحت نوشہرہ کے ایک رہائشی کی مدعیت میں 25 اپریل، 2018 کو مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اس وقت درخواست گزار اسلام آباد کے ایک مدرسے میں پڑھتے تھے۔
مقتول اپنے خاندان کے ہمراہ امریکہ میں رہائش پذیر تھے اور درخواست گزار کے بقول وہ ان سے مناظرے کے لیے پاکستان آئے تھے کیونکہ انہوں نے دعویٰ کر رکھا تھا کہ وہ اس صدی کے مجدد ہیں۔ البتہ عدالت میں مقتول نے اس الزام سے انکار کیا تھا، جس پر عدالت نے سماعت 12 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔ اس دوران عدالت میں ایک نوجوان نے، جس کا تعلق افغانستان سے بتایا گیا ہے، فائر کر کے ملزم کو قتل کر دیا۔
مقامی میڈیا کے مطابق طاہر نے احمدیت ترک کر دی تھی اور احمدی برادری نے بھی ان سے اظہار لاتعلقی کیا تھا۔
یہ پہلا واقعہ نہیں ہے جب توہین رسالت کے نام پر ماورائے عدالت قتل ہوا ہو۔ اس پس منظر میں پاکستان میں ماورائے عدالت ہلاکتوں کی ایک طویل تاریخ ہے۔ گذشتہ سال 20 مارچ کو بہاول پور میں کالج کے ایک پروفیسر کو کالج کے ہی ایک طالب علم نے خنجر کے وار کر کے قتل کر دیا تھا۔ ملزم نے استاد پر الزام لگایا تھا کہ وہ اسلام مخالف سوچ رکھتے تھے۔
سینٹر فار سوشل جسٹس کی ایک رپورٹ کے مطابق 1987 سے 2017 تک 1549 افراد کے خلاف توہین مذہب کے مقدمات درج ہوئے، جن میں سے سب سے زیادہ تعداد مسلمانوں کی 720 ہے، دوسرے نمبر پر احمدی ہیں، جن کی تعداد 516 ہے۔ عیسائی 238، ہندو 31 اور غیر مصدقہ کی تعداد 44 ہے۔
پنجاب 1138 کیسز کے ساتھ پہلے نمبر پر، سندھ 330 کے ساتھ دوسرے اورخیبر پختونخوا 38 کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ اسلام آباد میں 21، بلوچستان میں نو، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں چھ اور گلگت بلتستان میں بھی چھ کیس ہی رپورٹ ہوئے۔ جن لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا ان میں 39 مسلمان، 23 مسیحی، نو احمدی، دو ہندو اور دو غیر مصدقہ افراد شامل ہیں۔ یہ کل تعداد 75 بنتی ہے۔
کم از کم پانچ افراد دوران حراست اپنی حفاظت پر معمور پولیس اہلکاروں کی گولیوں کا نشانہ بنے، 11 افراد کو پولیس کی موجودگی میں دیگر ملزمان نے مار دیا۔ 18 افراد بلوے میں مارے گئے۔
توہین مذہب کے قوانین برطانوی دور سے ہی چلے آ رہے ہیں۔ 1860 میں پہلی بار انہیں پینل کوڈز میں شامل کیا گیا۔ 1927 میں ان میں بعض اضافے کیے گئے۔ ضیا دور میں 1986 تک مزید شقیں بھی ڈال دی گئیں۔ یہ بات بھی حیران کن ہے کہ 1947 سے 1987 تک 40 سال میں توہین مذہب کے کیسز میں صرف دو افراد ماورائے عدالت قتل ہوئے جبکہ اس کے اگلے 30 سالوں میں 75 افراد مارے گئے، جن میں سلمان تاثیر، راشد رحمٰن اورشہباز بھٹی جیسے لوگ بھی شامل ہیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل آئین پاکستان سے ماورا ہر اقدام کی مذمت کرتی ہے۔ ’ہمارا مؤقف بڑا واضح ہے کہ اس حوالے سے جو الزام لگاتا ہے اگر اسے عدالت میں ثابت نہ کر سکے تو الزام لگانے والے کو قذف کے قانون کے تحت سات سال سزا ہو نی چاہیے، یہی ایک طریقہ ہے جس سے جھوٹے الزامات کا سلسلہ روکا جا سکتا ہے۔‘
سینٹر فار سوشل جسٹس کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر پیٹر جیکب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’سماج میں انتہا پسندانہ رجحانات بڑھنے کی وجہ سے صورت حال بہت تشویش ناک ہو چکی ہے۔ 2004 میں توہین مذہب کے قوانین کے پروسیجر میں ایک ترمیم یہ کی گئی کہ اگر کسی کی خلاف توہین مذہب کی شکایت ہو گی تو مقدمے کے اندراج سے پہلے ایس پی رینک کا افسر الزامات کی تحقیق کرے گا اور اس کے بعد ہی مقدمہ درج ہو گا۔
'تاہم یہ اس لیے مؤثر ثابت نہیں ہوئی کیونکہ جب جتھے تھانے پر یا بازاروں میں حملہ آور ہوتے ہیں تو پولیس کے پاس امن و امان سے نمٹنے کا اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ وہ مقدمہ درج کر لے۔ اسی طرح 2017 میں قذف کو لاگو کیا گیا کہ جھوٹا مقدمہ درج کروانے والے کو سات سال تک قید کی سزا ہو گی۔ لیکن آپ نے دیکھا کہ آسیہ کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود آسیہ کے خاندان والوں نے قذف کے تحت مقدمے کی درخواست نہیں کی۔ اب ہونا تو یہ چاہیے کہ مقدمہ خارج ہوتے ہی قذف کا قانون خود بخود حرکت میں آجائے۔‘
سیف الملوک پاکستان کے ایسے وکیل ہیں جنہوں نے توہین رسالت کے سلمان تاثیر اور آسیہ بی بی جیسے ہائی پروفائل کیس لڑے ہیں۔ انہوں نے بتایا: ’یہ کیس لڑنے کے بعد میری سماجی زندگی ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ سلمان تاثیر کا کیس پورے پاکستان میں کوئی وکیل لڑنے کو تیار نہیں تھا۔ عاصمہ جہانگیر کی خصوصی درخواست پر میں نے یہ کیس لڑا۔
'پھر آسیہ کیس بھی لیا۔ اب تو گاڑی چلاتے وقت موٹر سائیکل پر جو داڑھی والا نظر آتا ہے لگتا ہے مجھے گولی مارنے کے لیے آ رہا ہے اور اگر وہ میرے ساتھ موڑ بھی مڑ جائے تو آدھا خون خشک ہو جاتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’حکومتیں بھی انتہا پسندوں کے ساتھ ملی ہوئی ہیں۔ سلمان تاثیر کے بعد کوئی ان کے خلاف بات کرنے کو تیار نہیں۔ میرے جیسا کوئی سرپھرا وکیل بھی نہ رہا تو پھر شاید ایسے کیس کوئی وکیل بھی لڑنے کو تیار نہ ہو۔
No comments:
Post a Comment