تحریر: علی عبداللہ ہاشمی
ذوالفقار علی بھٹو کی چار اولادوں میں شاہنواز سب سے چھوٹا اور اسی نسبت سے نا صرف ماں باپ بلکہ بہن بھائیوں کے بھی بے حد لاڈلہ تھا۔ کہتے ہیں ایک مرتبہ نواب آف کالا باغ نواب ملک محمد احمد خان اپنے دیرینہ دوست سر شوہنواز بھٹو سے ملنے انکے گھر گئے تو اس لڑکے کی بابت بھی پوچھا جو مخملی بستروں کی بجائے خیمہ لگا کر رہتا تھا۔ جب معلوم پڑا کہ وہ زلفی ایک کامیاب وکیل اور کراچی میں رہائش پذیر ہے تو نواب صاحب نے کراچی پہنچنے پر اسے ڈھونڈنے کا حکم جاری فرما دیا۔ بھٹو صاحب اپنی بیوی بیگم نصرت بھٹو کیساتھ ایک سنیما میں موجود تھے جب شو روک کر انہیں گورنر ہاوس پہنچنے کا حکم سنایا گیا اور یوں ذوالفقار علی بھٹو نے عملی سیاست میں پہلا قدم رکھا۔
بھٹو صاحب نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ “میں نے غریبوں کی سیاست اپنی ماں سے سیکھی ہے۔” سینکڑوں نوکروں کی موجودگی میں ٹینٹ لگا کر رہنا غریبوں کی سیاست کا پہلا قدم تھا جو بھٹو صاحب تک محدود نہیں رہا۔ انکی پیروی میں مرتضی بھٹو نے بھی یہی قصد کیا اور کہتے ہیں کہ بھٹو صاحب نے مرتضی کو اسکی بجائے اپنی تعلیم پر توجہ دینے کا مشورہ دیا تھا۔
جب مرتضی اپنے خیمے میں مارکس, لینن اور ماؤ کی سیاست پڑھتے ہوئے اپنی آنے والی زندگی اور اپنے عوام کی زندگی بدلنے کے خواب بُنتا تھا تو کہتے ہیں دو پرستار آنکھیں ہر ہر گام اسکا تعاقب کرتی تھیں اور ہر وہ کام کرنا چاہتی تھیں جو مرتضی کرے۔ یہ پرستار آنکھیں کسی اور کی نہیں بلکہ اسکے چھوٹے بھائی شاہنواز کی تھیں۔ بینظیر بھٹو پر مرتضی کے قتل کا الزام لگانے والے حرامخور اگر صرف مرتضی اور شاہنواز کے باہمی رشتے کو سمجھ لیتے تو یہ بیحودہ الزام کبھی نہ لگاتے۔
جب مرتضی اپنے خیمے میں مارکس, لینن اور ماؤ کی سیاست پڑھتے ہوئے اپنی آنے والی زندگی اور اپنے عوام کی زندگی بدلنے کے خواب بُنتا تھا تو کہتے ہیں دو پرستار آنکھیں ہر ہر گام اسکا تعاقب کرتی تھیں اور ہر وہ کام کرنا چاہتی تھیں جو مرتضی کرے۔ یہ پرستار آنکھیں کسی اور کی نہیں بلکہ اسکے چھوٹے بھائی شاہنواز کی تھیں۔ بینظیر بھٹو پر مرتضی کے قتل کا الزام لگانے والے حرامخور اگر صرف مرتضی اور شاہنواز کے باہمی رشتے کو سمجھ لیتے تو یہ بیحودہ الزام کبھی نہ لگاتے۔
بھٹو صاحب ایک رومانوی کردار تھے اور اسکی سب سے خوبصورت جھلک انکی اولاد کے باہمی رشتوں میں معجزن تھی۔ بی بی, میرُو, صنم اور شاہنواز ایک ہی مٹی میں گُندھے چار اجسام تھے اور تینوں بڑے بہن بھائیوں کیلئے “شاہ” انکی اولاد کیطرح انہیں عزیز تھا۔ شاہنواز کا تعلیمی کیرئیر کوئی شاندار نہیں تھا۔ تینوں بڑے بہن بھائیوں کے تعلیمی سلسلے میں بیرون ملک چلے جانے سے شاہنواز جو اپنے بہن بھائیوں کا عاشق تھا بہت ڈسٹرب ہوا جسکی بابت بہت سی تحریروں میں حوالے ملتے ہیں۔
5جولائی 1977 کی منحوس رات شاہنواز اور بی بی دونوں پاکستان میں موجود تھے جو تحریک شروع ہوتے ہی بیگم بھٹو نے اسے واپس سویٹزرلینڈ بھیج دیا جہاں وہ زیر تعلیم تھا لیکن 18 مارچ 1978 لاہور ہائی کورٹ کیجانب سے بھٹو صاحب کو پھانسی کی سزا ملنے پر بیگم بھٹو نے اسے لندن میں مرتضیٰ کی مدد کیلئے پہنچنے کی اجازت دیدی جو اسوقت انٹرنیشنل محاذ پر اپنے باپ کی زندگی بچانے کیلئے سرگرداں تھا۔ اسکے بعد شاہنواز شائید کبھی تعلیم سے وابسطہ نہیں ہو پایا۔ دونوں بھائیوں میں سے شاہنواز اسطرح زیادہ بارسوخ نکلا کہ اسکے کئی ایک سربراہانِ مملکت سے ذاتی مراسم تھے جن میں سے ایک آیت اللہ خمینی تھے جس نے دونوں بھائیوں سے اس دور میں باقاعدہ ملاقات کی اور بھٹو صاحب کو بچانے کیلئے کوششوں کا وعدہ بھی کیا۔ ایرانی اخبارات میں اسکی بھرپور اشاعت کی گئی جس سے سرحد کے اِس پار شاہنواز بھٹو مرتضی اور بینظیر سے بھی بڑا خطرہ سمجھا جانے لگا۔
5جولائی 1977 کی منحوس رات شاہنواز اور بی بی دونوں پاکستان میں موجود تھے جو تحریک شروع ہوتے ہی بیگم بھٹو نے اسے واپس سویٹزرلینڈ بھیج دیا جہاں وہ زیر تعلیم تھا لیکن 18 مارچ 1978 لاہور ہائی کورٹ کیجانب سے بھٹو صاحب کو پھانسی کی سزا ملنے پر بیگم بھٹو نے اسے لندن میں مرتضیٰ کی مدد کیلئے پہنچنے کی اجازت دیدی جو اسوقت انٹرنیشنل محاذ پر اپنے باپ کی زندگی بچانے کیلئے سرگرداں تھا۔ اسکے بعد شاہنواز شائید کبھی تعلیم سے وابسطہ نہیں ہو پایا۔ دونوں بھائیوں میں سے شاہنواز اسطرح زیادہ بارسوخ نکلا کہ اسکے کئی ایک سربراہانِ مملکت سے ذاتی مراسم تھے جن میں سے ایک آیت اللہ خمینی تھے جس نے دونوں بھائیوں سے اس دور میں باقاعدہ ملاقات کی اور بھٹو صاحب کو بچانے کیلئے کوششوں کا وعدہ بھی کیا۔ ایرانی اخبارات میں اسکی بھرپور اشاعت کی گئی جس سے سرحد کے اِس پار شاہنواز بھٹو مرتضی اور بینظیر سے بھی بڑا خطرہ سمجھا جانے لگا۔
بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد دونوں بھائیوں نے جمہوریت کے احیاء کیلئے باقاعدہ مسلح جدوجہد کا راستہ اپنایا اور تریپولی میں پہلا ٹریننگ کیمپ قائم کیا جبکہ تنظیم کا نام پیپلز لبریشن آرمی رکھا گیا۔ یہ کیمپ تریپولی سے کابل آیا تو PLA “الذوالفقار” میں تبدیل ہوئی اور یوں اس ملک کے عوام کی حتمی آزادی کیلئے 58 سرپھروں نے اپنی جانوں کی بازی لگانے کی ٹھان لی۔
شاہنواز اور مرتضی دونوں نے دو افغانی بہنوں ریحانہ اور فوزیہ سے شادی کی۔ شاہنواز اپنی بیوی کو لیکر کینز, فرانس میں مقیم تھا کہ 18 جولائی 1985 کی صبح اسکی بیٹی سسی بھٹو اسے جگاتی رہ گئی مگر وہ پراسرار حالات میں دنیا چھوڑ گیا۔ اس واقعہ کی اطلاع ریحانہ نے ٹیلی فون پر بیگم بھٹو کو دی اور یوں بھٹو صاحب کے عدالتی قتل کے محض چھ سال بعد بھٹو خاندان سے سب سے لاڈلے بیٹے کی موت نے انکی گود اجاڑ دی۔ ریحانہ کو فرانسیسی پولیس نے شک کی بناء پر حراست میں لے لیا اور دوسری طرف مرتضی نے ریحانہ کے ISI ایجنٹ نکلنے کے شک پر اسکی بہن اور فاطمہ بھٹو کی ماں فوزیہ فصیح الدین کو طلاق دیدی۔ بھٹو خاندان پر ایکبار پھر قیامت ٹوٹ پڑی تھی جو بی بی صاحبہ نے شاہنواز کے جسدِ خاکی کو 14 اگست 1985 کو پاکستان لانے کا اعلان کر دیا۔ پاکستانی اخبارات جو اسوقت تک شاہنواز کی موت کی وجہ شراب اور منشیات کی اوور ڈوز بتا کر ہمارے زخموں پر نمک پاشی میں مصروف تھے لیکن بی بی صاحبہ کے اعلان نے فوج سمیت سارے سنسرڈ میڈیاء کی نیدیں حرام کر دیں۔ بھٹو صاحب کا جنازہ چند غیر متعلقین نے پڑھا تھا جسکا پیپلز پارٹی کے کروڑوں چاہنے والوں کو بڑا قلق تھا۔ شاہنواز کا جنازہ پاکستان لانے کے اعلان کیبعد ملک بھر میں مظاہرے اور جلسے جلوس شروع ہو گئے جس پر آنسو گیس اور لاٹھی چارج معمول بن گیا۔
سرکاری خوف کا یہ عالم تھا کہ 14 اگست کو پاکستان لانے کے اعلان کے باوجود ضیاء مردود کے فتنہ گروں کے رخنوں کے باعث 22 اگست 1985 صبح 8 بجے محترمہ اپنے بھائی کا جنازہ لیکر کراچی پہنچیں جہاں سے ایک فوکر جہاز میں انہیں موہنجوداڑو کے ہوائی اڈے پر لیجایا گیا۔ انٹرنیشل میڈیاء کی بھرپور کوریج کے باعث رکاوٹیں ہوا میں اڑنے لگیں اور عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اپنے محبوب قائد کے بیٹے کی تدفین میں شامل ہونے کیلئے امنڈ پڑا۔ موہنجو داڑو ائرپورٹ پر جہاز اترا تو وہ پیپلز پارٹی کے جھنڈوں اور گلاب کے پھولوں میں لپٹا ہوا تھا۔ جنازے کو دھاڑیں مارتے ہوئے ہجوم نے اپنی آغوش میں لے لیا اور نوڈیرو کیطرف گامزن ہوا۔ تاریخِ انسانی میں شائید ہی کسی مرنے والے کی پھُوڑی چالیسویں کے بعد تک ڈلی ہو لیکن 15 جولائی کو قتل ہونے والے شاہنواز بھٹو کا جنازہ اسکی موت کے 37 دن بعد بھی ہاڑوں سسکیوں اور “زندہ ہے بھٹو زندہ ہے” کے فلک شگاف نعروں میں ایک اجڑے ہوئے
مقبرے کیطرف گامزن تھا۔ وہ لوگ جو بھٹو کا جنازہ نہیں پڑھ سکے آج وہ اسکے بیٹے کی میت اٹھائے اسکے غریب بابا کو پُرسا دینے نکل پڑے تھے۔ برگیڈئیر احسان اللہ مرزا کے مطابق ضیاء الحق بھٹو صاحب کی پھانسی کے دن اتنا خوفزدہ نہیں تھا جتنا وہ اس 26 برس کے جنازے سے خوفزدہ رہا۔ بھٹو صاحب سے ٹھیک 33 فٹ دور اسکی قبر کھودی جا رہی تھی جب “المرتضی” میں شاہنواز کے تابوت کا استقبال گھر کی عورتوں نے کیا کیونکہ غریبوں کو عزت دینے والے لاکھوں ایکڑ کے مالک بھٹو خاندان کا واحد مرد مرتضی بھٹو اس غلام ملک میں نہیں آ سکتا تھا۔ مانگے تانگے کے ہاتھوں نے عظیم بھٹو کے بیٹے کو قبر میں اتارا تو اسکی بینظیر بیٹی اپنے عوام سے مخاطب ہوئی۔ بی بی نے اپنے خطاب میں کہا, “پاکستان کے لوگوں کا درد میرا درد ہے”
بی بی کا کہنا تھا کہ کُرلاٹ مچ گئی۔ عزاداروں کی آہیں اور سسکیاں چیخوں میں بدل گئیں۔ وہ عورت جسکے خاندان کو پچھلے آٹھ برس میں صرف جیلیں, تشدد اور جنازے ملے تھے وہ اپنے بھائی کی قبر پر کھڑی ہو کر لوگوں کے درد کو اپنا درد کہہ رہی تھی۔ بی بی بولیں “شاہنواز کی موت مجھ اکیلی کا نقصان نہیں ہے, اس نے ساری قوم کو مغموم کر دیا ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ ہم نے کیا کیا مصائب جھیلے ہیں۔ ہم شہید بھٹو کا مشن جاری رکھیں گے۔ ہم غربت اور نا انصافی کیخلاف جنگ جاری رکھیں گے۔ میرے آپکے جذبات سانجھے ہیں بالکل اسطرح جیسے ہمارا مقصد سانجھا ہے”
بی بی کا کہنا تھا کہ کُرلاٹ مچ گئی۔ عزاداروں کی آہیں اور سسکیاں چیخوں میں بدل گئیں۔ وہ عورت جسکے خاندان کو پچھلے آٹھ برس میں صرف جیلیں, تشدد اور جنازے ملے تھے وہ اپنے بھائی کی قبر پر کھڑی ہو کر لوگوں کے درد کو اپنا درد کہہ رہی تھی۔ بی بی بولیں “شاہنواز کی موت مجھ اکیلی کا نقصان نہیں ہے, اس نے ساری قوم کو مغموم کر دیا ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ ہم نے کیا کیا مصائب جھیلے ہیں۔ ہم شہید بھٹو کا مشن جاری رکھیں گے۔ ہم غربت اور نا انصافی کیخلاف جنگ جاری رکھیں گے۔ میرے آپکے جذبات سانجھے ہیں بالکل اسطرح جیسے ہمارا مقصد سانجھا ہے”
دور کھڑی سسی اپنی پھوپھی کہ باتیں سنتے ہوئے من ہی من میں اپنے بابا سے گلہ کر رہی تھی کہ انہوں نے اپنی بیٹی کیساتھ کیا وعدہ پورا نہیں کیا۔ وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ “ایکدن میں تمھیں شہید بابا کے مزار پر لیکر جاوں گا” وہ کم سن نہیں جانتی تھی کہ اسکے باپ نے مر کر بھی اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے۔ وہ مر کر اپنی سسی کو اسکے عظیم دادا کے مزار تک لے آیا تھا کیونکہ جیتے جی اسکے لیئے ایسا کرنا ممکن نہیں تھا۔
No comments:
Post a Comment