جو لوگ آپ کو بتاتے ہیں کہ پاکستان مذہبی ریاست ہے، ان کی نجی زندگیوں میں دور دور تک
ہبی اخلاقیات کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔
مندر کی سرکاری پیسے سے ہونے والی تعمیر رک جائے گی۔ یہ شروع ہی اس لیے کی گئی تھی کہ اسے روکا جا سکے۔ مگر کیوں؟ یہ سمجھنے کے لیے ایک بڑی غلط فہمی اپنے ذہن سے نکال دیجیے۔
عام آدمی سے لے کر علمائے کرام، قانون دانوں اور ججوں تک کو یہ غلط فہمی ہے یا وہ عوام کو اس بات کا یقین دلائے رکھنے پر مامور ہیں کہ پاکستان اسلامی ریاست ہے۔
اس غلط فہمی کو دور کر لیجیے۔ پاکستان ہرگز اسلامی ریاست نہیں ہے، اور نہ ہی ایسا ہونا کبھی ممکن تھا۔ بس آپ کو ایسا بتایا جاتا ہے، اور یہ جو آپ کو ایسا بتانے والے ہیں ان کی اپنی نجی زندگیوں میں دور دور تک کسی بھی مذہبی تقسیم یا مذہبی اخلاقیات کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ اگر کبھی الحاد کا چورن بیچ کر بھی ان کی بالادستی قائم رہتی ہو تو وہ اسے بیچنے کو بھی تیار ہوں گے۔
پاکستان مسلمان اکثریت کا ملک ہے اور دستوری طور پر جمہوریہ ہے۔ یہ چار قومیتوں کے حامل دستوری یونٹس پر مشتمل فیڈریشن ہے۔ ان فیڈریٹنگ یونٹس کے باہمی تعامل کو خالصتاً سیکیولر بنیادوں پرمنظم کرنے کے لیے جو دستاویز خلق کی گئی ہے اسے دستور کہتے ہیں۔
اس غلط فہمی کو دور کر لیجیے۔ پاکستان ہرگز اسلامی ریاست نہیں ہے، اور نہ ہی ایسا ہونا کبھی ممکن تھا۔ بس آپ کو ایسا بتایا جاتا ہے، اور یہ جو آپ کو ایسا بتانے والے ہیں ان کی اپنی نجی زندگیوں میں دور دور تک کسی بھی مذہبی تقسیم یا مذہبی اخلاقیات کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ اگر کبھی الحاد کا چورن بیچ کر بھی ان کی بالادستی قائم رہتی ہو تو وہ اسے بیچنے کو بھی تیار ہوں گے۔
پاکستان مسلمان اکثریت کا ملک ہے اور دستوری طور پر جمہوریہ ہے۔ یہ چار قومیتوں کے حامل دستوری یونٹس پر مشتمل فیڈریشن ہے۔ ان فیڈریٹنگ یونٹس کے باہمی تعامل کو خالصتاً سیکیولر بنیادوں پرمنظم کرنے کے لیے جو دستاویز خلق کی گئی ہے اسے دستور کہتے ہیں۔
یعنی سادہ لفظوں میں سندھی، پنجابی، بلوچی اور پٹھان قومیتوں میں وسائل کی تقسیم کرنے کے لیے اس دستور کو خلق کیا گیا ہے۔ اس ریاست کے باشندے اپنی اس قومیت کی بنیاد پر ریاست سے اپنے حقوق طلب کر سکتے ہیں جس کو صوبوں کے ڈھیلے ڈھالے سے ٹائٹل سے دستور میں تسلیم کیا گیا ہے۔ ملک کی شہریت اور پھر اس کی بنیاد پر حقوق دینے کی تعریف سے مذہب کو دانستہ طور پر باہر رکھا گیا ہے۔ مثلاً اس ملک کا سرکاری مذہب اسلام ہے مگر صرف وہی مسلمان اس ملک کے شہری ہیں جو اس کی جغرافیائی اکائیوں کے باشندے ہوں۔
جو کچھ دینی رنگ ہمیں مملکت کے نظام میں نظر آتا ہے اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اس ملک میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ مضبوط مرکز کے لیے ایک نوزائیدہ مملکت کے باشندوں کو واحد قومیت کا وہم پیدا کرنا اور اس کے لیے انہیں ایک لالی پاپ دینا ضروری تھا۔ کچھ بے ضرر سی اسلامی شقیں دستور میں رکھ دی گئیں جیسے 97 فیصد مسلمان آبادی کے ملک کا سربراہ مملکت مسلمان ہو گا، کائنات کے اقتدار اعلیٰ کا مالک اللہ ہے، ملک کا سرکاری مذہب اسلام ہوگا، اغلاط سے پاک قرآن حکیم چھپوانے کا اہتمام کیا جائے گا وغیرہ۔
پاکستان کے قانون میں بھلے لکھا ہوا ہے کہ قرآن و سنت پاکستان کا سپریم لا ہے مگر جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ قرآن و سنت کی وہی تشریح قانون ہے جسے مغربی جمہوری اصولوں پر تشکیل شدہ پارلیمنٹ بطور قانون چن لے یا ملک کی خالصتاً سیکیولر عدالتیں اسے قانون کا درجہ دے دیں۔ اب اگر فقہا آپ کو بتاتے بھی رہیں کہ داڑھی منڈھا شخص اور پھر اس گناہ کا مسلسل ارتکاب کرنے والا گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوتا ہے اور عادل نہیں رہتا مگر آپ پھر بھی ایسے شخص کو اسلامی ریاست کا سربراہ بننے یا بطور جج ملکی قوانین اور اسلام کی مطابقت اور تعبیر و تشریح کرنے سے نہیں روک سکتے۔
اب جیسے سود کا مسئلہ دیکھ لیں۔ جب معاملہ سپریم کورٹ کے بس سے بھی باہر ہو گیا تو عوام کی تسلی کے لیے عالمی سودی بینکاری اور ڈالر بیسڈ کرنسی کے نظام سے ملحق ایک غیر سودی بینکاری تخلیق کر دی گئی۔ اسے پین کلر سمجھ لیں۔ مملکت کا اپنا مالیاتی نظام البتہ مکمل طور پر روایتی سودی نظام سے منسلک ہے۔
رقص اور موسیقی سے لے کر شراب کے سرکاری لائسنس دینے اور فائیو سٹار ہوٹلوں میں نیو ایئر پارٹیوں تک حکمران طبقے (چند سو ایلیٹ خاندان اور ان کا بچا کھچا کھانے والے چند لاکھ اپر کلاس اور اپر مڈل کلاس خاندانوں) کے لائف سٹائل میں مداخلت کرتی کوئی مذہبی پابندی آپ کو بطور قانون یہاں نظر نہیں آئے گی۔
کیا آپ کو ریاستی ڈھانچے میں اسلام کہیں نظر آتا ہے؟ لیکن اس ملک کے عوام کے نزدیک چونکہ یہ ملک ایک اسلامی ریاست ہے لہٰذا ایک اسلامی ریاست کا سب سے بڑا فریضہ اسلامی اقدار کا تحفظ ہی ہونا چاہیے۔
اب اس بات پر غور کریں کہ ہر چند سال بعد کسی نہ کسی مذہبی ایشو پر ملک کے عوام سراپا احتجاج ہوتے ہیں۔ حکومت پہلے خاموش رہتی ہے، پھر اپنی غلطی تسلیم کرتی ہے اور اس کے بعد عوام کے موقف کے سامنے سر جھکا دیتی ہے۔ عوام اگلے جہان کے لیے زاد راہ میسر آنے پر اطمینان کا سانس لیتے ہیں اور ان کے اس جہان کی زندگی واپس اپنے معمول پر آ جاتی ہے۔
رقص اور موسیقی سے لے کر شراب کے سرکاری لائسنس دینے اور فائیو سٹار ہوٹلوں میں نیو ایئر پارٹیوں تک حکمران طبقے (چند سو ایلیٹ خاندان اور ان کا بچا کھچا کھانے والے چند لاکھ اپر کلاس اور اپر مڈل کلاس خاندانوں) کے لائف سٹائل میں مداخلت کرتی کوئی مذہبی پابندی آپ کو بطور قانون یہاں نظر نہیں آئے گی۔
کیا آپ کو ریاستی ڈھانچے میں اسلام کہیں نظر آتا ہے؟ لیکن اس ملک کے عوام کے نزدیک چونکہ یہ ملک ایک اسلامی ریاست ہے لہٰذا ایک اسلامی ریاست کا سب سے بڑا فریضہ اسلامی اقدار کا تحفظ ہی ہونا چاہیے۔
اب اس بات پر غور کریں کہ ہر چند سال بعد کسی نہ کسی مذہبی ایشو پر ملک کے عوام سراپا احتجاج ہوتے ہیں۔ حکومت پہلے خاموش رہتی ہے، پھر اپنی غلطی تسلیم کرتی ہے اور اس کے بعد عوام کے موقف کے سامنے سر جھکا دیتی ہے۔ عوام اگلے جہان کے لیے زاد راہ میسر آنے پر اطمینان کا سانس لیتے ہیں اور ان کے اس جہان کی زندگی واپس اپنے معمول پر آ جاتی ہے۔
حالیہ مندر ایشو کو لے لیں۔ آپ کا جذبہ ایمانی اپنی جگہ مگر کیا آپ نے اس کی ٹائمنگ پر بھی غور کیا؟ میاں صاحب کی حکومت کے شدید بحران کے دنوں میں اس منصوبے کا آغاز کیا گیا اور تقریباً چار سال تک خاموشی رہی۔ پھر حالیہ دنوں میں جب حکومت کو پے درپے آٹا چینی اور پیٹرول کے سکینڈلوں پر تنقید کا سامنا تھا تو یہ پراجیکٹ ایک بار پھر سے منظر عام پر آ گیا۔
حسب توقع احتجاج ہوا اور اب شنید ہے کہ کام روک دیا جائے گا اور سرکاری فنڈز جاری نہ کرنے کا اعلان بھی جلد ہی متوقع ہے۔
عوام کو سستی بجلی، روزگار، صحت اور تعلیم دینا بڑا مشکل کام ہے اور عوام کے مذہبی جذبات کی تسکین کرنا انتہائی آسان۔ ہماری حکومتیں ستر بہتر سال سے یہ تسکین فراہم کرنے کی عادی ہیں۔
عوام کو سستی بجلی، روزگار، صحت اور تعلیم دینا بڑا مشکل کام ہے اور عوام کے مذہبی جذبات کی تسکین کرنا انتہائی آسان۔ ہماری حکومتیں ستر بہتر سال سے یہ تسکین فراہم کرنے کی عادی ہیں۔
بھٹو صاحب نے اپنے خلاف چلنے والی تحریک کا مقابلہ کیسے کیا؟ شراب پر پابندی، جمعے کی چھٹی، گھڑ دوڑ پر پابندی لگا کر۔
جنرل ضیاء الحق کا ریفرنڈم یاد ہے؟ ’کیا آپ اسلامی نظام چاہتے ہیں؟ اگر ہاں تو جنرل ضیاء پانچ سال کے لیے اس ملک کا صدر ہوں گے۔‘
مشرف نے وکلا تحریک سے توجہ ہٹانے کے لیے لال مسجد آپریشن شروع کروا دیا، یہ تو عوام اس طرف متوجہ نہیں ہوئے اور بعد میں ان کی اس مہم جوئی کا ردعمل شدید ترین دہشت گردی کی صورت میں نکلا ورنہ مشرف صاحب بطور صدر اسلامی جمہوریہ چند ماہ بعد عوامی احتجاج کے کارن علما کے کسی عالی شان اجتماع میں لال مسجد کی چابیاں دوبارہ مولانا عبدالعزیز کے حوالے کر رہے ہوتے۔
اب فرض کر لیں کہ ملک کے طول و عرض میں مندر کے خلاف جو حالیہ احتجاج ہوا ہے، ایسا احتجاج پٹرول کی حالیہ قیمتوں میں اضافے کے خلاف ہوتا۔ جیّد علما میدان عمل میں ہوتے۔ ٹوئٹر پر مسلمان حکمرانوں پر رعایا کے حقوق گنوائے جا رہے ہوتے، خلفائے راشدین کے عہد سے مثالیں دی جا رہی ہوتیں، جمعے کے خطبوں میں حکومت کو للکارا جا رہا ہوتا، تو اس سب کے بعد مندر کی تعمیر کو روکنے کی طرح حکومت پٹرول کی قیمت میں اضافے کو واپس لے لیتی؟
جی نہیں۔ حکومت کے لیے بہت آسان ہوتا کہ کوئی عاطف میاں ڈھونڈ کر اسے کسی کمیٹی میں شامل کرتی اور پھر عوام کے اس طرف متوجہ ہونے کا انتظار کرتی۔ پھر عاطف میاں کو پرزور عوامی اصرار پر اس کمیٹی سے نکال دیا جاتا۔
اب فرض کر لیں کہ ملک کے طول و عرض میں مندر کے خلاف جو حالیہ احتجاج ہوا ہے، ایسا احتجاج پٹرول کی حالیہ قیمتوں میں اضافے کے خلاف ہوتا۔ جیّد علما میدان عمل میں ہوتے۔ ٹوئٹر پر مسلمان حکمرانوں پر رعایا کے حقوق گنوائے جا رہے ہوتے، خلفائے راشدین کے عہد سے مثالیں دی جا رہی ہوتیں، جمعے کے خطبوں میں حکومت کو للکارا جا رہا ہوتا، تو اس سب کے بعد مندر کی تعمیر کو روکنے کی طرح حکومت پٹرول کی قیمت میں اضافے کو واپس لے لیتی؟
جی نہیں۔ حکومت کے لیے بہت آسان ہوتا کہ کوئی عاطف میاں ڈھونڈ کر اسے کسی کمیٹی میں شامل کرتی اور پھر عوام کے اس طرف متوجہ ہونے کا انتظار کرتی۔ پھر عاطف میاں کو پرزور عوامی اصرار پر اس کمیٹی سے نکال دیا جاتا۔
اسی طرح فرض کریں کہ فیض آباد کا ایک سابقہ دھرنا بجلی کی ہوش ربا قیمتوں میں اضافے کے خلاف ہو رہا ہوتا۔ کیا ایسا ممکن تھا کہ دارالحکومت کئی ہفتوں تک عملاً مفلوج رہتا اور پھر اس کے بعد حکومت اور مظاہرین میں بجلی کی کم قیمتوں کا راضی نامہ ہو جاتا؟
اس سوال کا بھی سادہ سا جواب ہے کہ نہیں۔ اس لیے کہ عوام کو کوئی حقیقی ریلیف فراہم کرنے کے لیے بالادست طبقے کو اپنے مفادات چھوڑنے پڑتے ہیں۔ عوام کی روحانی تازگی کا سامان کرنا اس کی نسبت بہت آسان کام ہے۔ جس دن عوام نے یہ جان لیا کہ ریاستی نظام کے کنویں میں نا انصافی کے مردہ کتے کی موجودگی میں اس کنویں سے جتنے بھی اسلامی مطالبات کے ڈول نکال لیے جائیں یہ کنواں وضو کرنے کے قابل نہیں ہو سکتا، اس دن ریاست کو عوام کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا۔
اس سوال کا بھی سادہ سا جواب ہے کہ نہیں۔ اس لیے کہ عوام کو کوئی حقیقی ریلیف فراہم کرنے کے لیے بالادست طبقے کو اپنے مفادات چھوڑنے پڑتے ہیں۔ عوام کی روحانی تازگی کا سامان کرنا اس کی نسبت بہت آسان کام ہے۔ جس دن عوام نے یہ جان لیا کہ ریاستی نظام کے کنویں میں نا انصافی کے مردہ کتے کی موجودگی میں اس کنویں سے جتنے بھی اسلامی مطالبات کے ڈول نکال لیے جائیں یہ کنواں وضو کرنے کے قابل نہیں ہو سکتا، اس دن ریاست کو عوام کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا۔
No comments:
Post a Comment