Sunday, July 26, 2020

مردِ حُر آصف علی زرداری - ايک زرداری سب پر بھاری

تحریر: آفتاب احمد گورائیہ

‏مرد حر آصف علی زرداری ضمیر کا وہ قیدی ہے جس نے اپنی عظیم اہلیہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو سے شادی کے موقع پر کیا جانے والا عہد کہ آج کے بعد محترمہ جیل نہیں جائیں گی بلکہ ان کی جگہ میں جیل جاؤں گا کو نبھاتے نبھاتے ساری جوانی کسی بھی مقدمے میں سزا نہ ہونے کے باوجود جیل میں گزار دی. جیل میں گزارے گئے ساڑھے گیارہ سال کا ایک ایک دن زرداری صاحب کی استقامت، ہمت و حوصلے، بہادری اور جوانمردی کی الگ الگ داستان لئے ہوئے ہے. جیل میں ہونے والے تشدد، زبان کاٹے جانے اور عدالتوں کی جانب سے مقدمات کو التوا میں ڈالنے کے لئے دی جانے والی لمبی تاریخوں کے باوجود زرداری صاحب کو ہمیشہ مسکراتے ہی دیکھا گیا. بڑے سے بڑا ظلم اور ناانصافی بھی زرداری صاحب کی مسکراہٹ نہ چھین سکی. زرداری صاحب کی یہی مسکراہٹ ان کے مخالفین کے لئے سب سے بڑا ڈر اور خوف کی علامت بن گئی. زرداری صاحب کی یہی ہمت اور بہادری تھی کہ بدترین مخالف نوائے وقت کے مدیر مجید نظامی نے زرداری صاحب کو مرد حر کا خطاب دیا جو آج زرداری صاحب کے نام کا حصہ بن چکا ہے.
‏کون سا الزام ہے جو زرداری صاحب پر نہیں لگایا گیا، کون سا مقدمہ ہے جو زرداری صاحب پر نہیں بنایا گیا؟ لیکن کوئی بھی الزام یا جھوٹا مقدمہ زرداری صاحب کی ہمت اور حوصلے کو شکست نہ دے سکا. جھوٹے مقدمات بنانے والوں نے بعد میں جھوٹے مقدمات پر معافی بھی مانگی. نواز شریف دور کے چیرمین احتساب کمیشن سیف الرحمن کی جانب سے زرداری صاحب کے پاؤں پکڑ کر معافی مانگنے والے واقعے کو کون بھلا سکتا ہے. ٹیپس سکینڈل جس کے نتیجے میں جسٹس قیوم اور جسٹس راشد کو استعفی دینے پڑے وہ بھی جھوٹے مقدمات کا ایک اور ثبوت ہے. نواز شریف کے طویل انٹرویو پر مبنی سہیل وڑائچ کی کتاب “غدارکون” میں نواز شریف کا زرداری صاحب کے مقدمات کے بارے اعتراف بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ یہ تمام مقدمات جھوٹ پر مبنی تھے اور ان مقدمات کا مقصد محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو دباؤ میں لانا تھا.
‏زرداری صاحب کی شخصیت کا ایک اور نادر پہلو یہ بھی ہے کہ تمام تر جھوٹے مقدمات اور مسلسل پروپیگنڈہ کے باوجود جب بھی قومی معاملات پر اتفاق رائے کی ضرورت پیش آئی تو زرداری صاحب نے کبھی بھی ذاتی رنجش اور انا کو آڑے نہیں آنے دیا اور قومی ایجنڈے پر سب جماعتوں کو اکٹھا کرنے کے لیئے ہمیشہ اپنا کردار ادا کیا. اٹھارویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ پر تمام جماعتوں کا اتفاق اس کردار کا منہ بولتا ثبوت ہے.
‏محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کا موقع جہاں زرداری صاحب کے لئیے ذاتی طور پر نہایت غم کا وقت تھا وہاں زرداری صاحب کی قائدانہ صلاحیتوں کا بھی بہت بڑا امتحان تھا. ایک ایسے وقت میں جب پوری قوم غم و اندوہ کے سمندر میں ڈوب چکی تھی وہیں کچھ لوگوں نے جب پاکستان کے خلاف نعرہ لگایا تو زرداری صاحب نے جواب میں پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر ان آوازوں کو فوراً خاموش کروا دیا.
‏دو ہزار آٹھ کے انتخابات کے بعد زرداری صاحب جب صدر مملکت منتخب ہوئے تو مشرف دور میں ہونے والی ترامیم کے باعث آئین کا حلیہ بگڑ چکا تھا. تمام تر اختیارات صدر کو منتقل ہو چکے تھے. صدر منتخب ہونے کے بعد پارلیمنٹ سے اپنے پہلے خطاب میں زرداری صاحب نے اپنے اختیارات پارلیمنٹ کو واپس منتقل کرنے کا اعلان کیا اور اگلے ایک سال کے دوران اٹھارویں ترمیم کے زریعے اپنے اس وعدے کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیا. اٹھارویں ترمیم کے زریعے نہ صرف اختیارات پارلیمنٹ اور وزیراعظم کو منتقل کئے گئے بلکہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے ویژن کو عملی جامہ پہنچاتے ہوئے بہت سے اختیارات صوبوں کو منتقل کر دئیے گئے. اٹھارویں ترمیم کے زریعے ہی پختون قوم کا دیرینہ مطالبہ پورا کرتے ہوئے صوبہ سرحد کو خیبرپختونخواہ کانام دیا گیا. کسی طاقتور صدر کی جانب سے اپنے اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل کرنے کا یہ ایک منفرد واقعہ ہے.
‏صدر مملکت آصف علی زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے دہشت گردی اور نامساعد حالات کے باوجود بہت سے ایسے کام سر انجام دئیے جن کے پیچھے زرداری صاحب کی زیرک قیادت اور ویژن بھرپور طریقے سے موجود ہے. آئین کی بحالی، سوات آپریشن، سوات آپریشن کے مہاجرین کی کامیابی سے اپنے گھروں کو واپسی، دو بڑے سیلابوں کی تباہ کاریوں سے کامیابی سے نمٹنا، تھر کول جیسے گیم چینجر پراجیکٹ کا اغاز، تھر ڈویلپمنٹ پراجیکٹس، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام، سرکاری ملازمین اور پنشننرز کی تنخواہوں میں اضافے، صوبہ سندھ میں صحت کے شعبے میں ہونے والے انقلابی اقدامات، پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبہ اور سی پیک کی بنیاد رکھنے جیسے ان گنت منصوبے ہیں جن کے پیچھے زرداری صاحب کی بھرپور حکمت اور سوچ کارفرما نظر آتی ہے.
‏آصف علی زرداری پاکستان کی سیاست کا وہ کردار ہیں جن کے خلاف مسلسل پروپیگنڈہ کیا گیا جھوٹے الزامات اور مقدمات کی بھرمار کی گئی لیکن زرداری صاحب آج بھی پاکستان کی سیاست میں ایک مرکزی کردار کی حیثیت رکھتے ہیں. پیپلز پارٹی کے بدترین نقاد حسن نثار کے مطابق آصف علی زرداری پاکستان کی سیاست کا مظلوم ترین کردار ہے جس کی مسلسل کردار کشی کی گئی. آج چار چھ مہینے کی قید گزار کر آنے والے سیاسی رہنماؤں کی جانب سے سوال کیا جاتا ہے کہ جیل میں گزارے گئے ان کے چند ماہ کا حساب کون دے گا؟ زرداری صاحب کی ساری جوانی بیوی بچوں سے دور جیلوں میں گزر گئی اور وہ سب مقدمات میں باعزت بری ہوئے سارے مقدمات جھوٹے ثابت ہوئے. کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ زرداری صاحب کے جیل میں گزرے ماہ و سال کا حساب کون دے گا؟

No comments: