تحریر: آفتاب احمد گوارئیہ
شہید رانی محترمہ بینظیر بھٹو کا شمار ان رہنماؤں میں کیا جاتا ہے جن کی ذہانت، عظمت اور قابلیت کا اعتراف ملکی اور غیر ملکی سطح پر کیا جاتا ھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو ایک عظیم لیڈر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہادر خاتون بھی تھیں جنہوں نے نہایت نامساعد حالات میں سیاست میں قدم رکھا۔ بدترین ڈکٹیٹر شپ کا سامنا کیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو اپنے سیاسی سفر میں بے شمار مشکلات و مصائب سے گزرنا پڑا، جنرل ضیا کی بدترین آمریت اور اس کے بعد اسٹیبلشمنٹ کی پروردہ مخالف حکومتوں کے خلاف شہید رانی کی جدوجہد سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے بدترین حالات میں بھی ہمت نہ ہاری، مشکل سے مشکل حالات میں بھی ڈٹی رہیں لیکن آئین پاکستان اور جمہوریت سے اپنی غیر متزلزل وابستگی پر حرف نہیں آنے دیا۔ آج بھی ملکی اور غیر ملکی سطح پر اپنی جہد مسلسل، جمہوریت اور انسانی حقوق کی چمپئن کے طور پر محترمہ بینظیر بھٹو کو پاکستان کا روشن چہرہ سمجھا جاتا ہے۔ تاریخ انہیں ایک ذہین و فطین، قابل اور جراتمند سیاسی رہنما کے طور پر جانتی ہے۔
محترمہ بینظیر بھٹو نے سیاست میں قدم رکھا تو ملک میں آمریت کا گھپ اندھیرا ضیائی مارشل لاء کی صورت میں مسلط تھا۔ چیرمین بھٹو کو پھانسی پر لٹکا کر منظرنامے سے ہٹایا جا چکا تھا۔ محترمہ بینظیر بھٹو، محترمہ نصرت بھٹو اور پیپلز پارٹی کے رہنما و کارکن مسلسل قید و بند کا شکار تھے۔ تو یہ تھے وہ حالات جن میں محترمہ بینظیر بھٹو نے عوام کی قیادت کا بیڑا اٹھایا اور اپنے ملک اور قوم کو مارشل لاء کے گھپ اندھیرے سے نکالنے کے لئے جمہوریت کی جانب سفر شروع کیا۔ یہ ایک مشکل سفر تھا لیکن کوئی بھی مشکل اور مصیبت محترمہ بینظیر بھٹو کے قدم نہ لڑکھڑا سکی۔ سکھر جیل میں قید تنہائی اور شدید گرمی میں گزرے شب و روز کو انتہائی بہادری، عزم اور جرات سے گزار کر محترمہ بینظیر بھٹو نے ضیا آمریت کا سر شرم سے جھکا دیا۔ بالآخر 1988 کے انتخابات کے نتیجے میں ملک سے سیاہ رات کا خاتمہ ہوا اور ملک میں جمہوریت کا سورج طلوع ہوا۔ محترمہ بینظیر بھٹو دنیا کی کم عمر ترین اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہو گئیں۔
محترمہ بینظیر بھٹو کے وزیراعظم منتخب ہوتے ہی آمریت کی باقیات نے اپنے آقاؤں کے اشارے پر جمہوریت کے خلاف ایک بار پھر صف بندی شروع کردی اور جمہوری قوتوں کے خلاف سازشوں کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ انہی سازشوں کے نتیجے میں انیس سو نوے میں بدنام زمانہ آٹھویں ترمیم کے زور پر محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت ختم کر دی گئی لیکن محترمہ انیس سو ترانوے میں ایک بار پھر عوام کی طاقت سے برسر اقتدار آ گئیں لیکن آٹھویں ترمیم کے ہی کلہاڑے سے حکومت ایک دفعہ پھر چھین لی گئی۔ اس تمام عرصے کے دوران الیکشن کے نتائج کی انجنئیرنگ کی جاتی رہی جو تاریخ کا ایک اور سیاہ باب ہے۔ انیس سو نوے کا الیکشن محترمہ بینظیر بھٹو پہلے سے بھی زیادہ اکثریت سے جیت رہی تھیں لیکن راتوں رات نتائج بدل دئیے گئے اور پورا الیکشن چرا لیا گیا۔ آج تاریخ کی عدالت اس دھاندلی کو ثابت کر چکی ہے لیکن انصاف کی عدالت سے محترمہ کو انصاف کبھی نہ مل سکا۔ اسی طرح انیس سو ستانوے کے الیکشن میں بھی محترمہ بینظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی کو صرف سندھ تک محدود کر دیا گیا۔ دو ہزار دو کے الیکشن میں محترمہ بینظیر بھٹو کو الیکشن میں حصہ لینے سے روک دیا گیا اس کے ساتھ ساتھ الیکشن کمپین کے لئے پاکستان آنے کی اجازت بھی نہ دی گئی اس کے باوجود محترمہ بینظیر بھٹو کی پیپلزپارٹی اس الیکشن میں سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی لیکن جنرل مشرف کی آمریت نے حکومت نہ بنانے دی۔ ان تمام الیکشنز میں کی جانے والی دھاندلیوں کے باوجود محترمہ بینظیر بھٹو کا کردار ایک مدبر, ذمہ دار اور محب وطن رہنما کا رہا۔ محترمہ نے تمام تر تحفظات کے باوجود ہمیشہ الیکشن نتائج کو تسلیم کیا اور کبھی اپنی جدوجہد کو جمہوری اقدار کے دائرے سے نکلنے نہیں دیا تاکہ ملک انارکی اور انتشار کا شکار نہ ہو۔ تمام تر دھاندلیوں کے باوجود ہمیشہ ان الیکشنز کے نتیجے میں بننی والی پارلیمان میں بیٹھنے کو ترجیح دی۔ محترمہ کہا کرتی تھیں کہ کمزور سے کمزور جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہوتی ہے۔
دھشت گردی کے خلاف بھی محترمہ بینظیر بھٹو کا موقف بالکل واضح تھا۔ جب دوسرے سیاسی رہنما دھشت گردوں کے ڈر سے کوئی واضح موقف دینے سے گھبراتے تھے تو ایسے میں محترمہ بینظیر بھٹو ہی تھیں جنہوں نے کھل کر دھشت گردوں کو للکارا اور اپنی آخری تقریر میں اپنی حکومت آنے کے بعد سوات کو دھشت گردوں سے چھڑانے کا اعلان کیا۔ محترمہ بینظیر بھٹو کو اس صورتحال کا مکمل ادراک تھا کہ اپنے اصولی موقف کے باعث وہ دھشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر ہیں لیکن شہید رانی نہایت بہادری اور جرات کے ساتھ اپنے موقف پر قائم رہیں یہاں تک بزدل دشمن اپنے گھناونے عزائم میں کامیاب ہو گئے اور محترمہ بینظیر بھٹو شہادت کے منصب پر فائز ہو کو شہید رانی کا لقب پا گئیں۔
شہید رانی کا شمار ان رہنماؤں میں ہوتا ہے جن کا نام مخالفین بھی عقیدت اور احترام سے لیتے ہیں۔ ایسے میں چند کم ظرف لوگ اپنی فطرت سے مجبور ہو کر شہید رانی کی ذات پر کیچڑ اچھال کر اپنا قد بڑھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں ایک نام نہاد امریکی صحافی سنتھیا رچی محترمہ بینظیر بھٹو کی ذات پر کیچڑ اچھالنے کی مذموم حرکت کی مرتکب ہوئی ہے۔ سنتھیا رچی کی اس حرکت کے جواب میں ملک بھر سے آنے والے ردعمل سے سنتھیا کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ محترمہ بینظیر بھٹو آج بھی پاکستان کے عوام کے دل پر راج کرتی ہیں اور وہ شہید رانی کی ذات کے بارے کئے جانے والے کسی بھی قسم کے پروپیگنڈے کو جوتی کی نوک پر بھی نہیں رکھتے۔
محترمہ بینظیر بھٹو نے سیاست میں قدم رکھا تو ملک میں آمریت کا گھپ اندھیرا ضیائی مارشل لاء کی صورت میں مسلط تھا۔ چیرمین بھٹو کو پھانسی پر لٹکا کر منظرنامے سے ہٹایا جا چکا تھا۔ محترمہ بینظیر بھٹو، محترمہ نصرت بھٹو اور پیپلز پارٹی کے رہنما و کارکن مسلسل قید و بند کا شکار تھے۔ تو یہ تھے وہ حالات جن میں محترمہ بینظیر بھٹو نے عوام کی قیادت کا بیڑا اٹھایا اور اپنے ملک اور قوم کو مارشل لاء کے گھپ اندھیرے سے نکالنے کے لئے جمہوریت کی جانب سفر شروع کیا۔ یہ ایک مشکل سفر تھا لیکن کوئی بھی مشکل اور مصیبت محترمہ بینظیر بھٹو کے قدم نہ لڑکھڑا سکی۔ سکھر جیل میں قید تنہائی اور شدید گرمی میں گزرے شب و روز کو انتہائی بہادری، عزم اور جرات سے گزار کر محترمہ بینظیر بھٹو نے ضیا آمریت کا سر شرم سے جھکا دیا۔ بالآخر 1988 کے انتخابات کے نتیجے میں ملک سے سیاہ رات کا خاتمہ ہوا اور ملک میں جمہوریت کا سورج طلوع ہوا۔ محترمہ بینظیر بھٹو دنیا کی کم عمر ترین اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہو گئیں۔
محترمہ بینظیر بھٹو کے وزیراعظم منتخب ہوتے ہی آمریت کی باقیات نے اپنے آقاؤں کے اشارے پر جمہوریت کے خلاف ایک بار پھر صف بندی شروع کردی اور جمہوری قوتوں کے خلاف سازشوں کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ انہی سازشوں کے نتیجے میں انیس سو نوے میں بدنام زمانہ آٹھویں ترمیم کے زور پر محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت ختم کر دی گئی لیکن محترمہ انیس سو ترانوے میں ایک بار پھر عوام کی طاقت سے برسر اقتدار آ گئیں لیکن آٹھویں ترمیم کے ہی کلہاڑے سے حکومت ایک دفعہ پھر چھین لی گئی۔ اس تمام عرصے کے دوران الیکشن کے نتائج کی انجنئیرنگ کی جاتی رہی جو تاریخ کا ایک اور سیاہ باب ہے۔ انیس سو نوے کا الیکشن محترمہ بینظیر بھٹو پہلے سے بھی زیادہ اکثریت سے جیت رہی تھیں لیکن راتوں رات نتائج بدل دئیے گئے اور پورا الیکشن چرا لیا گیا۔ آج تاریخ کی عدالت اس دھاندلی کو ثابت کر چکی ہے لیکن انصاف کی عدالت سے محترمہ کو انصاف کبھی نہ مل سکا۔ اسی طرح انیس سو ستانوے کے الیکشن میں بھی محترمہ بینظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی کو صرف سندھ تک محدود کر دیا گیا۔ دو ہزار دو کے الیکشن میں محترمہ بینظیر بھٹو کو الیکشن میں حصہ لینے سے روک دیا گیا اس کے ساتھ ساتھ الیکشن کمپین کے لئے پاکستان آنے کی اجازت بھی نہ دی گئی اس کے باوجود محترمہ بینظیر بھٹو کی پیپلزپارٹی اس الیکشن میں سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی لیکن جنرل مشرف کی آمریت نے حکومت نہ بنانے دی۔ ان تمام الیکشنز میں کی جانے والی دھاندلیوں کے باوجود محترمہ بینظیر بھٹو کا کردار ایک مدبر, ذمہ دار اور محب وطن رہنما کا رہا۔ محترمہ نے تمام تر تحفظات کے باوجود ہمیشہ الیکشن نتائج کو تسلیم کیا اور کبھی اپنی جدوجہد کو جمہوری اقدار کے دائرے سے نکلنے نہیں دیا تاکہ ملک انارکی اور انتشار کا شکار نہ ہو۔ تمام تر دھاندلیوں کے باوجود ہمیشہ ان الیکشنز کے نتیجے میں بننی والی پارلیمان میں بیٹھنے کو ترجیح دی۔ محترمہ کہا کرتی تھیں کہ کمزور سے کمزور جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہوتی ہے۔
دھشت گردی کے خلاف بھی محترمہ بینظیر بھٹو کا موقف بالکل واضح تھا۔ جب دوسرے سیاسی رہنما دھشت گردوں کے ڈر سے کوئی واضح موقف دینے سے گھبراتے تھے تو ایسے میں محترمہ بینظیر بھٹو ہی تھیں جنہوں نے کھل کر دھشت گردوں کو للکارا اور اپنی آخری تقریر میں اپنی حکومت آنے کے بعد سوات کو دھشت گردوں سے چھڑانے کا اعلان کیا۔ محترمہ بینظیر بھٹو کو اس صورتحال کا مکمل ادراک تھا کہ اپنے اصولی موقف کے باعث وہ دھشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر ہیں لیکن شہید رانی نہایت بہادری اور جرات کے ساتھ اپنے موقف پر قائم رہیں یہاں تک بزدل دشمن اپنے گھناونے عزائم میں کامیاب ہو گئے اور محترمہ بینظیر بھٹو شہادت کے منصب پر فائز ہو کو شہید رانی کا لقب پا گئیں۔
شہید رانی کا شمار ان رہنماؤں میں ہوتا ہے جن کا نام مخالفین بھی عقیدت اور احترام سے لیتے ہیں۔ ایسے میں چند کم ظرف لوگ اپنی فطرت سے مجبور ہو کر شہید رانی کی ذات پر کیچڑ اچھال کر اپنا قد بڑھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں ایک نام نہاد امریکی صحافی سنتھیا رچی محترمہ بینظیر بھٹو کی ذات پر کیچڑ اچھالنے کی مذموم حرکت کی مرتکب ہوئی ہے۔ سنتھیا رچی کی اس حرکت کے جواب میں ملک بھر سے آنے والے ردعمل سے سنتھیا کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ محترمہ بینظیر بھٹو آج بھی پاکستان کے عوام کے دل پر راج کرتی ہیں اور وہ شہید رانی کی ذات کے بارے کئے جانے والے کسی بھی قسم کے پروپیگنڈے کو جوتی کی نوک پر بھی نہیں رکھتے۔
No comments:
Post a Comment