تحریر: آفتاب احمد گورائیہ
پاکستان میں کرونا کے مریضوں کی تعداد تیـزی سے بڑھتے ہوئے ستائیس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے. روزانہ کی بنیاد پر بڑھنے والے مریضوں کی تعداد بھی اب ہزاروں میں ہے. وفاقی حکومت جو کبھی بھی لاک ڈاون کی مکمل طور پر حامی نہیں تھی اب لاک ڈاون کھولنے کا اعلان کر چکی ہے. اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آنے والے چند ہفتوں میں کرونا کے مریضوں کی تعداد کہاں تک پہنچ سکتی ہے.
وزیراعظم اور ان کی وفاقی حکومت کی جانب سے کرونا مینجمنٹ کے حوالے سے شروع دن سے ہی بڑا کنفیوزڈ اور مبہم سا رویہ رہا ہے. کسی بھی موقع پر کبھی بھی وزیراعظم اور وفاقی حکومت کی جانب سے کوئی واضح پالیسی یا گائیڈ لائن سامنے نہیں آسکی.
مارچ کے تیسرے ہفتے جب سندھ حکومت نے پہل کرتے ہوئے صوبہ سندھ میں لاک ڈاون شروع کیا تو وزیراعظم نے اُسی دن اپنی تقریر میں لاک ڈاون کی مخالفت کرتے ہوئے لاک ڈاون نہ کرنے کا اعلان کر دیا. وزیراعظم کے اعلان کے اگلے ہی روز باقی تمام صوبوں نے بھی صوبہ سندھ کی پیروی کرتے ہوئے اپنے طور پر لاک ڈاون کا اعلان کر دیا. اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک روز پہلے وزیراعظم لاک ڈاون کی مخالفت کا اعلان کر چکے تھے تو پی ٹی آئی کی حکومتوں والے تینوں صوبوں نے لاک ڈاون کا اعلان کس کے کہنے پر کیا؟ پس پردہ وہ کون سی طاقت تھی جس نے وزیراعظم کی مرضی اور اعلان کے باوجود صوبوں کو لاک ڈاون پر مجبور کر دیا؟
لاک ڈاون شروع ہونے کے ساتھ ہی وزیراعظم اور وفاقی وزرا کی جانب سے ہر وہ کام کیا گیا جس سے لاک ڈاون کو کمزور کیا جا سکے. سمارٹ لاک ڈاون کے نام پر کنسٹرکشن کے کاروبار اور دوکانوں کو کھولنے کی بات کی گئی. خانہ کعبہ اور مسجد نبوی بند ہونے کے باوجود پاکستان میں مساجد کو کھلا رکھا گیا اور کبھی بینظیر انکم سپورٹ کے نام پر دی جانے والی رقوم کو بینک اکاونٹس میں بھیجے جانے کی بجائے نقد ادائیگی کے نام پر بڑے بڑے ہجوم اکٹھے کئے گئے. ساتھ ہی ساتھ وفاقی وزرا، گورنرز اور وزرائے اعلی نے درجنوں گاڑیوں کے پروٹوکول میں بینظیر انکم سپورٹ سنٹرز کے دورے شروع کر دئیے. حکومت کے اعلی عہدیداروں کی جانب سے لاک ڈاون کی ایسی کھلی ورزی نہایت اعلی درجے کی غیر ذمہ داری اور مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ تھا.
لاک ڈاون کی مخالفت اور خلاف ورزیوں کے علاوہ وزیراعظم کی جانب سے کی جانے والی تقریروں نے عوام میں شعور پیدا کرنے کی بجائے کنفیوژن پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا. کبھی کہا گیا کہ کرونا کوئی خطرناک وبا نہیں بس عام سا فلو ہے جو صرف بزرگوں کو ہوتا ہے جبکہ نوجوان اس سے متاثر نہیں ہوتے اس لئے اس سے گھبرانے کی کوئی ضررورت نہیں. کبھی کہا گیا کہ کرونا نے پھیلنا ہی پھیلنا ہے لہذا ہم اس کے لئے کچھ نہیں کر سکتے. ملک کے سب سے زیادہ قابل احترام آفس کی جانب سے اس قسم کی غیر ذمہ دارانہ تقریروں نے عوام میں لاک ڈاون کو غیر اہم اور ضروری نہ سمجھنے کی سوچ کو جنم دیا.
میڈیا میں بار بار کرونا کے خلاف ناکام حکمت عملی کا مظاہرہ کرنے والے امریکہ اور یورپی ممالک کا حوالہ دے کر ثابت کیا جاتا رہا کہ لاک ڈاون کا کوئی فائدہ نہیں کرونا کو پھیلنے سے نہیں روکا جا سکتا. وفاقی حکومت کا یہ رویہ جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی ہتھیار ڈالنے کے مترادف تھا. کرونا کے خلاف جنگ میں ناکام رہنے والے ممالک کی بجائے اگر کرونا کے خلاف جنگ جیتنے والے ممالک نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، سنگاپور، تائیوان، ہانگ کانگ وغیرہ کی مثال قوم کے سامنے رکھی جاتی تو عوام کا حوصلہ بڑھتا، عوام میں شعور پیدا ہوتا، عوام کو یقین ہوتا کہ کرونا کے خلاف جنگ جیتی جا سکتی ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وفاقی حکومت اس محاذ پر بھی مکمل ناکام رہی.
لاک ڈاون کے خلاف سب سے بڑی دلیل یہ جاتی ہے کہ غریب اور دیہاڑی دار طبقہ اس سے بہت زیادہ متاثر ہوتا ہے. کسی حد تک یہ بات ٹھیک بھی ہے لیکن سوال یہ بھی ہے کہ اگر آپ کے سامنے بھوک اور موت کی چوائس رکھی جائے تو آپ کا انتخاب کیا ہو گا؟ مانا کہ ہمارے ملک کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ غیر معینہ مدت تک لوگوں کو بٹھا کر کھلایا جا سکے یا ان کی امداد کی جا سکے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ابھی ہمارے لوگوں میں اتنا جذبہ موجود ہے کہ اپنے آس پاس موجود ضرورت مند لوگوں کا خیال رکھ سکیں. میرا ذاتی خیال ہے کہ غیر سرکاری ذرائع سے اس وقت بھی حکومتی ذرائع کی نسبت غریب لوگوں کا بہتر خیال رکھا جا رہا ہے.
اگر حکومت کی جانب سے پچھلے چھ ہفتے میں مکمل لاک ڈاون کیا جاتا اور سختی سے لاک ڈاون پر عملدرامد کیا جاتا تو آج کرونا کے مریضوں کی تعداد بہت کم ہوتی اور ہم اس قابل ہوتے کہ سمارٹ لاک ڈاون سے ہوتے ہوئے ایس او پیز کی مدد سے لاک ڈاون مکمل طور پر کھولنے کی پوزیشن میں ہوتے.
اب صورتحال یہ ہے کہ موثر لاک ڈاون نہ ہونے کی وجہ سے روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں کرونا کے مریض سامنے آ رہے ہیں. اگلے چند ہفتوں میں یہ تعداد کہاں تک پہنچے گی اس کا جواب نہ وزیراعظم کے پاس ہے اور نہ ان کی وفاقی حکومت کے پاس جنہوں نے WHO کی وارننگ کو نظرانداز کرتے ہوئے اور پورے ملک کے ڈاکٹروں کے کہنے کے باوجود لاک ڈاون کھول دیا ہے. اب اس کا نتیجہ جو بھی نکلے اس کی ذمہ داری براہ راست وزیراعظم پر ہو گی.
وزیراعظم اور ان کی وفاقی حکومت کی جانب سے کرونا مینجمنٹ کے حوالے سے شروع دن سے ہی بڑا کنفیوزڈ اور مبہم سا رویہ رہا ہے. کسی بھی موقع پر کبھی بھی وزیراعظم اور وفاقی حکومت کی جانب سے کوئی واضح پالیسی یا گائیڈ لائن سامنے نہیں آسکی.
مارچ کے تیسرے ہفتے جب سندھ حکومت نے پہل کرتے ہوئے صوبہ سندھ میں لاک ڈاون شروع کیا تو وزیراعظم نے اُسی دن اپنی تقریر میں لاک ڈاون کی مخالفت کرتے ہوئے لاک ڈاون نہ کرنے کا اعلان کر دیا. وزیراعظم کے اعلان کے اگلے ہی روز باقی تمام صوبوں نے بھی صوبہ سندھ کی پیروی کرتے ہوئے اپنے طور پر لاک ڈاون کا اعلان کر دیا. اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک روز پہلے وزیراعظم لاک ڈاون کی مخالفت کا اعلان کر چکے تھے تو پی ٹی آئی کی حکومتوں والے تینوں صوبوں نے لاک ڈاون کا اعلان کس کے کہنے پر کیا؟ پس پردہ وہ کون سی طاقت تھی جس نے وزیراعظم کی مرضی اور اعلان کے باوجود صوبوں کو لاک ڈاون پر مجبور کر دیا؟
لاک ڈاون شروع ہونے کے ساتھ ہی وزیراعظم اور وفاقی وزرا کی جانب سے ہر وہ کام کیا گیا جس سے لاک ڈاون کو کمزور کیا جا سکے. سمارٹ لاک ڈاون کے نام پر کنسٹرکشن کے کاروبار اور دوکانوں کو کھولنے کی بات کی گئی. خانہ کعبہ اور مسجد نبوی بند ہونے کے باوجود پاکستان میں مساجد کو کھلا رکھا گیا اور کبھی بینظیر انکم سپورٹ کے نام پر دی جانے والی رقوم کو بینک اکاونٹس میں بھیجے جانے کی بجائے نقد ادائیگی کے نام پر بڑے بڑے ہجوم اکٹھے کئے گئے. ساتھ ہی ساتھ وفاقی وزرا، گورنرز اور وزرائے اعلی نے درجنوں گاڑیوں کے پروٹوکول میں بینظیر انکم سپورٹ سنٹرز کے دورے شروع کر دئیے. حکومت کے اعلی عہدیداروں کی جانب سے لاک ڈاون کی ایسی کھلی ورزی نہایت اعلی درجے کی غیر ذمہ داری اور مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ تھا.
لاک ڈاون کی مخالفت اور خلاف ورزیوں کے علاوہ وزیراعظم کی جانب سے کی جانے والی تقریروں نے عوام میں شعور پیدا کرنے کی بجائے کنفیوژن پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا. کبھی کہا گیا کہ کرونا کوئی خطرناک وبا نہیں بس عام سا فلو ہے جو صرف بزرگوں کو ہوتا ہے جبکہ نوجوان اس سے متاثر نہیں ہوتے اس لئے اس سے گھبرانے کی کوئی ضررورت نہیں. کبھی کہا گیا کہ کرونا نے پھیلنا ہی پھیلنا ہے لہذا ہم اس کے لئے کچھ نہیں کر سکتے. ملک کے سب سے زیادہ قابل احترام آفس کی جانب سے اس قسم کی غیر ذمہ دارانہ تقریروں نے عوام میں لاک ڈاون کو غیر اہم اور ضروری نہ سمجھنے کی سوچ کو جنم دیا.
میڈیا میں بار بار کرونا کے خلاف ناکام حکمت عملی کا مظاہرہ کرنے والے امریکہ اور یورپی ممالک کا حوالہ دے کر ثابت کیا جاتا رہا کہ لاک ڈاون کا کوئی فائدہ نہیں کرونا کو پھیلنے سے نہیں روکا جا سکتا. وفاقی حکومت کا یہ رویہ جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی ہتھیار ڈالنے کے مترادف تھا. کرونا کے خلاف جنگ میں ناکام رہنے والے ممالک کی بجائے اگر کرونا کے خلاف جنگ جیتنے والے ممالک نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، سنگاپور، تائیوان، ہانگ کانگ وغیرہ کی مثال قوم کے سامنے رکھی جاتی تو عوام کا حوصلہ بڑھتا، عوام میں شعور پیدا ہوتا، عوام کو یقین ہوتا کہ کرونا کے خلاف جنگ جیتی جا سکتی ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وفاقی حکومت اس محاذ پر بھی مکمل ناکام رہی.
لاک ڈاون کے خلاف سب سے بڑی دلیل یہ جاتی ہے کہ غریب اور دیہاڑی دار طبقہ اس سے بہت زیادہ متاثر ہوتا ہے. کسی حد تک یہ بات ٹھیک بھی ہے لیکن سوال یہ بھی ہے کہ اگر آپ کے سامنے بھوک اور موت کی چوائس رکھی جائے تو آپ کا انتخاب کیا ہو گا؟ مانا کہ ہمارے ملک کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ غیر معینہ مدت تک لوگوں کو بٹھا کر کھلایا جا سکے یا ان کی امداد کی جا سکے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ابھی ہمارے لوگوں میں اتنا جذبہ موجود ہے کہ اپنے آس پاس موجود ضرورت مند لوگوں کا خیال رکھ سکیں. میرا ذاتی خیال ہے کہ غیر سرکاری ذرائع سے اس وقت بھی حکومتی ذرائع کی نسبت غریب لوگوں کا بہتر خیال رکھا جا رہا ہے.
اگر حکومت کی جانب سے پچھلے چھ ہفتے میں مکمل لاک ڈاون کیا جاتا اور سختی سے لاک ڈاون پر عملدرامد کیا جاتا تو آج کرونا کے مریضوں کی تعداد بہت کم ہوتی اور ہم اس قابل ہوتے کہ سمارٹ لاک ڈاون سے ہوتے ہوئے ایس او پیز کی مدد سے لاک ڈاون مکمل طور پر کھولنے کی پوزیشن میں ہوتے.
اب صورتحال یہ ہے کہ موثر لاک ڈاون نہ ہونے کی وجہ سے روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں کرونا کے مریض سامنے آ رہے ہیں. اگلے چند ہفتوں میں یہ تعداد کہاں تک پہنچے گی اس کا جواب نہ وزیراعظم کے پاس ہے اور نہ ان کی وفاقی حکومت کے پاس جنہوں نے WHO کی وارننگ کو نظرانداز کرتے ہوئے اور پورے ملک کے ڈاکٹروں کے کہنے کے باوجود لاک ڈاون کھول دیا ہے. اب اس کا نتیجہ جو بھی نکلے اس کی ذمہ داری براہ راست وزیراعظم پر ہو گی.
No comments:
Post a Comment