تاریخ جہاں دلنواز ہوتی ہے وہاں دل سوز اور دلخراش بھی۔ اقوام کی اٹھان اور تنزلی کی تاریخ دیکھ کر ان کے رویوں، حالات اور نتائج کو سمجھا اور پرکھا جاتا ہے۔اپنا المیہ یہ ہے کہ سوہنی دھرتی کی تاریخ کو مؤرخ کم ملتے ہیں اور ’’انجینئر‘‘ زیادہ۔
اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم تاریخ کی حقیقت، ہیئت اور اصلیت کے بجائے اس کی اختراعات پر زیادہ ایمان لے آتے ہیں۔ جس دن مؤرخ کامل مل گیا سمجھ لیجئے پیر کامل میسر آگیا۔ میرے جیسے بندے کو ویسے ہی پیر کہاں نصیب، مگر امید پر دنیا قائم ہے۔ کل پرسوں ہمیں ایک ولی اللہ ملا بھی تو وہ روحانی کم تھا اور سائنسی زیادہ۔
اس دنوں کے بعد لاک ڈاؤن سے نکلے بھی تو کبھی لگے لاک اپ سے نکلے ہیں تو کبھی محسوس ہو اسمارٹ لاک ڈاؤن میں ہیں، بہرحال تھوڑا خوش اس لئے تھے کہ اسمارٹ تو ہم ہیں نہیں چلو نصیبوں کیلئے اسمارٹ لاک ڈاؤن ہی بھلا۔ ٹڈی دل سے بھی اللہ ہی بچائے گا جو کووڈ انیس سے بچا رہا ہے۔ خیر ہم بھی کہاں پھنس گئے، چلئے کہانی بتاتے ہیں ملنے والے ولی اللہ کی:
بابا! کیا سیاست کا روحانی علاج بھی ہے؟ جواب ملا نہیں بچہ، نہیں! (ہم اتنے ہی میں خوش کہ مدتوں بعد کسی نے بچہ تو کہا) کیوں بابا سیاست کا روحانی علاج کیوں نہیں؟ بچہ! سیاست ازخود ایک علاج ہے بشرطیکہ یہ جمہوریت کا آمیزہ ہو! ہم سمجھ گئے بابا فارغ ہے جس بابے کو یہ معلوم نہ ہو کہ مقتدر اور مقدر میں چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے، وہ کس چیز کا بابا ہے، پھر لوگ ہم پر الزام دھرتے ہیں کہ ہم بابا شناس نہیں۔
خیر ہم لگے رہے، پوچھا کہ بابا جی زرداری صاحب کو جانتے ہیں؟ ہاں، تعصب کا زرداری اور ہے، ضمیر کا زرداری اور۔ بابا جی یہ کیا نیا کٹا کھول دیا، زرداری، زرداری ہے آپ نے نئی سیاسیات شروع کر دی... بابا جی جلال میں آگئے اور ہماری شوخی بھی ہوا ہوئی۔
پھر بولتے ہی چلے گئے:باطن کی آنکھ کہتی ہے زرداری کی مسکراہٹ، صبر، تشکر اور تدبر قابلِ ستائش و قابلِ تقلید ہیں اور میرا ظاہر کہتا ہے زرداری صاحب بقول حسین حقانی 10پرسنٹ ہیں جو حقانی سے میاں برادران نے کہلوایا تھا۔ میرا ظاہر اس لئے مانتا ہے کہ ایک تو میاں برادران دایاں بازو، دوسرا اگر حسین حقانی نے بدنام کیا تھا تو بعد میں پیپلز پارٹی نے حقانی کو سفیر، اس کی بیوی کو سینیٹر کیوں بنایا؟
سیاست میں اتنا بڑا دل گردہ کیوں؟ حتیٰ کہ پرویز الٰہی کو ڈپٹی وزیراعظم تک بنادیا قلب میں اتنی وسعت کیوں؟ جمہوری رویے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے یہ بھلا آمریت کی طرح بے حد تو نہیں ہوتا۔ اوپر مصلحت پسندی ایسی جیسے شوق شہادت ہو۔ بچہ! اپنا دل نون لیگی اور دماغ تحریکی جبکہ نیت مقتدری ہے لہٰذا ہم ایک سیریز ہیں جو اینٹی زرداری ہیں۔ بھلا عمران خان کا کیا قصور، کرپشن کا نام تو نون لیگ نے دیا تحریک انصاف تو محض قوالی کر رہی ہے، اور نیب سلسلہ جاریہ ہے۔
بابا جی! میں نے عرض کیا نا، یہ معرفت شارفت اور ظاہری و باطنی فلسفے سے نابلد ہوں۔ آپ کو زیادہ چڑھاوا چڑھانے والے مریدوں کا واسطہ ہے۔ بات حق سچ بتائیں ووٹ چاہے شریفوں ہی کو دیں۔ بابا جی پھر ایسے نان اسٹاپ غصیلے ہوئے کہ بریکیں ہی نہ لگیں، معلوم ہوا کہ واقعی غصے اور مذاق میں اکثر بندہ سچ بول جاتا ہے۔
سنو میاں! زرداری صاحب کا ’جرم‘ یہ ہے کہ وہ نصرت بھٹو کے داماد، بینظیر بھٹو کا شوہر اور بلاول کے والد ہیں۔ اس کا ناقابلِ معافی جرم یہ ہے کہ اس نے ایوانِ صدر کی طاقت‘ حوصلے اور فہم و فراست کی ساتھ پارلیمنٹ کو دی، کون اپنی طاقت دیتا ہے؟ جرم یہ بھی کہ وہ 18ویں ترمیم کرانے والا ہے۔ این ایف سی ایوارڈ اس کا جرم۔
پختونوں کی مان کر صوبے کا نام بدلنا اس کا جرم، گلگت- بلتستان صوبے کی بنیاد اس کا جرم، اپنے دور میں عالمی منڈی میں پٹرول اور کوکنگ آئل کی ہوشربا قیمتوں کے باوجود مہنگائی اور بجلی کے نرخوں پر کنٹرول اس کا جرم، بی بی کا دہشت گردی کا سامنا، 2008ء کی حکومت کو دہشت گردی کا سامنا، دہشت گردی کو کنٹرول نہ کرانے کی پاداش میں اپنی ہی حکومت کا بلوچستان سے خاتمہ اس کا جرم، چین کے بار بار دورے اور اقتصادی راہداری منصوبے اور گوادر کو جلا بخشنا اس کا جرم، پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی بنیاد ایک الگ جرم، نواز شریف کو سمجھانا کہ میثاق جمہوریت پر رہو اور افتخار محمد چوہدری اینڈ لا ایسوسی ایٹس پر اندھا دھند تکیہ نہ کرو، یہ کہنا بھی زرداری کا جرم۔
’’جرائم‘‘ کی زنجیر جب آصف علی زرداری کے گلے کا ہار ہوگی تو پھر امتحانات کے دریچے کھلنا صداقت عامہ تو ہوگا۔ اوپر سے سندھ حکومت کے اینٹی کورونا امور، پھر صحت و تعلیم کے شاندار و جاندار منصوبے، علاوہ ازیں بلاول کا مدبرانہ طرزِ عمل اور بالغ نظری کا لوہا منوا کر اسٹیٹس مین ثابت ہو جانا۔
یہ سب آصف علی زرداری پر وزن نہ ہو تو کیا ہو؟ کسی شخص نے لمبی قید، صدارت کے بعد تک جیل کی سلاخیں چومی ہوں اور ایک جید نظریاتی مسلم لیگی نے مردِ حُر کا خطاب دیا ہو (لوگ تو کمر درد سے بھاگ جائیں) پھریہ زرداری بیماری میں بھی تبسم نہ چھوڑے تو ’محبت کرنے والے‘ اُسے کیسے چھوڑیں؟ اور آخر میں آگ بگولا بابا جی غصے میں یہ کہہ کر چلے گئے ’’بچہ! یہ ہے اصل تاریخِ زرداری! اور تم ٹھہرے انجینئرڈ تاریخوں کے قاری!‘‘
قارئین! راقم کا بابا جی سے متفق ہونا ’لازم نہیں‘ تاہم اتنا ضرور کہوں گا کہ پاکستان کی تاریخ کو چارچاند لگانے ہیں تو سیاسیات ذوالفقار علی بھٹو، اخلاقیات سید مودودی، ترقیات نواز شریف اور سیاسی ترجیحات زرداری والی اپنانا ہوں گی! بس، جتنا تم تاریخ کے متعلق زیادہ جانو گے اتنا ہی بہتر مستقبل تراش سکو گے!
No comments:
Post a Comment