تحریر: کامران شفیع
یہ قصہ ہے وزارت خارجہ میں ہونے والے اس اجلاس کا جو اُن دنوں ہر سال ہوتا تھا۔ موجودہ وزارت
خارجہ آفس (یہ کسی زمانے میں سابق شہرزاد ہوٹل تھا جسے بعد میں وزارت خارجہ کے ھیڈ کوارٹر میں تبدیل کیا گیا) کے گرینڈ ہال میں بحیثیت پہلی مسلم خاتون وزیراعظم شہید بے نظیر بھٹو کے پریس سیکرٹری کے طور پر میں وہاں موجود تھا۔ وزارت خارجہ کی طرف سے سینیئر آرمی افسران کو سالانہ کور کمانڈرز کانفرنس کے موقع پر یہ سالانہ بریفنگ دی جاتی تھی۔ ان دنوں اسی موقع پر وزیر اعظم کو بھی دعوت دی جاتی تھی تاکہ سول قیادت سینیئر آرمی افسران کو ملکی اور غیر ملکی امور سے متعلق ضروری معلومات دے سکے۔ یاد رہے کہ یہ بریفنگ صرف اور صرف آرمی کے افسران کو دی جاتی تھی ۔ فضائیہ اور بحریہ کے افسران کو یہ بریفنگ نہیں دی جاتی تھی۔
یہ واقعہ اپریل 1990 کا ہے۔ اس وقت بھی کور کمانڈر کانفرنس جی ایچ کیو میں منعقد کی گئی تھی جس کے فوراََ بعد یہ اجلاس حسب معمول منعقد ہوا تھا۔
اسی کانفرنس میں وزیراعظم اپنے اسٹاف کیساتھ آئیں ۔ میرے علاوہ وزیر اعظم کے اے ڈی سی، اس وقت کے وزیر داخلہ اعتزاز احسن، مشیر اقبال آخوند، اور مشیر خزانہ وسیم عون (وی اے) جعفری، بھی موجود تھےـ بریفنگ کے دوران میں نے دیکھا کہ اسلم بیگ جو چیف آف آرمی سٹاف تھے، جنرل حمید گل کی طرف دیکھ رہے تھے۔ دونوں ایک دوسرے کیساتھ آنکھوں ہی آنکھوں میں باتیں کر رہے تھے اور متواتر دوسرے جنرلوں کو بھی وہی اشارے دہرائے گئےـ انھی اشاروں کے نتیجہ میں بریفنگ دینے والے اعتزاز احسن سے، جو کہ وزیراعظم بینظیر بھٹو کے وزیرِ داخلہ تھے، سوال ہوا کہ “سندھ میں پاکستان آرمی کے تحت ( آرٹیکل 245 کے تحت) فوجی عدالتیں کیوں نہیں بنائی جارہیں تاکہ سندھ میں موجود ڈاکوؤں کے خلاف مؤثر کارروائی ہوسکے؟ ساتھ ہی وزیر اعظم بینظیر بھٹو کی طرف سے جلال آباد میں ناکامی کے بعد ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے ھٹائے گئے جنرل حمید گل، جو اس اجلاس کے وقت ملتان کے کور کمانڈر تھے، پوچھنے لگے کہ ہم کشمیر کے مسئلے پر نرم پالیسی کیوں اپنائے ہوئے ہیں اورکوئی سخت قدم کیوں نہیں اٹھاتے؟
میں نے دیکھا کہ پوری میٹنگ کے دوران سرخ و سفید بینظیر بھٹو غصہ کی حالت میں لال پیلی ہو کر تیزی سے اپنے نوٹس بنا رہیں تھیں۔ میں بھی وقفے وقفے سے بینظیر بھٹو کو نوٹس بنا کر دے رہا تھا۔ ہر دفعہ بینظیر بھٹو مسکرا کر میرا شکریہ ادا کرتیں۔ یہ ثبوت تھا اس حقیقت کا کہ وہ رحمدل، با وقار اور بڑے دل والی خاتون تھیں۔
ان سوالات کے باوجود مسلط کیے گئے وزیر خارجہ لیفٹیننٹ جنرل رٹائرڈ نواب زادہ یعقوب علی خان نے اپنے مُنہ سے ایک لفظ تک نہ نکالا، جبکہ بطور وزیر خارجہ یہ ان کی ذمہ داری تھی لیکن موصوف خاموش رہے ۔ حالانکہ کچھ سوالات ان کی اپنی وزارت سے متعلق تھے، اور وہ اس حکومت کا حصہ تھے لیکن انہوں نے ان سوالات کا کوئی جواب نہیں دیا اور نہ حکومت کا دفاع کیا۔ وزیر اعظم عام طور پر ایسے مواقع پر کوئی تقریر نہیں کرتی تھیں لیکن جس طرح اسلم بیگ اور حمید گل نے ماحول کو خراب کیا اس کے بعد بینظیر بھٹو نے کیا کرنا تھا، ابھی کسی کو معلوم نہ تھا۔ ہم صرف یہ دیکھ رہے تھے کہ وہ کس انہماک سے نوٹس لے رہیں تھیں۔ ایسے میں وزیر خارجہ جنرل یعقوب نے وزیر اعظم بینظیر بھٹو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم صاحبہ، لنچ تیار ہے۔ اس پر وزیر اعظم بینظیر بھٹو نے وزیر خارجہ جنرل یعقوب کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ نہیں وزیر خارجہ، میں نے بات کرنی ہے۔
یہ سن کر یعقوب خان پر سکتہ سا طاری ہو گیا۔ تمام لوگ دیکھنے لکھے کہ وزیر اعظم نے کیا کہنا ہے۔ جیسے ہی طویل قامت بینظیر بھٹو نے تقریر کیلئے اسٹیج سنبھالا پورے ہال میں مکمل خاموشی کا سماں تھا، پھر کچھ ہی لمحوں میں وزیر اعظم بینظیر بھٹو نے بولنا شروع کیا ـ
آفیسرز (بینظیر بھٹو نے اسلم بیگ اور پھر حمید گل کی طرف دیکھتے ہوئے) بولیں، ‘ آپ سب نے جو کچھ بھی کہا میں نے سُنا ہے۔ آپ لوگوں کا کیا خیال ہے کہ میں سندھ سمیت پاکستان کا کوئی بھی حصہ فوجی عدالتوں کے حوالے کردوں گی؟ پاکستانی عوام کو کئی سال لگے ہیں فوجی حکمرانی اور فوجی عدالتوں سے باہر نکلنے میں ـ اب آجائیں کشمیر پالیسی پر۔ میرے جنرل آپ لوگ ہیں۔ لنچ کے بعد وزیر اعظم ہائوس آئیں اور کشمیر کی آزادی کا اپنا پلان بھی ساتھ لے آئیں۔ آپ کے منتخب وزیر اعظم کے طور پر میں آپ کی پشت پر کھڑی ہونگی۔ ویسے بھی جنرل صاحب، آپ سے بہتر ہاری ہوئی جنگ کے نتائج کون جانتا ہے؟
بینظیر بھٹو کے ان جملوں کے بعد سب کو سانپ سونگھ گیا۔ وزیر اعظم نے پورے ہال کی طرف نظر دوڑائی جہاں مکمل خاموشی تھی۔ اس طرح نوجوان خاتون وزیر اعظم کسی کے دباؤ میں نہیں آئیں ـ پھر ہم لوگ وزیراعظم کی تقریر کے بعد لنچ پر چلے گئے، جیسے ہی بینظیر بھٹو میرے پاس سے گزریں، آنکھوں میں آنسوؤں کے ساتھ میں نے کہا۔
“مجھے آپ پر فخر ہے!”میں بینظیر بھٹو کے چہرے پر موجود وہ فاتحانہ مسکراہٹ کبھی نہیں بھولوں گا جو اس وقت ان کے چہرے پرموجود تھی ـ
اس تقریر کے تقریبآ تین ماہ بعد سازشی صدر غلام اسحاق خان نے وزیراعظم بینظیر بھٹو کی حکومت ختم کردی تھی۔ غلام اسحاق خان کے اس قدم کے پیچھے جھوٹے اور مکار جنرل اسلم بیگ کا بڑا ہاتھ تھا جنہوں نے یہ پورا عرصہ وزیر اعظم بینظیر بھٹو کیخلاف سازشوں میں صرف کیا۔
یہ ہے میری سرزمین پاکستان کی کہانی.
No comments:
Post a Comment