Friday, May 1, 2020

وزیراعظم اس وقت اپنی ذمہ داریاں نبھائیں، اگر کام نہیں کرنا تو استعفیٰ دے کر گھر جائیں، چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری




پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کرونا وائرس وبا کے باعث ہونے والے بحرانی حالات میں وفاق کی جانب سے صوبوں سے عدم تعاون پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم الیکٹڈ ہے یا سلیکٹد، اس وقت اپنی ذمیداریاں نبھائے، اگر کام نہیں کرنا تو خود استعیفیٰ دے کر گھر جائے۔ ان سے معیشت سنبھالی جا رہی ہے نہ کرونا کے خلاف اقدام اٹھا رہے ہیں۔ اس وقت پاکستان مہلک وبا کی روکتھام کے علاوہ کسی اور طرف توجہ نہیں دے سکتا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے سندھ اسمبلی آڈیٹوریم میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، صوبائی وزراء ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو، ناصر ھسین شاہ، سعید غنی اور مرتضیٰ وہاب بھی اس موقعے پر پارٹی چیئرمین کے ہمراہ تھے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے لیئے یوم مئی کا دن ہمیشہ ایک اہم دن رہا ہے، اس دن مختلف سرگرمیوں کے ذریعے محنت کش طبقے کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں، لیکن اس بار عالمی وباء کی وجہ سے اس طریقے سے یوم مئی نہیں منا رہے، جس طرح پہلے مناتے تھے۔ آج کا دن اُن ورکرز کے نام کرتے ہیں، جو کروناوائرس کی وباء کے دوران صف اول کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
 اس وقت تک طبی عملے کے 400 افراد مریضوں کا علاج کرتے ہوئے اس مہلک وباء کا شکار ہوچکے ہیں، جبکہ ان میں سے 9 ڈاکٹرز شہید ہوئے۔ اس کے ساتھ ساتھ دیہاڑی دار مزدوروں کو سلام پیش کرتے ہوئے آج کا دن ان کے بھی نام کرتے ہیں، جو اس وباء کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومتِ پاکستان کو بھی ان مزدوروں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار اور سلام پیش کرنے کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات اٹھانا چاہیئں، تاکہ اپنے ڈاکٹرز، نرسز اور دیگر فرنٹ لائین ورکرز کی صحت اور جانوں کا تحفظ کیا جاسکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومتِ پاکستان کو دیہاڑی دار مزدوروں کے لیئے بھی کچھ عملی اقدامات اٹھانا چاہیئیں۔ دو مہنیے گذر چکے، وزیراعظم غریب مزدوروں کا ذکر تو کرتا ہے، لیکن تاحال ان کے ہاتھ میں ایک روپیہ تک نہیں دیا۔ آج کے دن ہمارے فرنٹ لائین ورکرز کی ضروریات کے بارے میں سوچنا چاہیئے کہ انہیں کیا چاہیئے۔ بلوچستان سے لے کر خیبرپختونخواہ تک، لاہور سے لے کر گلگت بلتستان تک ہمارے ڈاکٹرز، نرسز اور دیگر طبی عملہ چیخ چیخ کر التجائیں کر رہے ہیں کہ ہمیں پی پی آئیز فراہم کی جائیں۔ ان کا دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ ان پر اتنا بوجھ ڈالا جائے جتنا وہ اٹھا سکیں تاکہ وہ اس وبا کا مقابلہ کرسکیں۔ لیکن افسوس کہ حکومت ان دو بنیادی مطالبات کو بھی پورا کرنے کے لیئے تیار نہیں ہے۔ کیا یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ ریاست اپنے فوجیوں کو دشمن کے خلاف لڑنے کے لیئے محاذ پر بھیجے، لیکن اپنے فوجیوں کو بندوق، گولیاں، وردی اور بوٹ فراہم نہ کیئے جائیں۔
 ریاست پاکستان کی یہ ذمیداری ہے کہ وہ اپنے فرنٹ لائین ڈاکٹرز و دیگر طبی عملے کو پی پی آئیز کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ پی پی پی چیئرمی نے کہا کہ ہر پاکستانی کے لیئے معاشی طور بہت مشکل وقت ہے۔ لیکن دیہاڑی دار طبقے اور 74 فیصد آبادی کے لیئے انتھائی حالات مشکل ہیں۔ وفاقی حکومت نے یہ پہلے دن سے سب کچھ مانا بھی ہے، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ آپ نے ان مزدوروں کے لیئے کیا کیا ہے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے بینیشریز کو تو رقم فراہم کردی، لیکن دو ماہ گذر جانے کے باوجود دیہاڑی دار مزدوروں کے لیئے کچھ نہیں کیا گیا۔ لاک ڈاوَن فقط کراچی نہیں، ہر صوبے میں ہو رہا ہے۔ وفاقی حکومت بلاتاخیر دیہاڑی دار مزدوروں کی مالی معاونت کی جائے۔ اس وقت جب ملک اک بڑے بحران سے گذر رہا ہو، تاخیر کو برداشت نہیں کیا جسکتا۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ انہوں نے کرونا وائرس کے بحران کو پیش نظر رکھتے ہوئے وفاقی حکومت کی جانب تعاون کا ہاتھ بڑہایا، لیکن وزیراعظم، ان کے وزراء اور ترجمان کی جانب سے ہر روز بلکہ ہر گھنٹے کے بعد بیانبازی کے ذریعے سندھ پر حملہ کرتے ہیں۔ ہم نے اس طرح کے بیانات کا جواب نہیں دیا۔ لیکن جس طریقے سے وزیراعظم اور ان کے وزراء ہمارے صوبے اور اس کی عوام کو نشانہ بناتے ہیں، اس کے جواب میں ہم بھی تمام حقائق رکارڈ پر لائیں گے۔ اس وباء کا مقابلہ کرنے کے لیئے پیپلز پارٹی اور حزب اختلاف کی دیگر جماعتیں قومی ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیئے کوششیں کیں، لیکن وفاقی حکومت نے ہماری ہر کوشش کو سبوتاژ کیا۔ اس وفاقی حکومت کی ناہلیوں نے ہر صوبے کو نقصان پہنچایا۔ وفاقی حکومت کی ناہلی نے بلوچستان حکومت کو تافتان بارڈر پر لیٹ ڈاوَن کیا، کیونکہ وفاقی حکومت نے بارڈر پر کورنٹائین کرنے کی اپنی آئینی ذمیداری پوری نہیں کی۔ وہاں پورا بوجھ بلوچستان پر تو ڈالا گیا، لیکن لوگوں کو قرنطینہ میں رکھنے کے لیئے انہیں کسی قسم کی سہولیات فراہم نہیں کی گئیں۔ ہم نے آج تک اس معاملے پر قومی اتحاد کی خاطر بات نہیں کی۔
 وفاقی حکومت نے پنجاب کو بھی مایوس کیا۔ رائیونڈ اجتماع کے وقت، وفاقی حکومت نے کسی صوبائی حکومت کو نہ خطرے سے آگاہ کیا اور نہ ہی کسی قسم کا تعاون کیا۔ اجتماع کے بعد اس میں شریک افراد کو ڈھونڈھنے میں کوئی مدد نہیں کی۔ وفاقی حکومت ہر دن سندھ کو لیٹ ڈاوَن کرتا ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے روز وزیراعلیٰ سندھ کو نشانہ بنایا جاتا ہے، جس کے صوبے میں دن رات کرونا کے خلاف کام ہو رہا ہے۔ جہاں پر کوئی کام نہیں ہوتا، اس کے بارے میں کوئی بات نہیں ہوتی۔ اس وزیراعلیٰ کے بارے میں کوئی بات نہیں ہوتا، جو پوچھتا ہے کہ “کرونا کاٹتا کیسے ہے؟”۔ پاکستان کی تاریخ میں کسی حکمران کا ایسا کردار نہیں رہا، جس نے بحران کے دوران اپنے ذمیداریاں نہ نبھائی ہوں، جو قومی حکمت عملی بنانے میں بھی ناکام رہا۔ یہ پہلا وزیراعظم ہے، جو کشمیر جیسے قومی اشو پر بھی قومی یکجہتی قائم کرنے میں ناکام ہوا۔ وزیراعظم اور اس کے وزراء کو اندازہ ہی نہیں کہ ان کے بیانات کی وجہ سے کراچی کی صورتحال نیویارک جیسی نہ ہو جائے۔ غریبوں کی بڑی آبادی کراچی میں بستی ہے۔ اس وباء سے سب سے زیادہ خطرہ غریب عوام کو ہے۔ مجھے سب سے زیادہ پریشانی لیاری سے لے کر لانڈھی جیسے علاقوں کی عوام کے متعلق ہے، جن کے علاقوں میں یہ وبا تیزی سے پھیل رہی ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب ایسا بیانیئہ عوام تک نہیں پہنچ رہا، جس کے نتیجے میں وہ زیادہ محتاط رویہ اختیار کریں۔ وفاقی حکومت کی جانب سے صوبوں کو بھی اس طرح کا کوئی تعاون نہیں دیا جارہا جس کے ذریعے وہ اپنے صحت عامہ کے نظام کو زیادہ موثر بنائیں یا ٹیسٹنگ کی صلاحیت میں اضافہ کریں۔ آج تک 90 فیصد اخراجات صوبہ اٹھا رہا ہے۔ 
صوبائی حکومتوں کاایک سال کاہیلتھ بجٹ عالمی وباکا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ صوبائی حکومتیں اپنے تمام وسائل اس وباء کے خلاف لڑائی میں بروئے کار لانے کے لیَے تیار ہیں، وفاقی حکومت بتائے کہ وہ اس جنگ میں اپنا کیا حصہ ملائے گی۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ سنگین بحران کے دوران وزیراعظم دن مین ایک اور شام میں دوسرا بیان دیتے ہیں۔ یہ کونسی اشرافیہ ہے جس نے لاک ڈاوَن مسلط کیا۔ اس وقت جو لاک ڈاوَن ہے اس میں اضافہ نیشنل کوآرڈینشن کمیٹی نے کیا، جو کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حکومتوں کی درخواست پر کیا گیا اور اس کا اعلان ایک وفاقی وزیر نے کیا۔ کیا یہ ہے وہ اشرافیہ۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ صوبے کرونا کی وباء کے ساتھ ساتھ ٹڈی دل کے حملوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ ٹڈی دل کے حملے فوڈ سکیورٹی کے لیئے خطرہ ہے۔ وفاقی حکومت معیشت سنبھال رہی ہے نہ وباء کی روکتھام میں تعاون کر رہی اور نہ ہی ٹڈی دل کے خاتمے کے لیے اقدام اٹھا رہی ہے۔ یہ لوگ ہمیشہ اٹھارویں ترمیم کے خلاف باتیں کرتے ہیں، لیکن خود کوئی کام کرنے کے لیئے تیار نہیں۔ اگر وزیراعظم فقط اسلام آباد کا وزیراعظم بن کر رہنا چاہتا ہے، تو پھر اس وباء کا مقابلہ کرنا بہت مشکل ہوگا۔ ہمارا آج بھی مطالبہ ہے کہ وفاقی حکومت کو صوبائی حکومت کا ساتھ دینا پڑے گا۔ ہر صوبے کی ٹیسٹنگ کئپسٹی کو بڑھانا ہوگی۔ آپ ہماری مدد کریں، اگر ہم کامیاب ہوتے ہیں تو آپ کامیاب ہونگے۔ قیادت وزیراعظم کو کرنی ہے، اگر ہماری مدد نہیں کرنی تو مخالفت نہ کریں۔ اگر آپ صحت کے نظام کو بہتر کرنے کے لیے ایک پیسہ بھی نہیں دے سکتے ہیں تو کم ازکم لوگو ں کو اتنا تو کہیں کہ گھروں میں رہیں جو عالمی ادارہ صحت کے بیانیے کو نظرانداز نہیں کریں۔ سندھ حکومت ایک تاریخی ریلیف آرڈیننس منظور کروانا چاہتی ہے، لیکن وفاقی حکومت ساتھ نہیں دے رہی۔ ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ وزیراعظم کام کریں۔ میرےخیال میں وفاق شروع سےچاہتاہےکہ صوبےاس وائرس کامقابلہ کریں، اگر سپورٹ نیں کرسکتے تو مخالفت بھی نہ کریں۔ ایک سوال کے جواب میں پی پی پی چیئرمین نے کہا کہ اس وقت اٹھارویں ترمیم کو کوئی خطرہ نیں ہے۔ اس وقت اگر اس معاملے کو چھیڑا گیا تو اس کا نقصان وفاق کو ہی اٹھانا پڑے گا۔ انہون نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت کرونا وائرس کی صورتحال سے توجہ ہٹانے کی خاطر اس طرح کے اشوز کو ہوا دے رہی ہے۔

No comments: