بشارت راجہ
بھٹو کو یقین تھا کہ ان جیسے رہنما کو کوئی فوجی آمر پھانسی لگانے کی جرأت نہیں کرسکے گا جبکہ ضیا الحق کو یقین تھا کہ ان کی بقا بھٹو کی فنا میں ہے۔
’مسٹر بھٹو ہم تمہیں ایک عبرت ناک مثال بنا دیں گے۔‘
اپنی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے ایک اور مثال دی۔
’مسٹر بھٹو! جب سامنے سے ریل گاڑی آتی دکھائی دے تو عقل مند آدمی پٹڑی سے ہٹ جاتا ہے۔‘
ذوالفقار بھٹو نے صرف مسکرانے پر اکتفا کیا اور ڈاکٹر ہنری کسنجر کو اپنا موقف منوائے بغیر واپس جانا پڑا۔
بھٹو اور امریکی وزیر خارجہ ڈاکٹر ہنری کسنجر کے درمیان ہوئے اس مکالمے کو سابق چیف آف سٹاف ڈی جی آئی ایس آئی بریگیڈیئر (ر) سید احمد ارشاد ترمذی اپنی کتاب ’حساس ادارے‘ میں تحریر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ 9 اگست 1976 کو امریکی وزیر خارجہ ڈاکٹر کسنجر نے لاہور میں بھٹو سے ایک خصوصی ملاقات کی تاکہ پاکستان کو ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول اور فرانس سے ایٹمی ریپروسسنگ پلانٹ کے سودے سے روکا جا سکے۔ حالانکہ اس وقت تک پاکستان فرانس سے ایٹمی پلانٹ کے حصول کے لیے باقاعدہ معاہدہ کر چکا تھا اور عالمی جوہری توانائی اتھارٹی کو اس ضمن میں تمام تحفظات کی ضمانت دے چکا تھا۔ اس ملاقات کے دوران کسنجر کو بخوبی اندازہ ہو گیا کہ بھٹو کا فیصلہ اٹل ہے اور وہ ہر حال میں پاکستان کو ایٹمی قوت بنانا چاہتے ہیں۔
ذوالفقار بھٹو پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے جب اقتدار سنبھالا اس وقت پاکستان شدید ترین بحران سے گزر رہا تھا۔ پاکستان کا وجود پارہ پارہ ہو چکا تھا۔ زخموں سے خون رس رہا تھا۔ پاکستانی قوم کے حوصلے پست تھے۔ قوم کی نظریں بھٹو پر جمی ہوئی تھیں۔ انہیں یقین تھا کہ بھٹو اپنی ذہانت اور کرشماتی شخصیت کی بدولت پاکستان کو بحران سے نکال لیں گے۔ بھٹو نے قوم کی امیدوں کو ٹوٹنے نہیں دیا۔ انہوں نے اپنے تئیں ایک دم توڑتے نظام کے وجود میں نئی روح پھونکنے کے لیے بعض انقلابی اصلاحات کا اعلان کیا۔ مایوسی اور نامرادی کے اندھیروں سے امید کی کرن پھوٹنے لگی۔
بھٹو خود خارجہ پالیسی کے ماہر تھے۔ ان کی کامیاب خارجہ پالیسی کی بدولت پاکستان کو بہت جلد قوموں کی عالمی برادری میں کھویا ہوا اعزاز واپس مل گیا۔ اپنی ذہانت اور منصوبہ بندی سے وہ اسلامی اور تیسری دنیا کے متعدد ممالک کی پالیسیوں پر نہ صرف اثرانداز ہو رہے تھے بلکہ ان کی کوشش تھی کہ تیسری دنیا ایک قوت بن کر ابھرے اور روس اور امریکہ کے مقابلے میں اپنے مفادات کی خود حفاظت کر سکے۔
بھٹو کی سرگرمیوں نے علاقے میں امریکی مفادات کو سخت گزند پہنچانا شروع کر دیا تھا، جس کی وجہ سے عالمی اسٹیبلشمنٹ نے مقامی کو ساتھ ملا کر بھٹو کو اقتدار سے معزول کرنے کا منصوبہ بنایا۔
بریگیڈیئر ترمذی رقم طراز ہیں کہ اس بات میں کوئی ابہام باقی نہیں تھا۔ متعدد سفارت کار بھٹو کے خلاف اس مہم میں نہ صرف ملوث تھے بلکہ اس کی مکمل نگرانی بھی کرتے تھے۔ لاہور میں امریکی قونصلیٹ جنرل کے سیاسی آفسیر جین این گہن کا کردار اس حوالے سے خاصا فعال تھا۔ کئی مقامی رہنما ان کی بھرپور امداد کر رہے تھے۔ خاص طور پر جماعت اسلامی کے رہنما مودودی اور شیرانوالہ گیٹ کے جمعیت اسلام کے رہنما مولانا عبید اللہ نور کے ساتھ جین نے مسلسل رابطوں اور ملاقاتوں کا اہتمام کر رکھا تھا۔
یہ جین ہی تھا جس نے لاہور سے اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے چیف آف پولیٹکل آفیسر مسٹر ہاورڈ بی شیفر کو یہ پیغام دیا تھا کہ ’پارٹی ختم ہو گئی مال لٹ گیا۔‘ جس کے جواب میں بھٹو نے مشہور جملہ کہا تھا: ’پارٹی ابھی ختم نہیں ہوئی یاد رکھو ہاتھی کے کان بہت لمبے ہوتے ہیں۔‘
جس رات ضیا الحق نے مارشل لا لگایا اور بھٹو کو اقتدار سے نکال باہر کیا اس کے بارے میں الطاف حُسین قریشی اپنی کتاب ’ملاقاتیں کیا کیا‘ میں لکھتے ہیں کہ میرے سوال کے جواب میں ضیا الحق نے کہا کہ جس رات مارشل لا لگانا تھا لاکھوں خدشات اور ہزاروں وسوسے تھے۔ یہ اندیشہ بھی تھا کہ ان کے منصوبے کا اگر کسی کو علم ہو گیا تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ یہ راز چند افراد تک محدود تھا۔
خیال کی ایک لہر اُٹھی ضیا تم کہیں غلطی پر تو نہیں؟ کیا تم پاکستان کو مارشل لا سے بحفاظت گزار سکو گے؟ ’میں نے وضو کیا اور خشوع وخضوع سے نماز ادا کی اور ایسی لذت محسوس کی جو پہلے کبھی میسر نہ ہوئی تھی۔ قریشی صاحب میری زندگی میں آپ کو قناعت اور درویشی نظر آئے گی۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اپنی رحمتوں کی بارش کی اور اعلیٰ منصب عطا کیے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے وہ کام لیا جو یقیناً ایک قابل فخر کارنامے کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
’میں جمہوریت پر غیر متزلزل یقین رکھتا ہوں۔ فوجی حکومت ایک طرف انتہائی ناگزیر مرحلہ ہے اسے زندگی کا معمول نہیں بنایا جا سکتا۔ ہم اقتدارِ پر قابض رہنے کے لیے نہیں اقتدار منتقل کرنے کے لیے آئے ہیں۔ عام انتخابات انشاءاللہ 18 اکتوبر کو ہوں گے۔ خدا اور پوری قوم کے ساتھ عہد کیا ہوا ہے اسے پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کروں گا۔ میری دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں بصیرت و قوت عطا کرے اور ہر قدم پر رہنمائی کرتا رہے۔ بھٹو کے ساتھ آئین اور قانون کے مطابق انصاف کیا جائے گا۔‘
بریگیڈیئر ترمذی لکھتے ہیں کہ جن دنوں پاکستان سپریم کورٹ میں نواب محمد احمد خان کے قتل کے الزام میں لاہور ہائی کورٹ سے دی جانے والی سزائے موت کے خلاف ذوالفقار علی بھٹو کی اپیل زیربحث تھی ان کے ایک دوست، جسے یو ایس آئی ایس کے ٹیلکس روم تک رسائی تھی، نے مجھے most urgent کا خصوصی کوڈڈ پیغام بھجوایا۔ پیغام کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے فوری طے شدہ جگہ پر پہنچا۔
راولپنڈی کے راجہ بازار سے جا کر دوست سے آنکھوں ہی آنکھوں میں گفتگو کی۔ اس نے ایک کاغذ ریڑھی پر رکھے کوٹ کی جیب میں ڈال دیا۔ میں نے فوری وہ کوٹ خریدا اور پرچہ لے کر قریب کاپی شاپ پر پہنچا۔ فوٹو کاپی کروا کر اصل اسے واپس کیا۔ دفتر پہنچ کر جب اسے ڈی کوڈ کیا تو مجھے پڑھ کر شدید حیرت ہوئی کہ واشنگٹن سے پاکستان میں اپنے دفتر میں یہ ہدایت دی گئی کہ بھٹو کو پھانسی کے تختے تک پہنچنا یقینی بنایا جائے۔ اس پیغام میں بعض جنرلز کی ریٹائرمنٹ اور تبادلوں کی بھی ہدایت تھی۔
بھٹو صاحب کو یقین تھا اور اعتماد بھی کہ ان جیسے بین الاقوامی حیثیت اور اہمیت کے حامل لیڈر کو کوئی فوجی آمر پھانسی لگانے کی جرأت نہیں کرسکے گا۔ جبکہ جنرل ضیا الحق کو یقین تھا کہ ان کی بقا بھٹو کی فنا میں ہے۔ پھر حالات نے جنرل ضیا الحق کے حق میں فیصلہ دے دیا۔
سقراط کو جب زہر کا پیالہ دیا گیا تو وہ ہنس پڑا۔ اس کے شاگردوں نے پوچھا استاد محترم، موت آپ کے سر پر منڈلا رہی ہے زہر کا پیالہ پی کر آپ مر جائیں گے اور آپ ہنس رہے ہیں۔ سقراط نے جواب دیا: کون کہتا ہے کہ میں مر جاؤں گا۔ گلی کوچوں، چوک چوراہوں اور درسگاہوں میں میرے دیے گئے درس جب تک باقی رہیں گے میں زندہ رہوں گا۔ مریں گے یہ حکمران جو مجھے زہر پینے پر مجبور کر رہے ہیں۔ آج کئی ہزار سال گزرنے کے بعد بھی سقراط زندہ ہے اور باقی گمنام ہیں۔
بھٹو نے شاید سقراط کو پڑھ رکھا تھا۔ اس لیے انہوں نے معافی نامے پر دستخط نہیں کیے۔ چار اپریل کا سورج نکلا تو اسلامی دنیا کی ایک عظیم شخصیت اور پاکستانی سیاست کا چمکتا ہوا چاند ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندگی کے منظر سے اوجھل ہوچکا تھا۔ مگر تاریخ میں زندہ ہے اور انہیں دار پر لٹکانے والوں کی قبریں آج بھی ویران ہیں۔
No comments:
Post a Comment