پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اب تک وفاقی حکومت کورونا وائرس کے خلاف سست روی سے فیصلے کر رہی ہے اور لاک ڈاﺅن کے لئے بھی کوئی ٹھوس فیصلہ کرنے میں ناکام نظر آتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ صحت کے شعبے میں رقم مہیا کرنے کے لئے بھی تیار نہیں۔ اب تک پاکستان نے اس وباءسے 94لوگ فوت ہو چکے ہیں جبکہ 5230 کی کورونا وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے۔ اے ایف پی کے مطابق پاکستان کے 21کروڑ سے زیادہ عوام کی اکثریت گنجان آباد علاقوں میں رہتی ہے اور صحت کے ماہرین کے مطابق ابھی پاکستان میں کورونا وائرس کی ابتدا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے کراچی کے آفس سے ایک ویڈیو کال کے ذریعے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وباءکے پھیلنے کی ابتدا ہی سے ایک غلط احساس تحفظ کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ہم اس حقیقت کو نظرانداز کر رہے ہیں کہ دنیا بھر میں یہ وباءکس قدر تیزی سے پھیل رہی ہے اور اس کا احساس نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں بروقت ضروری اقدامات اٹھانے میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ اے ایف پی نے لکھا ہے کہ عمران خان کو ملک بھر میں لاک ڈاﺅن نہ کرنے پر تنقید کا سامنا ہے۔ پاکستان میں صوبوں نے اپنے طور پر لاک ڈاﺅن کئے ہیں، اسکول اور دفاتر بند کر دئیے ہیں۔
پاکستان کا کورونا کا پہلا کیس سندھ میں دائر ہوا تھا جس کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی نے گذشتہ ماہ ہی لاک ڈاﺅ کا فیصلہ کیا تھا۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان کے صحت کے ماہرین نے یہ تجویز دی تھی کہ پورے ملک میں سخت اقدامات لئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم معیشت کو دوبارہ زندہ کر سکتے ہیں لیکن لوگوں کو دوبارہ زندہ نہیں کر سکتے۔ اگر ہم صرف یہ امید کرنے لگیں کہ سب اچھا ہو جائے گا اور اپنی تیاری نہ کریں تو پاکستان بہت خاموشی سے ایک تباہی کی صورتحال کی طرف جاسکتا ہے جس کے شدید خطرناک مضمرات ہو سکتے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان میں صورتحال امریکہ اور مغربی یورپ سے بھی بری ہو سکتی ہے کیونکہ پاکستان میں حفاظتی لباس اور طبی عملے کی کمی کے ساتھ ساتھ دیگر طبی آلات کی بھی کمی ہے۔ اے ایف پی نے لکھا کہ پی پی پی بلاول بھٹو زرداری کے نانا ذوالفقار علی بھٹو نے قائم کی تھی اور ان کی والدہ دو مرتبہ پاکستان کی وزیراعظم رہی اور جب تیسری مرتبہ وہ انتخابات کے لئے جا رہی تھی تو 27دسمبر 2007 کو انہیں شہید کر دیا گیا۔ اے ایف پی نے یہ بھی لکھا کہ بلاول بھٹو زرداری پر یہ تنقید ہوتی رہی کہ وہ موروثی سیاست سے فائدہ اٹھانے والے سیاستدان ہیں اور ان کی اردو زبان پر بھی تنقید کی گئی لیکن وہ اس وقت حزب مخالف کی قابل ذکر آواز بن چکے ہیں اور وہ بہت اطمینان سے اپنی پالیسیاں بیان کرتے ہیں اور ایک قابل سیاستدان کے طور پر ابھرے ہیں۔
No comments:
Post a Comment