Saturday, April 25, 2020

بھٹو تم سے نہیں مرے گا

تحریر: علی عبداللہ ہاشمی

کیا قصور تھا ذوالفقار علی بھُٹو کا؟ سرمایادارانہ نظام میں نقب لگا کر غریبوں، مسکینوں ناداروں، مزدوروں کیلئے مراعات حاصل کرنا یا پھر ماڑے لوگوں کو ذات پات کی غلامی سے نکال کر تمھاری اونچی ذاتوں کے برابر کھڑا کرنا؟ ‏کیا یہ اتنے بڑے جرائم ہیں کہ باون سالوں سے تمھاری درندگی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے 

رہی؟ 


بھُٹو کے خون میں ایسی کیا بات ھے کہ بدماشیہ اور اسکے ایجنٹ ہر دور میں “ایک اسی لہو” کے پیاسے رہے ہیں؟ ایسا کیا کر دیا بھُٹو نے کہ ساٹھ کی دہائی سے ایسٹ انڈیا کمپنی کے تربیت یافتاوں کا سیاسی ایجنڈا ہی نہیں بدل رہا؟ یہ قومی اتحاد بنائیں تو وجہ ‏بھُٹو، جونیجو لیگ لائیں تو کارن بھٹو، یہ نو ستارے اکٹھے کریں تو دشمنی بھٹو کی، اس میں سے ن لیگ کشید لیں تو پریشانی بھٹو کا، یہ نیب دکھا کر قاف لیگ بنائیں یا پھر قاف کو ن اور پھر ن تحریک انصاف میں اُُنڈیل دیں، کچھ بھی کریں مگر حقیقت یہی ہے کہ پچھلے باون برس سے بدماشیہ بھٹو کے بھوت سے جان جھڑوانا چاہتی ہے مگر اسکی جان نہیں چھوٹ رہی۔ بی بی کو قتل کرنے والوں نے اُس روز سے ‏لیکر 2013 الیکشن کے دن تک بم دھماکے کر کر کے اس قوم کو ذہنی مریض بنا دیا تھا۔ کوئی پوچھتا کیوں نہیں ان جادوگروں سے کہ انکے بڑے بیٹے نواز شریف نے 2013 الیکشنز کی اپنی متنازعہ “وکٹری سپیچ” میں ایسا کونسا منتر پھُونکا تھا کہ دھشتگردی بدتدریج ختم ہوتی گئی؟

 تو پھر اجازت ھے کہہ لیں کہ بی بی کے قتل سے لیکر
آخری پی پی دور کی ساری ‏دھشتگردی ایک “بھُٹو” کی حکومت کو ناکام کرنے کیلئے تھی؟ آج جب بلاول نے “مسند” سنبھالی ھے تو اسکے بدیشی ہاو بھاو اور طریقہِ اظہار پر طنز وہی لوگ کر رھے ہیں جنکے باپ دادا بینظر بھٹو کو شادی سے پہلے تک “زنانہ” اور “بچہ پیدا کرنے سے قاصر” مشہور کرتے رہے ہیں۔ اس مکروہ کھیل کا فارمی چوزوں پر پلنے والی ‏نسل کو شائید پتا نہیں لیکن ھم جانتے ہیں سو ہم آوازہ لگائیں گے اور اتنا اونچا بولیں گے کہ تمھاری جادوگری اکارت چلی جائے گی۔

کیا زندگی گزاری ھے بلاول بھُٹو نے کبھی غور کیا ھے؟ سوچ کر ہی جھُرجھُری آ جاتی ھے کہ کیا بتایا ہو گا اسکے ماں باپ نے اسے؟ یہی ناں کہ اس مُلک کی سب سے بدمعاش مشینری اسکے خون کی پیاسی ھے، وہ من مرضی نہیں کر سکتا، خواھشات نہیں ‏رکھ سکتا، بلا روک ٹوک کہیں آ جا نہیں سکتا، بات بے بات قہقہہ نہیں لگا سکتا یہاں تک کہ عام لوگوں جیسا کُچھ بھی نہیں کر سکتا۔ اُسے خفیہ ہاتھوں، کیمروں سے محتاط رہنے کے کی تلقین کی جاتی ہو گی۔ کیا ایک نوجوان کا دل نہیں کرتا ہوگا کہ وہ عام لوگوں جیسی زندگی جیئے؟ کیا تمھارے خیال میں بلاول بھُٹو بننا کوئی آسان کام تھا؟

لیکن تم بدبودار لوگ ہو اور ایسے بدبودار کہ گھِن آتی ھے تُم سے اور تمھارے باطن سے۔ اگر تمھارے پاس کیچڑ اچھالنے کیلئے مواد نہیں ھے تو یہ قصور بھی بھُٹو کا ھے؟ اگر تم اسے بلیک میل یا ٹیم نہیں کر ‏سکتے تو تم اسکے خلاف گندی باتیں کرو گے، کیسے نیچ ہو تم؟ اصل بات یہ ھے کہ پچھلے پچاس برس کی ملکی سیاست میں “بھُٹو” کردار کی اس اونچائی کا نام ھے جہاں نجاست زادوں کا ہاتھ انکے “گریبان” تک نہیں پہنچ سکتا جیسا کہ جونیجو لیگ سے لیکر موجودہ حکمرانوں، کُلُ ھُم تک با آسانی پہنچ سکتا ھے ‏سو تم اوچھے ہتھکنڈے آزماتے ہو، متعون کرتے ہو، بدنام کرتے ہو، قید کرتے ہو اور موقع ملتے ہی قتل کرتے ہو؟

یاد رکھو! عوام جب جب فیصلہ کرے گی، تم سیلوٹ مارو گے بھُٹوز کو۔
تم بدنام کرو گے بھٹو کو؟ تُم خود ذلیل و رُسوا ہو جاو گے۔ نہیں یقین آتا تو بتاو کہاں ہیں تمھارے بڑے بڑے ‏تیس مار خان؟ کہاں ھے ایوب، کہاں ھے یحیٰ؟ ضیاء الحق کہاں ھے؟ کہاں ھے بینظیر کا قاتل مشرف؟ اور کہاں ہیں انکے پالتو جو تمھارے اشارہ ابرُو پر بھُٹوز کی دھجیاں اڑا دینے پر آمادہ تھے، کہاں ہیں؟

میں بتاتا ہوں، وہ آج یا تو بے نام و نشان قبروں میں محض فاتحہ کیلئے ترستے ہیں یا پھر نواز شریف کیطرح لکیر ‏کے اِس طرف کھڑے ہیں۔ رہ گیا مشرف تو وہ نشانِ عبرت ہے تمھارے لیئے جو اپنے عزائم کیطرح ایک مکروہ انجام کیطرف بڑھ رہا ھے۔

اسی لیئے تو تُم نے نیا شیرُو پال لیا ھے. لیکن تم جانتے ہو، تم جب جب نئے کُتے پالو گے ھم تمھیں اور تمھارے پالتو دونوں کو بے نقاب کریں گے۔ ھم بھُٹوز کے مقروض چُپ نہیں بیٹھیں گے، اپنی زبانوں کو تالے نہیں لگائیں گے، ‏اور چُپ ہوں بھی کیسے؟ کیا ھم نہیں جانتے کہ بھُٹوز ہمارے حق کیلئے ڈٹے رھے یہاں تک کہ مار دیئے گئے۔ سو ھم بولتے ہیں اور ہمی ہیں جو عوام کی حتمی فتح تک آوازہ لگاتے رہیں گے۔

بھلا کتنے دن میں اس افیونچی قوم کو پتہ چلے گا کہ پاکستان کی لاکھوں ایکڑ سرکاری اراضی تم ریٹائرمنٹ، بدعنوانی اور کرپشن سے گول کر چُکے ہو‏ اور کتنی دیر میں عقدہ کھُلے گا کہ سرکاری ٹھیکوں سے لیکر ڈیفنس, عسکریاں، کنٹونمنٹس، کمرشل مارکیٹیں، سیکیورٹی کے نام پر قبضہ کی گئی لاکھوں ایکڑ اراضیاں، بِلا آڈٹ لمبے بجٹ،  یہ کوئی حُب الوطنی نہیں بلکہ “کاروباری فوائد” تھے جنکے تحفظ کیلئے تُم نئے سے نئے ایجنٹ پیدا  کرتے رھے اور اپنی قبضہ گیری کیلئے ملک کی واحد ‏عوامی جمہوری قوت “بھُٹو” کو نسل در نسل بدنام، متعون، قید اور پھر قتل کرتے رھے؟ تمھیں کیا لگتا ھے کہ اس راز سے پردہ نہیں اُٹھے گا یا اُس وقت کی پلاننگ بھی تم نے ابھی سے کر رکھی ھے؟

ایک بات کہوں؟ بھُٹو تُم سے نہیں مرے گا، اسکا حل تمھارے پاس نہیں ھے تمھارے کیا کسی کے پاس بھی ‏نہیں ہے۔ اللہ کے یہاں عظیم ہستیوں پر نوازش کی ایک ہی نشانی ھے کہ انکے مزاروں پر “دیئے جلتے ہیں” اور یہ وہ دیئے ہیں جو بھٹو کے مزاروں پر تو جلتے رہیں گے پر تمھاری قسمت میں نہی ہیں چاہے تمھیں
“مسجد کے صحن میں دفن کر دیا جائے”

No comments: