تصور کیجیے کہ جنگ چھڑ گئی ہے اور فوج کو حکم ملا ہے کہ وہ اگلے مورچوں پر پہنچ کر کیل کانٹے سے لیس دشمن کی یلغار کو روکے۔ مگر تیاری کی حالت یہ ہو کہ کسی کے پاس بندوق ہے تو گولیاں نہیں، وردی ہے تو بوٹ نہیں، بوٹ ہیں تو ہیلمٹ نہیں اور یہ سب ہے تو ٹرک نہیں اور ٹرک ہیں تو آدھوں میں پٹرول نہیں۔
اور جب یہ سپاہی دست بستہ کہیں سر ہم اس زمین اور قوم کے تحفظ کے لیے تن من سے دشمن پر جھپٹ پڑنے کے لیے تیار ہیں۔ ٹرک کم ہیں تو کیا ہوا، پٹرول کی قلت ہے تو بھی کوئی مسئلہ نہیں، کھانے کا کیا ہوگا ہمیں اس کی بھی پرواہ نہیں مگر اللہ کے واسطے ہمیں کم از کم بندوق، گولیاں، ہیلمٹ اور بوٹ ہی پورے کر دیں تاکہ ہم مریں بھی تو لڑتے ہوئے مریں۔
اور سالار ان سپاہیوں سے پلٹ کر کہے کیا تمہاری تربیت پر قوم نے اس لیے پیسہ خرچ کیا کہ وقت پڑنے پر تم آگے بڑھ کر دشمن کو دندان شکن جواب دینے کے بجائے بندوقوں، وردیوں، بوٹ اور ہیلمٹ کی قلت کا رونا رونے لگو۔ یہ سب سامان آتا رہے گا فی الحال آگے بڑھو اور دشمن پر ٹوٹ پڑو، زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے۔
کافر ہے تو شمشیر پے کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
کلامِ اقبال سر آنکھوں پر مگر ہر قوم اپنی فوج کو بہترین وسائل مہیا کرتی ہے۔ اپنا پیٹ کاٹ کے ان کی ضروریات پوری کرتی ہے۔ تاکہ وقت پڑنے پر یہ سپاہی یکسو ہو کر بلند حوصلگی کے ساتھ دشمن کا دیوانہ وار مقابلہ کریں۔ جب سپاہی دیکھتا ہے کہ پوری قوم اور ریاست اس کے پیچھے دامے درمے قدمے کھڑی ہے تو پھر وہ بھی جان کی بازی لگا دیتا ہے اور قوم کا ہیرو کہلاتا ہے۔
میری بس اتنی التجا ہے کہ ڈاکٹروں اور طبی عملے کو ہیرو اور ہراول سپاہی کہنا بند کیجیے۔ یہ ہیرو نہیں بلکہ اس قوم کے ولن ہیں جسے خود کو بچانے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں۔
ہیرو کبھی ہاتھ جوڑ کر اپیل نہیں کرتے، ہیرو کو بنیادی ساز و سامان مانگنے کے لیے دھرنے نہیں دینے پڑتے، بھوک ہڑتال پر نہیں بیٹھنا پڑتا، مظاہرے نہیں کرنے پڑتے، عدالتوں کا دروازہ نہیں کھٹکھٹانا پڑتا، لاٹھیاں نہیں سہنی پڑتیں۔قوم کو لاک ڈاؤن کے لیے خدا رسول، اپنی اور اپنے خاندانوں کی جان کا واسطہ نہیں دینا پڑتا۔
کبھی کوئی ایسی جنگ دیکھی سنی جس کے وار روم میں سیاستدان، بیورو کریٹ، حکمراں جماعت کے عہدیدار، علما، تاجر و صنعت کار بھرے پڑے ہوں اور جن پروفیشنل کمانڈروں کو عملاً روڈ میپ بنا کر جنگ لڑنی ہے، وہ وار روم سے باہر کھڑے محض اندر سے آنے والے احکامات بجا لانے کے پابند کر دیے جائیں۔
کیا کوئی جانتا ہے کہ اب تک یہ جنگ لڑنے والے کتنے ڈاکٹر اور پیرا میڈیکس دشمن کے ہاتھوں زخمی اور جاں بحق ہو چکے ہیں۔ مجھے معاف کر دیں کہ میں جاں بحق ہونے والے طبی عملے کو شہید نہیں کہہ سکتا۔
شہیدوں کو تو قومی پرچم میں لپیٹ کر سلامی دے کر قبر میں اتارا جاتا ہے۔ شہیدوں کے گھر پر تو حاکمِ وقت یا اس کا نمائندہ جا کر ان کے بچوں کے سر پے ہاتھ رکھتا ہے۔ زخمیوں کی عیادت کرتا ہے۔ اس کی ترجیحاتی توجہ تو ہمہ وقت سامانِ حرب کی کمی بیشی پورا کرنے پر ہوتی ہے تاکہ دفاعی فصیل کھڑی رہے۔
مگر یہ جو بھی ہیں اس وقت انہیں سیلوٹ کی نہیں حفاظتی سوٹ کی ضرورت ہے۔ انہیں آستانے نہیں دستانے چاہیئیں۔انہیں دلنشیں خطاب نہیں حفاظتی نقاب درکار ہے۔ انہیں شوکاز لیٹر نہیں وینٹی لیٹر دو۔ انہیں کوئی چمتکاری ڈھکوسلا نہیں حوصلہ چاہیے۔ انہیں ہمدردی کی نہیں درد مندی کی ضرورت ہے۔ یہ ہیرو نہیں زیرو ہیں۔
ذرا سوچو بائیس کروڑ میں سے زیرو نکل جائیں تو کیا رہے گا؟
No comments:
Post a Comment