Sunday, April 12, 2020

ڈاکٹروں کو سلیوٹ نہیں چاہیے

کوئٹہ میں ڈاکٹر اس لیے زیادہ بےچین ہو رہے تھے کہ وزیراعلیٰ تفتان کے تمبو اور ایمبولینس کی تصویریں تو ٹویٹ کر رہے تھے لیکن ڈاکٹر جن بنیادی ضروریات کا مطالبات کر رہے تھے حکومت انہیں سنجیدگی سے نہیں لے رہی تھی۔


ہمارے عوام نے چند روز قبل جب گلی گلی کوچہ کوچہ ڈاکٹر اور نرسز کو دیکھ کر سلیوٹ مارنا شروع کیا توخود معالجین کو بھی فوراً اس مہربانی پر شک ہونے لگا کہ آخر لوگ راتوں رات ان پر اتنا مہربان کیوں ہو رہے ہیں؟
یکسر بدلتے ہوئےاس رویے سے خوشامد کی شدید بو آرہی تھی تو ڈاکٹرز بھی فوری طور پر سمجھ گئے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ آج کل جب ہر بات کرونا (کورونا) وائرس سے شروع ہوکر کرونا ہی پر ختم ہوتی ہے تو ڈاکٹرز کو بھی سراغ لگانے میں دیر نہیں لگی۔ انہیں پتہ چل ہی گیا کہ اچانک بدلتے ہوئے اس گرم جوش رویے کے پیچھے بھی کرونا ہی کا ہاتھ ہے۔
سیدھی سی بات یہ ہے کہ لوگ مرنا نہیں چاہتے۔ ہم میں سےاکثر وہ لوگ ہیں جو مرنے سے ڈرتے ہیں اور باقی وہ لوگ ہیں جو سچ پوچھیے تو مرنے کے لیے تیارنہیں ہوتے۔ ہم نے ایسے ’بہادر‘ لوگ بھی دیکھے ہیں جو کہتے ہیں کہ وہ مرنے سے ڈرتے نہیں، بلکہ وہ مرنے کے لیے بالکل تیار ہیں، اور اپنے خالق حقیقی سے ملنے کو تڑپ رہے ہیں، لیکن ایسے نڈر لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔ ہم بات کر رہے ہیں عوام کی۔ عوام کے مسئلے ذرا مختلف ہیں۔ عوام کو مرنے کا شوق نہیں ہوتا لیکن ان کے لیے جینا بھی آسان نہیں۔ لوگ شاید طبعی بیماری یا موت سے نہیں ڈرتے بلکہ وہ مرنے کے معاشی و معاشرتی پہلوؤں کا سوچ کر گھبرا جاتے ہیں۔
اگر آپ غیر شادی شدہ ہیں تو یہیں سوچ کر مرنے سے ڈریں گے کہ میری ماں میری موت کی خبر سن کر کتنی نڈھال ہوگی؟ اگر شادی شدہ ہیں تو بیوی کے بیوہ ہونے اور بچوں کے یتیم ہونے کا سوچ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ گھر کا کرایہ کون دے گا؟ بچوں کے سکول کی فیس کون بھرے گا؟
بس یوں کہہ لیں کہ یہ بڑا سنگین معاملہ ہے۔ سنگین کیسے نہیں ہوگا؟ آخر یہ موت کا معاملہ ہے، کوئی مذاق تو نہیں۔ چنانچہ کرونا وائرس کے معاملے پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ عوام کی اکثریت ان لوگوں کی ہے جو مرنے کو تیار نہیں تھے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ارے بھائی مرنے کو کون تیار ہوسکتا ہے؟ کیا آج تک کوئی مرنے کو تیار ہوا ہے؟
اے ایف پی
مان لیا کہ موت کا کوئی وقت مقرر نہیں ہوتا لیکن دل ہی دل میں ہم سب اپنے لیے ایک ٹائم لائن بناتے ہیں۔ سوچتے ہیں کہ ایک دن اپنے تمام گناہوں کی معافی مانگیں گے، زکوۃ اور قرضے جتنے ذمے بنتے ہیں پورے ادا کریں گے۔ جب بچوں کی شادی ہوگی تو حج پر جائیں گے۔ جب ملازمت کو خیرباد کہہ کر اور پنشن لے کر گھر بیٹھ جائیں گے تو تب کم از کم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اب ہم مرنے کو تیار ہیں۔ جب تک حضرت عزرائیل دروازہ نہیں کھٹکھٹاتے، تب تک نواسوں، بچوں، بھانجوں اور بھتیجوں کو وٹس ایپ پر گڈمارننگ کے میسجز فارورڈ کرتے رہیں گے۔
پھر ایک دن یہ ہوا کہ کرونا نے اس تمام پلاننگ پر پانی پھیر دیا۔
ایک دن وہ بھی تھا جب ہم نے سنا کہ چین میں ایک وبا کی وجہ سے لوگ مر رہے ہیں۔ ہم نے یہ کہہ کر بات ٹال دی کہ جو لوگ کتے اور بلی کھاتے ہیں، ان پر تو ایسا ’عذاب‘ آہی جائے گا۔ پھر یہ مسئلہ ہمارے مغربی پڑوسی ملک پہنچ گیا۔ ہم نے پھر بھی زیادہ توجہ نہیں دی۔
اب کی بار ہم اس بحث میں نہیں پڑے کہ وہاں یہ ’عذاب‘ کیوں اور کیسے پہنچا؟ بس ہم اپنا دل بہلاتے ہوئے یہ کہتے گئے کہ ہمارے ہاں یہ وبا نہیں پہنچے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کرونا ہمارے ہاں بھی پہنچ گیا۔ کپتان اور مولانا طارق جمیل مل کر دینی و دنیاوی تراکیب وتدابیر آزما کر بھی کرونا کو پاکستان میں داخل ہونے سے روک نہ سکے۔
لوگوں کو پتہ چلا کہ یہ مصیبت تو واقعی سر پر آگئی ہے۔ تعلیمی ادارے اوردفاتر بند کیے گئے۔ ایسا لگا جیسا کہ سرکاری سطح پر اعلان ہوا ہو کہ اب سب مرنے کی تیاری کرلیں۔ توبہ کرنے کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔ مساجد پر تالے لگائے گئے۔ جب کفن خریدنے کا خیال آیا تو پتہ چلا کہ کفن فروشوں کی دکانیں بھی لاک ڈاؤن کی وجہ سے بند ہوگئی ہیں۔ پھر لوگوں کو ایک خیال آیا کہ خدا کے بعد اگر کوئی ہمیں اس وبا سے بچا سکتا ہے تو وہ ڈاکٹرز اور نرسز ہیں۔ بس پھر ہونا کیا تھا؟ لوگوں نے ڈاکٹرز کو سلیوٹ مارنا شروع کر دیا اور یہی ہے ڈاکٹرز کو سلیوٹ مارنے کی مختصر تاریخ۔
ڈاکٹرز ہم عوام کی طرح جذباتی لوگ نہیں ہیں۔ وہ (یا کم از کم ان کی اکثریت) جوش کی بجائے ہوش سے کام لیتے ہیں۔ ان کا کام ہی کچھ ایسا ہے کہ وہ جذباتی ہونے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ سوچیں اگر ڈاکٹرز کو آپریشن تھیٹر سے ڈر لگے تو پھر مریضوں کا کیا ہوگا؟ اگر ڈاکٹر مایوس ہوں تو ہمارے کانوں میں ’اللہ خیر کرے گا‘ کون کہے گا؟ اگر ڈاکٹر رونا شروع کر دیں تو مرنے والوں کے لواحقین کو گلے لگا کر تسلیاں کون دے گا؟
جب عوام نے ڈاکٹرز کو سلیوٹ مارنا شروع کیا تو انہیں پتہ تھا کہ یہ ایک جذباتی اور وقتی فیصلہ ہے۔ جب تک کرونا کا خوف سر پر منڈلاتا رہے گا تب تک لوگ سلیوٹ مارتے رہیں گے اور جب یہ خطرہ ٹل جائے تو یہ کہہ کر گھر روانہ ہوں گے کہ ’اللہ پاک نے ٹھیک کرنا تھا، تو کر دیا۔ اب اس میں ڈاکٹر نے کون سا احسان کیا ہے؟ ڈاکٹر نے پیسے لیے اور اپنا کام کیا۔ بات ختم۔‘
جب یہی کچھ ہونا ہے تو ڈاکٹر نے خود بڑھ کر عوام سے بڑے احترام سے کہا کہ آپ کی فراخدلی اور مہربانی کا شکریہ لیکن ہمیں سلیوٹ نہیں چاہیے۔ ہم سلیوٹ کے بغیر ہی آپ کا علاج کردیں گے کیونکہ یہ ہماری پیشہ وارانہ، اخلاقی اورانسانی ذمہ داری ہے۔ جذباتی اور کرونے سے ڈری ہوئی قوم تھی جو پھر بھی ماننے کو تیار نہ تھی اور سلیوٹوں پر سلیوٹ کرتی گئی۔ ڈاکٹرز نے کہا چلو اگر آپ  اس بات پر بضد ہیں کہ ہماری خدمات کوخراجِ تحسین پیش کریں تو ہم پر ایک احسان یہ کر دیں کہ ہمیں سلیوٹوں کی بجائے ماسک، گاؤن اور تحفظ فراہم کرنے والے آلات فراہم کروا دیں تاکہ ہم اپنا کام بخوبی کرسکیں۔
کوئٹہ میں ڈاکٹر اس لیے زیادہ بےچین ہو رہے تھے کہ وزیراعلیٰ تفتان کے تمبو اور ایمبولینس کی تصویریں تو ٹویٹ کر رہے تھے لیکن ڈاکٹر جن بنیادی ضروریات کا مطالبات کر رہے تھے حکومت انہیں سنجیدگی سے نہیں لے رہی تھی۔ ایک دن ایسا ہوا کہ ڈاکٹر تو اپنی جگہ پر شیخ زید ہسپتال میں تعینات سکیورٹی گارڈ نے بےساختہ کہہ دیا: ’ابے کیا ہسپتال ایسے ہوتا ہے؟ کیا کرونا کا علاج ایسے کیا جاتا ہے؟ یہ کیسا ہسپتال ہے جہاں کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ لوگ بغیر کسی روک ٹوک کے گھوم پھر رہے ہیں۔ کسی کے آنے پر پابندی ہے اور نہ جانے پر۔‘
سکیورٹی گارڈ نے ڈیوٹی دینے سے انکار کیا۔ جہاں سکیورٹی گارڈ خوفزدہ ہو وہاں آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مریضوں کی کیا کیفیت ہوگی۔ پھر مریضوں نے بھاگنا شروع کر دیا۔ ان کے بعد نرسز فرار ہوگئیں۔ ڈاکٹرز چیختے رہے کہ ہمیں سلیوٹ نہیں حفاظتی آلات چاہیں۔ حکومت نے ان کی ایک نہ سنی۔ جب  ایک یا دو نہیں بلکہ پورے 15 ڈاکٹرز مریضوں کا علاج کرتے ہوئے خود کرونا کے شکار ہوگئے تو تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق ڈاکٹرز اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر آگئے۔
پھر جعلی سلیوٹ کے حوالے سے ڈاکٹرز کے خدشات سچ ثابت ہوئے۔ ہمارا سلیوٹ عارضی تھا۔ ڈاکٹرز پر ڈنڈے برسے۔ جیل کے دروازے کھول دیے گئے۔ حکومت نے اپنی نااہلی چھپاتے ہوئے ڈاکٹرز پر یہ الزام لگایا کہ وہ کسی مافیا کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں۔
کرونا کے خلاف غالباً اصل جنگ ابھی تک شروع نہیں ہوئی ہے۔ یہ جنگ شدت اختیار کرے یا نہ کرے، ایک بات طے ہے کہ ڈاکٹرز کو ہمارے جذباتی اور وقتی سلیوٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ انہیں فوٹو سیشن اور سرکاری پریس ریلیز اور ٹویٹس میں شامل ہونے کی خواہش نہیں ہے۔ ڈاکٹرز کو ان بنیادی آلات ولوازمات کی ضرورت ہے جن سے وہ مریضوں کا ایسے علاج کریں کہ خود ان کی اپنی زندگیاں خطرہ سے دوچار نہ ہوں۔ زندہ اور تندرست رہنے کی خواہش کرتے کرتے ہم اکثر یہ بھول جاتے ہیں کہ ڈاکٹرز بھی ہماری طرح انسان ہیں اور زندہ اور صحت مند رہنا ان کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا ہمارا۔
ایک ملک کے صحت مند ہونے کے لیے لازمی ہے کہ اس کے ڈاکٹرز زندہ اورسلامت ہوں، ان کی تمام پیشہ وارانہ ضروریات پوری ہوں۔ جو قوم اپنے ڈاکٹرز کو جیلوں میں ڈالتی ہے وہ یقیناً ایک لاعلاج مرض کا شکار ہے۔

No comments: