حالیہ کرونا وبا سے نمٹنے کے لیے جس طرح وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے آگے بڑھ کر اس بحران کا سامنا کیا ہے اس سے پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کی ماضی کی تمام مبینہ ناکامیوں اور نااہلی کے الزام دھل گئے ہیں۔
سیاسی قیادت کی اصل اہلیت، سمجھ بوجھ اور بصیرت کا پتہ بحرانوں میں لگتا ہے۔ حالیہ کرونا وبا سے نمٹنے کے لیے جس طرح وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ نے آگے بڑھ کر اس بحران کا سامنا کیا ہے اس سے پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کی ماضی کی تمام مبینہ ناکامیوں اور نااہلی کے الزام دھل گئے ہیں۔
عوام نے تیسری مسلسل بار پیپلز پارٹی کو ووٹ کی طاقت سے سندھ میں حکومت جاری رکھنے کا جو مینڈیٹ دیا تھا اس اعتماد پر مراد علی شاہ موجودہ بحران میں اب تک پوری طرح کامیاب نظر آتے ہیں۔ انہوں نے جس طرح صوبے کی تمام سیاسی قوتوں اور انتظامی اداروں کو ساتھ ملا کر اس بحران سے نمٹنے کی حکمت عملی تیار کی وہ قابل تحسین ہے۔
پاکستان میں انہوں نے سب سے پہلے مسئلے کی شدت کو سمجھا اور اس پر مختلف اقدامات کا بروقت آغاز کیا۔ سندھ کی سیاسی قیادت نے بحران پر قابو پانے کے لیے تمام اطراف میں فوری پیش قدمی شروع کی۔ انہوں نے مذہبی رہنماؤں سے رابطے کیے اور انہیں اس مسئلے کی سنگینی سے آگاہ کیا اور یہی پیغام ان مذہبی رہنماؤں کے ذریعے ان کے پیروکاروں اور عام عوام تک پہنچایا گیا۔ مسجدوں کو بند کرنے کا قدم بھی سندھ میں سب سے پہلے اٹھایا گیا اور تقریبا تسلسل سے یہ پیغام جاتا رہا کہ اگر ان پابندیوں پر عمل نہ کیا گیا تو سندھ حکومت مزید سخت اقدامات سے گریز نہیں کرے گی۔
تعلیمی اداروں کو بند کرنے میں بھی مراد علی شاہ حکومت نے پہل کی جس سے وبا کو تیزی سے پھیلنے سے روکنے میں اہم پیشرفت ہوئی۔ تمام کھانے پینے کی جگہوں پر مرحلہ وار پابندی لگائی گئی جو کہ تمام ریسٹورنٹس کے مکمل بند ہونے پر ختم ہوئی۔ سب سے پہلے سندھ میں تمام شادی ہالوں کو بند کیا گیا اور اس پر سختی سے عمل کیا گیا۔
لوگوں کی ٹیسٹنگ میں بھی سندھ آگے رہا ہے۔ منسٹری آف نیشنل ہیلتھ کی ویب سائٹ کے مطابق سندھ میں پنجاب سے دوگنا ٹیسٹنگ کی گئی ہے۔ اسی طرح سب سے پہلے سندھ میں ایک بڑے ریلیف پروگرام کا بھی آغاز کیا گیا جس میں وزیر اعلی نے بجلی اور گیس کے محکموں کو بھی ساتھ شامل کیا۔ اس طرح بحران سے نمٹنے کی قیادتی ذمہ داری مراد علی شاہ حکومت نے بخیروخوبی ادا کی۔
اس کے مقابلے میں پنجاب حکومت ایک جمود کا شکار نظر آرہی ہے۔ پنجاب حکومت کی سست روی سے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ پنجاب کی سیاسی قیادت خصوصاً وزیراعلی اعلی عثمان بزدار میں اس مسئلے کی سنجیدگی کو سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ پنجاب حکومت کے زیادہ تر اقدام صرف ردعمل نظر آتے ہیں اور وہ آگے بڑھ کر اس مسئلے سے نمٹنے کے نت نئے طریقے ڈھونڈنے کی صلاحیت سے عاری دکھائی دیتے ہیں۔ شاید وزیراعلی کی ان صلاحیتوں کے مسئلہ کی وجہ سے اطلاعات کے مطابق پنجاب کابینہ کے وزیر راجہ بشارت اب ان تمام مسائل کو دیکھ رہے ہیں۔
پنجاب حکومت کی سب سے نمایاں ناکامی رائیونڈ کے بڑے اجتماع کو مناسب طریقے سے سنبھالنا تھا۔ کرونا وبا کے بارے میں خوفناک معلومات واطلاعات کافی دیر سے سب کی نظر میں تھیں۔ سعودی حکومت نے خانہ کعبہ کو طواف کے لیے بند کر دیا۔ ترکی نے وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام مساجد میں نماز کی ادائیگی پر پابندی لگا دی۔ اسی طرح دیگر ممالک نے احتیاطی اقدامات اٹھائے۔ ہمارے اپنے صوبہ سندھ میں اس قسم کے اجتماعات پر پابندی لگا دی گئی۔ لیکن حکومت پنجاب نے رائیونڈ میں تبلیغی اجتماع کے بارے میں اقدامات میں تاخیر کی۔ یقینا اگر اجتماع کے منتظمین سے پہلے سے بات کی جاتی اور مسئلے کی سنگینی سے آگاہ کر دیا جاتا تو وہ اجتماع کو موخر کرنے پر رضامند ہو جاتے۔ اس اجتماع کو نہ روکنے نے وبا کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کیا۔ نتیجتا اجتماع میں شریک بڑی تعداد میں لوگ نہ صرف پاکستان میں بلکہ بیرون ملک بھی اس وبا کے پھیلاؤ کا سبب بنے۔ فلسطین میں کچھ دن پہلے ہی رائیونڈ سے آنے والوں میں اس وائرس کی موجودگی پائی گئی۔ پنجاب حکومت کی نااہلی سے پورے ملک میں اس وبا کے بڑھنے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔
تفتان سے پنجاب آنے والے زائرین کی ٹیسٹنگ میں ناکامی اور غیراطمینان بخش قرنطینہ سہولیات نے پنجاب حکومت کی نااہلی پر مزید مہر ثبت کر دی۔ فیصلوں میں غلطیاں کرنا بہت بڑی ناکامی نہیں ہوتی لیکن فیصلہ نہ کرنے کی صلاحیت رکھنا بہت بڑی ناکامی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے پنجاب کی موجودہ سیاسی قیادت میں اس سنجیدہ بحران سے نمٹنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ اسی لیے سوشل میڈیا میں یہ کہانیاں زبان زد عام ہیں کہ پنجاب میں لاک ڈاؤن کا فیصلہ بھی کہیں اور سے آیا۔
پنجاب یقیناً الجھنوں کا شکار ہے اور اس میں وفاقی قیادت مزید اضافہ کر رہی ہے۔ وزیر اعظم نے خود بھی کہا ہے کہ سندھ کے لاک ڈاؤن کے فیصلے کی وجہ سے انہیں دوسرے صوبوں میں لاک ڈاؤن کی طرف جانا پڑا۔ وہ یہ بتانے میں ناکام رہے کے لاک ڈاؤن نہ کرنے کی صورت میں ان کے پاس کیا متبادل حکمت عملی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ وزیراعظم لاک ڈاؤن کو حزب اختلاف کا منصوبہ سمجھتے ہوئے اسے اپنانے سے گریز کر رہے تھے تاکہ اس کی کامیابی سے کہیں حزب اختلاف کو کوئی سیاسی فائدہ نہ مل جائے۔
وزیر اعظم کو احساس ہونا چاہیے کہ یہ وقت سیاسی فوائد حاصل کرنے کا نہیں بلکہ عوام کو اس موذی وبا سے بچانے کا ہے۔ اس کے لیے انہیں تمام سیاسی قوتوں اور اداروں کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے۔ ان کا پارلیمانی رہنماؤں کی کانفرنس سے خطاب کے فورا بعد اٹھ جانا ان کی سیاسی ناپختگی اور سیاسی رواداری کی کمی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ انہیں تمام پارلیمانی رہنماؤں کی تجاویز کو سننا چاہیے تھا اور اس کے بعد ایک مشترکہ لائحہ عمل بنانا چاہیے تھا۔
یہ تعاون اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگر یہ بحران طویل ہوتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ خوراک کی سپلائی میں مشکلات پیدا ہوں جو کہ امن و امان کی صورت حال کو خراب کر دے اور وفاقی حکومت کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ جائے۔
موجودہ حالات میں میں درج ذیل فوری اقدام اس وبا کی پیش قدمی کو روکنے میں مددگار ہو سکتے ہیں۔
• وفاقی حکومت کو ٹیسٹنگ کی صلاحیت بڑھانے کی فوری ضرورت ہے اور اس کے لیے ہنگامی طور پر اقدامات اٹھانے چاہیں۔ متاثرہ لوگوں کو علیحدہ کرنا اس وقت حکومت کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔
• مرکز اور صوبوں کے درمیان اس وقت رابطے کی شدید کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ وزیر اعظم کو فورا وزرائے اعلی کی ایک کمیٹی بنا کر اس کا روزانہ کی بنیاد پر ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس کرنا اور مشترکہ اقدام اٹھانا انتہائی اہم ہے۔
• مساجد کے بارے میں بھی مختلف فیصلے ہو رہے ہیں جبکہ ان میں یکسوئی ہونی چاہیے۔ مساجد میں بڑے اجتماع پر مکمل پابندی اور اس پر عمل درآمد کی کی فوری ضرورت ہے۔
• اس وقت عطیات کے لیے مختلف اکاؤنٹس کھولے گئے ہیں جن میں وزیر اعظم اور صوبائی حکومتوں کے علیحدہ علیحدہ اکاؤنٹس شامل ہیں۔ اور تو اور این ڈی ایم اے نے بھی اپنا اکاؤنٹ کھولا ہوا ہے۔ اس طرح کے اقدامات عوام میں الجھن کا باعث بنتے ہیں۔ وزیر اعظم کو چاہیے کہ ان تمام اکاؤنٹس کو ختم کر کے صرف ایک ہی کرونا فنڈ قائم کیا جائے جس میں باآسانی عطیات جمع کرائے جاسکیں۔
کرونا وہ وبا ہے جس نے بڑے بڑے عالمی رہنماؤں کی صلاحیتوں کو بےنقاب کر دیا ہے۔ وزیر اعظم بورس جانسن نے دو ہفتے لاک ڈاؤن نہ کر کے ضائع کیے جبکہ صدر ٹرمپ لاک ڈاؤن ختم کرنے کی جلدی میں ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم کو اس ’عظیم فہرست‘ میں اپنا نام نہیں شامل کرنا چاہیے۔ انہیں آگے بڑھ کر اور سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر اس وبا سے مقابلہ کرنے کے لیے قومی اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر وزیراعظم یہ قومی اتحاد پیدا نہ کر سکے تو پھر شاید یہ کام کوئی اور قوت سرانجام دے گی۔
No comments:
Post a Comment