ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق ضم شدہ اضلاع میں تقریباً 53 فی صد سکولوں اور کالجوں میں بجلی، پنکھوں، صاف پانی، ٹائلٹ اور دیگر ضروری سہولیات نہیں۔
گل روز خان چوتھی جماعت کا طالب علم ہے۔ وہ ہر روز تقریباً ڈھائی کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے نالے کے پار سکول جاتا ہے۔ اپنی آنکھوں میں بڑا آدمی بننے کا خواب سجائے یہ ننھا طالب علم اس لیے ڈاکٹر بننا چاہتا ہے تاکہ اپنی بیمار والدہ کا علاج کر سکے۔
گل روز ضلع اورکزئی کے ایک چھوٹے سے گاؤں بازید خیل میں واقع دو کمروں پر مشتمل گورنمنٹ پرائمری سکول کے ان 360 طلبہ میں سے ایک ہے جو کم و بیش یہی سپنے آنکھوں میں سجائے سکول کا رخ کرتے ہیں۔
گل روز خان کا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے گا یا نہیں، اس کا اندازہ ان کے سکول میں دستیاب سہولیات سے لگانا کچھ زیادہ مشکل نہیں۔
سکول میں موجود تعلیمی سہولیات کا اندازہ اس بات سے باآسانی لگایا جاسکتا ہے کہ ان طالب علموں کو پڑھانے کے لیے صرف دو اساتذہ ہی موجود ہوتے ہیں۔
یہ کہانی نئے ضم شدہ اضلاع کے تقریباً ہر سکول کی ہے۔ پشاور میں ایجوکیشن ڈائریکٹوریٹ سے حاصل کیے گئے اعداد وشمار کے مطابق ضم شدہ اضلاع میں5900 تعلیمی ادارے ہیں، جن میں چھ لاکھ 54 ہزار 331 طلبا زیر تعلیم ہیں۔
ان میں سے تین ہزار 471سکول لڑکوں جبکہ دو ہزار 429 لڑکیوں کے لیے ہیں۔
حکومتی قواعد و ضوابط کے مطابق ہائی سکول کے لیے آٹھ جبکہ مڈل سکول کے لیے چھ اساتذہ کی موجودگی لازمی ہے، لیکن تعلیمی ماہرین کے مطابق یہ تعداد بالکل ناکافی ہے۔
پچھلے سال کے اواخر میں ضلع کرم کے صدر مقام پاڑہ چنار کے ایک گرلز ہائی سکول میں جانے کا اتفاق ہوا۔ آٹھ کمروں پر مشتمل اس سکول میں 1600 سے زائد بچیوں کے بیٹھنے کے لیے گنجائش بنائی گئی تھی۔ کیسے؟ اس بات کا اندازہ اس بات سے باآسانی لگایا جاسکتا ہے کہ اس سکول کے جماعت نہم میں 176 بچیاں فرش پر کندھے سے کندھے ملائے اس انداز میں بیٹھی تھیں گویا ان کو چھٹی سے پہلے ہلنے کی بھی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔
مقامی صحافی اور پاڑہ چنار پریس کلب کے چیئرمین علی افضل افضال نے بتایا یہ کرم کے دوسرے سکولوں کی ایک چھوٹی سی تصویر ہے۔
2016 کی ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق ضم شدہ اضلاع میں تقریباً 53 فی صد سکولوں اور کالجوں میں بجلی، پنکھوں، صاف پانی، ٹائلٹ اور دیگر ضروری سہولیات نہیں تھیں۔ اکثر سکولوں کی چار دیواریاں بھی نہیں تھیں۔
ٹرائبل یوتھ مومنٹ کے صدر خیال زمان اورکزئی کہتے ہیں قبائلی علاقہ جات جیسے روایت پسند اور قدامت پسند معاشرے میں کیا کوئی شخص اپنی بچی کو ایسے سکول بھیجےگا جس سکول کی چار دیواری نہ ہو؟
شاید یہی وجہ ہے کہ ضم شدہ اضلاع میں تعلیمی شرح اور خصوصاً خواتین کی شرح تعلیم انتہائی کم ہے۔ فاٹا سیکرٹریٹ اور بیورو آف سٹیٹسٹکس کے اشتراک سے دو سال پہلے ہوئے ایک سروے کے مطابق ضم شدہ اضلاع میں خواتین کی شرح تعلیم صرف 7.8 فیصد ہے جبکہ مردوں میں یہ شرح 28.4 فیصد ہے۔
سروے کے مطابق 44.2 فیصد بچے ایسے ہیں جو کبھی سکول گئے ہی نہیں۔ان سکولوں میں سہولیات کے فقدان کے ساتھ ساتھ اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا اساتذہ کو حکومت کی طرف سے وہ تربیت دی جاتی ہے جوطلبہ کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ان کے نصابی اور غیرنصابی سرگرمیوں کی تکمیل کے لیے درکار ہے؟
مشہور ماہر تعلیم اور گورنمنٹ کالج پاڑہ چنار کے سابق پرنسپل جمیل کاظمی اس کا جواب نفی میں دیتے ہیں۔ ٹیچر تربیت کی سہولت یہاں پر نہیں ہیں اور نہ ہی خواتین اساتذہ کے لیے ہاسٹل کی کوئی سہولت موجود ہے۔ غیرموثر مواصلاتی نظام، سڑکوں کی حالت زار اور ٹرانسپورٹ کی کمی اس کام کو مزید مشکل بنا دیتی ہے۔
خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان کہہ چکے ہیں کہ ضم شدہ اضلاع میں تعلیمی اور دیگر مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر دور کیا جائے گا۔ تاہم ابھی تک یہ پیش رفت سست روی کا شکار ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی ان علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں۔ کرونا وائرس کے پیش نظر ملک کے دورافتادہ پسماندہ علاقوں میں طلبہ کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وزیراعظم عمران خان نے گذشتہ دنوں پاکستان ٹیلی ویژن کے ذریعے ایک ٹیلی چینل کا افتتاح کیا لیکن وزیر اعظم کو کوئی سمجھائے کہ ٹی وی سیٹ تو بجلی سے چلتے ہیں اور بجلی تو ان علاقوں میں ناپید ہے۔
No comments:
Post a Comment