وزیراعظم تو خود کھلاڑی ہیں ان کو تو پتہ ہوگا کہ انسان آدھی جنگ اسباب سے تو باقی جنگ اعصاب سے جیتتا ہے، انہوں نے تو ابھی سے ہتھیار ڈال دیے۔
اسے مشیت خدا کہیے، قدرت کا نظام، فطرت کا انتقام کہیے، اسرائیل امریکہ کی سازش سمجھیں یا انسان کی غلطیوں کا خمیازہ، لیکن انسانی آنکھ سے نظر تک نہ آنے والا کرونا وائرس نوع انسانی کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر چکا ہے۔
کچھ سال قبل جب ڈینگی نے پنجے گاڑے تھے تب یہ عجب لگتا تھا کہ ایک نازک سا مچھر اپنے ڈنک سے آدمی کے جسم میں موجود کیمکل کے توازن کو اُتھل پُتھل کرسکتا ہے۔ یہ ننھا سا مچھر، چہ پدی چہ پدی کا شوربہ، خون جمانے کی صلاحیت ختم کردیتا ہے۔ موا مچھر تو پھر ایک دو تالیوں کے بیچ پس سکتا تھا، اب اس ان دیکھے کرونا کا کیا کیجیے؟
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کرے ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
میر تقی میر نے کچھ غلط شکوہ نہیں کیا، دنیا کے اس گولے کے اوپر کشش ثقل سے چپکے انسان اپنی قسمت کے فیصلے خود نہیں کرسکتے۔ کہیں ان زندگیوں پر لوح محفوظ پر لکھا اچھا برا پورا اتر رہا ہے اور کہیں خدا کا نائب یعنی خود انسان ہی انسان پر مسلط ہے۔
ہم پہ مسلط انسان جنہیں ہم سسٹم چلانے کی خاطر لیڈر، نجات دہندہ کہہ کر دل بہلاتے ہیں، اکثر آڑھے وقت میں بھوسے کی ڈھیری ثابت ہوتے ہیں۔ ایسے ہی کرونا کا وائرس ہماری نام نہاد لیڈرشپ نگل گیا۔
جنوری فروری پورے دو مہینے ملے کہ تیاری پکڑ لو مگر نہیں پکڑی۔ ملکی سرحدوں پر کرونا چیک لگانے کے لیے انہیں ایک ماہ بھی کافی تھا مگر نہیں کیا۔ فروری کے پہلے ہفتے میں ایران سے کرونا وائرس کی شدت اور ہلاکتوں کی خبریں آنے لگیں مگر مزید زائرین کے ایران یا عراق جانے پر پابندی نہیں لگائی۔
میری ایران، عراق قافلے لے جانے والے قافلہ سالار شبیر رضا سے خاصی طویل گفتگو ہوئی۔ شبیر رضا سیالکوٹ سے زائرین کا گروپ لے کر پہلے عراق پھر ایران گئے تھے۔ وہ اس وقت پاک ایران تفتان سرحد پر بنائے ایک قرنطینہ مرکز میں موجود ہیں۔ میں نے صحت پوچھی تو کہنے لگے کہ بیابان علاقے تفتان میں رات کو اتنی ٹھنڈ پڑتی ہے کہ کرونا نہیں نمونیا مار دے گا۔
تفتان سرحد پر جہاں زائرین کے کیمپ ہیں، وہیں ان خیمہ بستیوں میں ایک گروپ پاکستانی تاجروں کا بھی ہے۔ ایک پاکستانی تاجر نے کہا کہ بلوچستان حکومت نے خیمہ تکیہ رضائی تو دی ہے مگر صفائی نہیں۔ کئی سو افراد کے لیے گنتی کے 12 ٹوائلٹ ہیں۔
شبیر رضا نے شکوہ کیا کہ تفتان کسٹم ہاؤس کے ساتھ موجود جس عمارت میں عارضی ہسپتال بنایا گیا ہے، وہ خود کرونا وائرس کی نرسری بن گئی ہے۔
جن لوگوں کا اعتراض ہے کہ زائرین کو واپس آنے کیوں دیا، انہیں وہیں قم یا مشہد میں رہنے دیا ہوتا، ان سے عرض ہے کہ ایرانی حکومت وضاحت سے کہہ چکی ہے کہ عالمی پابندیوں کے باعث ایران اپنی عوام کو کرونا سے بچانے سے قاصر ہے کجا یہ کہ وہ زائرین کو طبی سہولیات دیتی۔
دوسرا یہ کہ آپ زبردستی اپنے شہریوں کو کسی دوسرے ملک میں نہیں رکھ سکتے، چین کی بات اور تھی۔ چین میں موجود پاکستانیوں کی اکثریت کے پاس مستقل رہائش یا ہاسٹل کا بندوبست تھا جبکہ زائرین صرف دس، پندرہ دن کے سفر کی تیاری کر کے گھر سے نکلتے ہیں اس لیے کسی دوسرے ملک میں ان کا مہینوں اپنے وسائل سے رہنا تقریباً ناممکن تھا۔
پاکستان کے پاس دوسرا آپشن وہ حکمت عملی تھی جو تہران میں بھارتی سفارت خانے نے اپنائی، یعنیٰ بھارتی شہریوں کے لیے قرنطینہ مرکز ایران کے بڑے ہوٹلوں میں قائم کر دیے۔ ایران میں پھنسے بھارتی زائرین بھی شکایت کر رہے ہیں مگر کم از کم یہ ایرانی ہوٹل اس پیمانے پر کرونا پھیلانے کا سبب نہیں بن رہے ہوں گے جو حال تفتان قرنطینہ میں ہو رہا ہے۔
چین کے وبا زدہ علاقے ہوبائی سے آنے والے ایک طالب علم نے مجھے واٹس ایپ پر پیغام بھیجا کہ جو چھچھورپن ہمارے یہاں کرونا وائرس کو لے کر ہو رہا ہے، جتنی غیر سنجیدہ ہماری حکومت ہے اسے دیکھ کر احساس ہو رہا ہے کہ واپس آنے سے تو بہتر تھا کہ ہم چین میں ہی رہ جاتے۔
رہ گئی بات زلفی بخاری کے مشتبہ کردار کی تو اب تک میں نے جتنے بھی شیعہ علما اور زیارت ٹور آپریٹرز سے بات کی، سب زلفی بخاری کی بے اعتنائی سے ناراض ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ زلفی بخاری نے کچھ مدد کی ہوتی تو زائرین پندرہ، بیس دن تفتان سرحد پر یوں خوار نہ ہوتے۔
خود زلفی بخاری اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ جو پاکستانی تفتان سرحد پر پاکستان کے دروازے تک آگئے آپ ان پر ان کے ملک کے دروازے کیسے بند کر سکتے تھے؟ زلفی بخاری کے سارے جواب قبول مگر جن پاکستانیوں کا آپ کو اتنا درد تھا ان کے لیے کچھ بہتر انتظامات بھی کرا لیے ہوتے۔
یہ زائرین حکومت پاکستان سے چوری چھپے ایران، عراق نہیں گئے تھے۔ ان کی تعداد، ویزہ کی مدت، واپسی کی ممکنہ تاریخ سب کچھ حکومت کے علم میں تھا سو ان کی واپسی پر خطرے سے نمٹنے کی تیاری حکومت کا کام تھا۔
ٹوئٹر پر ایک شہزادہ گلفام فرماتے ہیں کہ تفتان قرنطینہ مرکز سے فرار ہونے والے افراد کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم دیا جائے۔ شہزادے سے یہ پوچھ لینا چاہیے کہ جن کی مجرمانہ غفلت سے کرونا وائرس درجنوں سے سینکڑوں افراد تک پھیل گیا ان کے بارے میں کیا خیال ہے؟
اپنی نااہلی اور غفلت سے جو خطرہ وفاقی حکومت نے پیدا کیا ہے اس خطرے سے اس وقت اکیلی سندھ حکومت نمٹ رہی ہے اور خوب نمٹ رہی ہے۔
سکھر کے علاقے گولیمار میں حال ہی میں تعمیر لیبر کالونی کے فلیٹوں کو قرنطینہ مرکز بنایا گیا ہے۔ اس قرنطینہ مرکز میں کے ڈی سی (خیرپور ڈیزاسٹر مینجمنٹ سیل) نامی مقامی تنظیم بطور رضا کار کام کر رہی ہے۔
کے ڈی سی کے نمائندے اظہر بروہی نے بتایا کہ ان فلیٹس میں کرونا مریضوں کے لیے صحت و صفائی کے انتظامات بہترین ہیں۔
کے ڈی سی کے رضا کار کرونا مریضوں کے لیے پڑھنے کو کتابیں لا رہے ہیں۔ مشتبہ اور تصدیق شدہ مریضوں کا معائنہ ڈاکٹروں کی خصوصی ٹیم کرتی ہے جبکہ طبی سہولیات کے لیے میڈیکل کے طلبہ بھی بطور رضاکار موجود ہیں۔
کراچی میں اس وقت نجی ہسپتال، بلامنافع کام کرنے والے ادارے، این جی اوز اور مقامی سیاسی قیادت مل کر کام کر رہی ہیں۔ جماعت اسلامی بھی ملک کے مختلف علاقوں میں اپنی بساط کے مطابق طبی مراکز قائم کر رہی ہے اور بارہا جتا رہی ہے کہ دعا کرو، دوا کرو۔
ہاں ایک جماعت ہے جس نے اپنے محلات میں بیٹھ کر بیان داغنے کا آسان کام پکڑا ہوا ہے۔
ضروری نہیں کہ لیڈرشپ کے جلوے اسی وقت دکھائے جائیں جب آپ حکومت میں ہوں، اس لیے کرونا کرائسسز میں حکومت کی نااہلی کے ساتھ ساتھ نام نہاد قائدین کے منفی کردار پر تنقید بنتی ہے۔
اس وقت پوری مسلم لیگ ن صرف عمران خان اینڈ کمپنی کے لتے لینے پر لگی ہے۔ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کا بحران کی اس گھڑی میں کردار صفر ہے۔
جہاں چاہ وہاں راہ، یہ وہی سندھ ہے جسے ہم پچھلے سال رو رہے تھے کہ کتے کے کاٹے کی ویکسین تک موجود نہیں۔ آج وہی سندھ ہے جو بحران میں لیڈر بن کر ابھرا ہے۔ اگر ہم ٹشن کی بجائے کام کو اہمیت دیں تو مراد علی شاہ ہمارے نئے قومی ہینڈسم ہیں۔
سائنس دان کہہ رہے ہیں کرونا وائرس سے ہماری قوت مدافعت لڑتی ہے، ٹھیک ہے مگر اجتماعی مصیبت کے خلاف قوم کی اجتماعی قوت مدافعت بھی تو کوئی معنی رکھتی ہے۔
وزیراعظم تو خود کھلاڑی ہیں ان کو تو پتہ ہوگا کہ انسان آدھی جنگ اسباب سے تو باقی جنگ اعصاب سے جیتتا ہے، انہوں نے تو ابھی سے ہتھیار ڈال دیے
No comments:
Post a Comment