شاد بیگم
کچھ مرد حضرات نے یہ بھی کہا کہ یہ عورتیں اپنا جسم اور اپنی مرضی کا یہ مطلب لیتی ہیں کہ یہ طوائف بن جائیں۔ میرا جسم، میری مرضی کا ہرگز یہ مطلب نہیں لیکن آپ نے کبھی یہ سوچا ہے کہ عورت طوائف کیوں بنتی ہے؟
میرا جسم، میری مرضی کا نعرہ جو کہ پچھلے سال ہونے والے عورت مارچ کے بعد سے ہر طرف زیر بحث ہے۔ جتنے بحث مباحثے اس حوالے سے ہوئے اس کا لبِ لباب نکالنے سے معلوم ہوتا ہے جیسے اعتراض میرے جسم پر نہیں، میری مرضی پر ہے۔ یہی تو ہمیشہ ہوتا آیا ہے، مسئلہ سارا اس مرضی کا ہے اور ہمارا معاشرہ آج بھی یہ چاہتا ہے کہ چاہے عورت کا جسم ہو، تعلیم کا حق ہو، نوکری کا حق ہو، پسند کی شادی کرنے کا حق ہو، کسی بات سے انکار کا حق ہو، اس سب میں مرضی مرد کی چلنی ہے۔ جہاں عورت نے اپنی مرضی چاہی، اس عورت کو نافرمان، بدچلن اور بری عورت قرار دیا۔
آخر اتنا خوف کیوں ہماری مرضی سے؟ یا شاید اس خوف کی وجہ یہ تو نہیں کہ آپ کو مرضی کا مطلب سمجھ میں نہیں آتا؟ اس مرضی کا مطلب ہرگز وہ نہیں جو آپ سمجھتے ہیں، کہ اگر کسی لڑکی کو شادی کے لیے پوچھا اور اس نے انکار کر دیا تو آپ کی مرضی ہے کہ آپ اس پر تیزاب پھینکیں۔ اگر کو ئی لڑکی پڑھنا لکھنا چاہے یا نوکری کرنا چاہے تو آپ نے اسے مار دیا اور اسے اپنا گھریلو ذاتی معاملہ قرار دے کر صاف بچ گئے۔ کیونکہ مرضی تو صرف آپ کی چلتی ہے۔ بیوی نے کھانا صحیح نہیں بنایا اور آپ نے تشدد کیا۔ بیٹیاں پیدا کرنے پر عورت کا جینا حرام کر دیا کیونکہ قدر تو صرف اولاد نرینہ کی ہے۔
بھائی یا باپ تیش میں آیا اور کسی کو مار دیا۔ اب اسے بچانے کے لیے خاندان سر توڑ کوشسشیں کرے گی کہ اس کی زندگی بچ جائے لہذا یہاں پھر مرد حضرات کی مرضی کام آئے گی اور وہ یہ فیصلہ کریں گے کہ گھر میں موجود کسی بچی یا خاتون کو ’سورہ‘ میں دے دیا جائے اور دشمنی ختم کر دی جائے کیونکہ اس بچی یا خاتون کی کوئی مرضی تو ہے نہیں۔ اس کے بعد چاہے اس کی زندگی کا ہر دن قیامت کا دن ہو کیونکہ اس کی شادی نہیں کی جاتی اسے ایک نعم البدل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ پھر اسے کے شوہر اور اس کے گھر والوں کی مرضی کہ اس دشمنی کے پاداش میں روز اسے پھانسی سنائیں یا اس کا گلہ گھونٹے، مرضی اس کی نہیں چلے گی۔
دنیا جہان میں جہاں جہاں جنگ ہوئی، ہم سب کو اس امر کا بخوبی پتہ ہے کہ مرد صرف قتل ہوتے ہیں لیکن عورت قتل سے زیادہ ریپ ہوتی ہے۔ ریپ کو جنگوں میں ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے، کیونکہ عورت کے جسم پر اس کی مرضی نہیں، لہذا مرد آپس میں دشمنیاں اور جنگوں میں ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے اور بے عزت کرنے کے لیے ایک دوسرے کی عورتوں کے جسموں کو ظلم کا نشانے بناتے رہتے ہے اور دشمنی کی آگ بجھائی جاتی ہے
کچھ مرد حضرات نے یہ بھی کہا کہ یہ عورتیں اپنا جسم اور اپنی مرضی کا یہ مطلب لیتی ہیں کہ یہ طوائف بن جائیں سب۔ میرا جسم، میری مرضی کا ہرگز یہ مطلب نہیں لیکن آپ نے کبھی یہ سوچا ہے کہ عورت طوائف کیوں بنتی ہے؟
بھائی جس معا شرے میں عورت کی تعلیم پر پابندی ہے۔ عورت کی تعلیم کے لیے ادارے نہ ہونے کے برابر ہوں، مناسب ملازمتیں نہ ہوں، وہاں عورت طوائف نہیں بنے گی تو کیا کرے گی؟ لیکن سوال تو یہ بنتا ہے کہ طوائف کے پاس جاتا کون ہے؟ مرد۔ وہ مرد جس کی مرضی ہے، جہاں جائے، جو کرے، کوئی مائی کا لال مرد کی مرضی پر سوال نہیں اٹھا سکتا۔
اسی مرد کی مرضی میں آتا ہے تو کم سن اور معصوم بچے بچیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر بےدردی سے مار دے گا کیونکہ اس کی مرضی ہے۔
اپنے ارگرد نظر دوڑائیں اور مرد کی مرضی کی ایسی بہت سی مثالیں آپ کو نظر آئیں گی جو روز انسانیت کا جنازہ نکالتی ہوں گی لیکن چونکہ ہمارے معاشرے میں کبھی مرد کی مرضی پر سوال نہیں اٹھایا گیا اس لیے ہمیں یہ کبھی محسوس ہی نہیں ہوا کہ اس مرضی پر سوال اٹھائیں اور اس کو روکنے کی بات کریں۔ عورت جس مرضی کی بات کر رہی ہے وہ ہرگز وہ مرضی نہیں جو آج تک ایک مرد کرتا اور سمجھتا آ رہا ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہم عورتوں کی مرضی چلے۔ ہم اپنے حق کے لیے آواز اٹھائیں۔ ہمارے جسم ہماری ملکیت ہیں۔ کسی مرد یا کسی انسان کو ہمارے جسم پر کوئی حق اور سروکار نہ ہو۔ ہم بھی ترقی کی منازل طے کریں۔ اپنی مرضی سے اپنی صلاحیتوں کو استعمال کریں۔
ہزار مشکلات اور جانفشانی کے بعد آج کی عورت جس طرح سے دنیا کے ہر کونے اور ہر شعبے میں کامیابی کی منازل طے کر رہی ہے، اس سے تو صاف ظاہر ہے کہ عورت کو اپنی مرضی کا مکمل حق حاصل ہونا چاہیے۔ اپنی مرضی اور خوشی سے جینا ہر انسان کا حق ہے لیکن پھر صرف ہم پر اعتراض کیوں؟
ہمارے معاشرے میں کنفرنٹیشن کی وبا ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔ کنفرنٹیشن سے مزید تنازعے اور مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ لہذا ہم سب کو تھوڑے توقف سے سوچنے اور سمجھنے کے بعد اپنی بات کو مدلل طریقے سے آگے رکھنا چاہیے اور ترجیح اصلاح ہو۔ نہ کہ اپنی ذاتی انا اور جھوٹے وقار کی پرستش ہو۔
ایک متوازن معاشرے کی بنیاد ہی ایک ترقی یافتہ، پر امن اور خوشحال معاشرے کی ضامن ہے۔ میری یہ تحریر پڑھنے کے بعد گالی کا خیال دل میں آئے تو یہ سوچ لیجیے گا کہ آپ میری بات سمجھے نہیں لہذا توقف سے کام لیں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ میری مرضی سے آپ کو کوئی خطرہ نہیں لہذا مطمئن رہیں۔
خود بھی جییں اور دوسرں کو بھی جینے دیں۔
No comments:
Post a Comment