Wednesday, March 25, 2020

اگر ہم نے سنجیدگی کے ساتھ اس وباء کا مقابلہ نہ کیا تو ہمارا صحت عامہ کا نظام اس وائرس کے نیچے دب جائیگا - بلاول بھٹو


پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اعلان کردہ ریلیف پیکیج کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ لگتا ہے وزیراعظم کو کرونا وائرس کے متعلق درست صورتحال سے آگاہ نہیں کیا جا رہا، اگر ہم نے سنجیدگی کے ساتھ اس وباء کا مقابلہ نہ کیا تو ہمارا صحت عامہ کا نظام اس وائرس کے نیچے ڈوب جائیگا اور ہم حالات کو سنبھال نہیں پائیں گے۔ موجودہ حالات میں یہ پیغام ریاست کا نہیں ہو سکتا کہ اگر آپ امیر ہو تو اپنی صحت کا خیال رکھ سکتے ہو، لیکن اگر آپ کا تعلق غریب طبقے سے ہے، تو بیمار ہوکر مر بھی جاوَ تو ہم پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ویڈیو لنک پر منعقدہ آل پارٹیز پارلیمانی سربرہان کے اجلاس سے وزیراعظم کے نامناسب رویئے کے خلاف احتجاجاً واک آوَٹ کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ بلاول ہاوَس کراچی سے بذریعہ وڈیو لنک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پی پی پی چیئرمین کا کہنا تھا کہ انہوں نے اختلافات کے باوجود حالات کے ہیش نظر حکومت کی جناب سے منعقدہ پارلیمانی لیڈرز کی کانفرنس کی دعوت قبول کی، لیکن وزیراعظم کی جانب سے اپنا موقف پیش کرنے کے بعد دیگر جماعتوں کی بات سننا ہی گوارا نہ کرنا اور اٹھ کر چلے جانا ہم پاکستانیوں کی اخلاقی رویات اور کلچر کے منافی عمل ہے۔ عمران خان کا یہ رویہ غیرسنجیدہ اور بدتہذیبی کے ذمرے میں آتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وزیراعظم کے اس رویئے کے خلاف میاں شہباز شریف کی جانب سے احتجاجاً میٹنگ سے اٹھ کر چلے جانے کے بعد میں بھی احتجاجاً اٹھ کر آگیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان نے اس عمل سے ایک بار یہ پیغام دیا ہے کہ قوم کے اتحاد اور ہم آہنگی کو فروغ دینے میں بلکل بھی دلچسپی نہیں رکھتے۔ 
ہم اپیل کرتے ہیں کہ وزیراعظم اپنی ائپروچ پر نظرثانی کرے اور وہ کسی کو فیور نہیں دے رہے بلکہ بطور وزیراعظم پاکستان یہ ان کی ذمیداری ہے۔ انہیں تمام سیاسی قیادت سے بھی بات کرنی چاہیئے۔ ہم اب بھی مقابلہ کرنے کے لیئے تیار ہیں۔ پانہوں نے کہا کہ وزیراعظم کا یہ موقف عالمی اداروں کی تحقیق اور وارننگس سے متضاد ہیں کہ پاکستان میں مقامی سطح پر کرونا وائرس کا پھیلاوَ بہت کم ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان مقامی سطح پر متاثر ہیں، سندھ میں 148 کیسز جن میں سے 94 مقامی ہیں جو خاص کر کراچی میں ہیں جس کا مطلب ہے کہ 64 فیصد کیسز مقامی ہیں۔ پی پی پی چیئرمین نے مختلف ممالک میں طبی سہولیات کا پاکستان سے تقابلی جائزہ لیتے ہوئے بتایا کہ برطانیا میں فی ایک ہزار شہریوں کے لیئے 2.8 اسپتال کے بیڈ، اسپین میں 3، اٹلی میں 3.4 اور چین میں 2 ہاسپیٹل بیڈ دستیاب ہیں، جبکہ پاکستان فی ایک ہزار شہریوں کو فقط 0.6 ہاسپیٹل بیڈ میسر ہیں۔ اس صورتحال میں ہمیں اس مہلک وباء کی روکتھام کے لیئے انتھائی تیزی اور موثر اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ قرطینہ سینٹرز اور لاک ڈاوَن کو سنجیدگی سے لینا پڑے گا۔ وفاق پورا ملک میں وہ اقدامات کرے جو اس وائرس کو کم کرسکتا ہے، متاثرین کا سراغ لگاسکتے ہیں، اس دوران ہم اپنے ہسپتالوں کی تعداد بڑھائیں، تشخیصی کٹس کی 
تعداد بڑھائیں، ایک دن میں ٹیسٹ کرنے کی تعداد بڑھائیں، ڈاکٹر اور نرسز کی تربیت کریں۔
 ہمیں اس بیماری کے خلاف تیاری کریں تاکہ ہم مقابلہ کرسکیں۔ اس وقت ریاست کا فقط دو معاملات پر فوکس ہونا چاہیئے۔ ہمیں ہمیں ملک میں ٹیسٹنگ اور طبی سہولیات صلاحیت میں اضافہ اور اس کے ساتھ ساتھ امدادی کاموں اور معیشت کا سنبھالنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ جب تک ہم سب مل جل کر اقدامات نہیں اٹھائیں گے، لاک ڈاوَن موثر نہیں ہوگا۔ پنجاب کا لاک ڈاؤن فائدہ مند نہیں ہوسکے گا اگر اسلام آباد میں لاک ڈاؤن نہیں ہوگا۔ پی پی پی چیئرمین نے اپنی جانب سے حکومت کو تجاویز دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کی جانب سے ریلیف پیکیج کے اعلان کے بعد اسٹاک ایکسچینج کے ردعمل سے واضح ہے یہ پیکیج ناکافی ہے۔ ہمیں غریبوں کی صحت اور زندگیوں کو تحفظ دینے کے ساتھ ساتھ ان کے معاشی حالات کو بھی سنبھالنا ہوگا۔ ہر غریب خاندان کو کم از کم 15000 روپے ماہانہ دیئے جائیں۔ شہریوں کی موثر آئسولیشن کے لیئے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ پانچ ہزار تک کے بجلی کے بلز اور 2000 روپے تک کے گئس کے بلز معاف کرنا ہونگے۔ انٹریسٹ ریٹ کو سنگل ڈجٹ پر لانا پڑے گا۔ حکومت سندھ نے سب سے پہلے موجودہ حالات کے پیش نظر ریلیف فنڈ قائم کیا ہے اور اس کے بعد دیگر صوبوں نے بھی اس طرح کے قدم اٹھائے ہیں۔ ہمیں ہنگامی بنیادوں پر حفاظتی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ موجودہ حالات میں ریاست کا پیغام یہ ہونا چاہیئے کہ شہریوں کی صحت اور ان کی زندگیوں کی 
بلا امتیاز حفاظت اور معاشی معاملات کو سنبھالیں گے

https://www.ppp.org.pk/2020/03/25/agar-hum-ny-is-waba-ka-sanjdagi-sy-mutable-na-kiya-tu-humara-health-system-is-ky-agay-soon-jy-ga/

No comments: