وزیراعظم - آخر وہ خود بھی گھبرا گئے۔۔۔۔۔! - “گھبرانا نہیں ہے”
احمد شیر اعوان
اٹھارہ ماہ سے پاکستانیوں کو “گھبرانا نہیں ہے” کی مسلسل تلقین کرنے والے وزیراعظم کے گذشتہ چند روز میں دیے بیانات سے محسوس ہو رہا ہے کہ اب موصوف خود بھی معیشت کے حوالے سے کافی
گھبراہٹ کا شکار ہو چکے ہیں، فرماتے ہیں کہ منہگائی کنٹرول نہیں ہو پا رہی، مجھے مِس گائیڈ کیا جارہا ہے، میرا اس تنخواہ میں گزارہ نہیں ہوتا، خیر وفاقی کابینہ نے تو اطلاعات کے مطابق ان کی تنخواہ میں خاطر خواہ اضافہ کر کے ان کا یہ شکوہ تو دور کر دیا مگر ناجانے ان کروڑوں پاکستانیوں کے مستقبل کا کیا ہو گا جو اقتدار کے اندھے بہرے ایوانوں سے حالات کی بہتری کی آس امید لگائے بیٹھے ہیں اور ان برے معاشی حالات میں گھبرا بھی نہیں سکتے کیونکہ انہیں گھبرانے سے منع کیا گیا ہے۔
موجودہ صورتحال یہ ہے کہ پٹرول، بجلی، گیس کے ساتھ ساتھ روزمرہ استعمال اور کھانے پینے کی تمام اشیاء کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے عوام کے پہلے سے موجود معاشی مسائل میں مزید اضافہ کر دیا ہے، سٹیٹ بینک نے اپنی رپورٹ میں افراط زر یعنی مہنگائی کی شرح 11 سے 12 فیصد رہنے کا امکان ظاہر کیا تھا جبکہ ماہرین کے مطابق یہ اب 14.5 فیصد سے تجاوز کر گئی ہے۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق اس وقت مہنگائی کی شرح پچھلے بارہ سالوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، شرح سود کو مسلسل تیسری بار 13.25% کی بلند ترین سطح پر برقرار رکھا گیا ہے، اگر آسان الفاظ میں بات کی جائے تو آنے والے مہینوں میں مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہو گا۔
یاد رہے سٹیٹ بینک کسی بھی ملک کا فنانس کنٹرول کرتا ہے اور اس کا ہیڈ دراصل فنانس کنٹرولر ہوتا ہے اور بدقسمتی سے ہمارے ملک کے فنانس کنٹرولر آئی ایم ایف کے سابقہ ملازم ہیں اور ایک رائے کے مطابق وہ اب بھی اپنے سابقہ آجر کے مفادات کے لئے کام کر رہے ہیں۔
اگر مہنگائی کے اسباب کا جائزہ لیا جائے تو حکومتی نااہلی، نا تجربہ کاری اور غیر سنجیدگی سرفہرست نظر آئے گی، جولائی 2018 کے انتخابات کے نتیجے میں سیلیکٹ ہونے والے وزیر اعظم عمران خان نے حکومت میں آنے سے قبل اور آنے کے فوری بعد بہت سے دعوے کئے تھے جس میں روزانہ ہونے والی دو ارب روپے کی کرپشن کا خاتمہ، بیرونی قرضے نا لینے کا عہد، سابقہ حکمرانوں کے لوٹے گئے 200 ارب ڈالر کی واپسی، ایک کروڑ نوکریاں، پچاس لاکھ گھر، انڈے، مرغیاں، بکرے، کٹے وغیره شامل ہیں، افسوس کہ انڈے مرغیوں کٹوں تک والے دعووں پر ہی عملدرآمد نہ ہو سکا باقی تو بعد کی باتیں تھیں۔ غلط حکومتی پالیسیوں، جلد بازی اور اصل مسائل کا ادراک نا ہونے کی وجہ سے پاکستان میں ہر قسم کا کاروبار ترقی کرنے کی بجائے تنزلی کا شکار ہو گیا۔ نئے ٹیکسوں کی بھرمار اور نیب کی پرائیویٹ کاروباری اداروں میں مداخلت کی خبروں نے معاشی بحران میں مزید اضافہ کر دیا۔ اس گرتی ہوئی معیشت سے سب سے بڑا نقصان لاکھوں افراد کی بےروزگاری کی صورت میں سامنے آیا، شاید ہی ملک کی کوئی ایسی صنعت ہو جس میں انتہائی نوعیت کی ڈاون سائزنگ نا ہوئی ہو۔
کچھ معاشی ماہرین پاکستان میں مہنگائی کا ایک سبب آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر قرض لینے یا نا لینے کے فیصلہ میں لیت و لعل سے کام لینے کو بھی قرار دیتے ہیں جس کے نتیجے میں ڈالر کی قیمت میں تاریخی اضافہ ہوا اور ہمیں آئی ایم ایف کی بجلی گیس پٹرول کی قیمتوں اور ٹیکسوں کی شرح میں اضافے کی شرائط کے آگے سر تسلیم خم کرنا پڑا اور ملک میں مہنگائی کا خوفناک طوفان آیا۔
ایک اور دعویٰ تو وزیراعظم صاحب اکثر اپنی تقاریر میں کیا کرتے تھے کہ وہ جب حکومت میں آئیں گے تو 8000 ارب سے زیادہ ٹیکس ریونیو اکٹھا کرکے دکھائیں گے، بجٹ 2019-20 میں آمدن کا ہدف 5500 ارب روپے رکھا گیا تھا جو کسی بھی طور پورا ہوتا دیکھائی نہیں دیتا اور مجموعی بجٹ خسارے میں مزید اضافے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
کرپشن کے خلاف کیمپین چلا کر اور قرضے لینے پر خود کشی کو ترجیح دینے کے اعلانات کر کے حکومت میں آنے والوں کی اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہو گی کہ بین الاقوامی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ملک میں اس سال کرپشن پہلے سے بڑھی ہے اور گزشتہ 15 ماہ میں پاکستان کے بیرونی قرضوں میں 40 فیصد کا اضافہ ہوا ہے جو 29 ہزار ارب روپے سے بڑھ کر 41 ہزار ارب روپے سے تجاوز کر گئے ہیں اور ہر پاکستانی اوسطً دو لاکھ روپے سے زائد کا مقروض ہو چکا ہے، اس اضافے سے عوام پر مزید اضافی بوجھ پڑا ہے جس پر قابو پانے کے لیے اب قیمتی قومی اثاثوں کی فروخت کی باتوں کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔
اگر روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ پٹرول یکم فروری 2019 کو 90.38 روپے لیٹر تھا جو یکم فروری 2020 کو 116.60 روپے پر پہنچ چکا ہے، بجلی کے حوالے سے موجودہ حکومت نے گذشتہ ایک سال کے دوران ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز اور ٹیرف کی مد میں تقریباً 15 روپے فی یونٹ تک کا اضافہ کیا اور مجموعی طور پر صارف پر 550 ارب روپے سے زائد کا اضافی بوجھ ڈالا گیا جس سے عام صارف کے بجلی کے ماہانہ بل میں کم ازکم 150% تک کا اضافہ ہوا ہے، دسمبر 2018 میں 100 یونٹ بجلی کا بل 785 روپے تھا جو اس سال بڑھ کر 1885 روپے ہو گیا ہے۔
قدرتی گیس کی نہ صرف قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کیا گیا ہے بلکہ گھریلو صارفین کے لئے تو اسکی سلیبز بھی تبدیل کر دی گئی ہیں یعنی دو دھاری تلوار سے ان کی جیبوں پر وار کیا گیا ہے، نچلی سلیب پر 150 فیصد جبکہ اوپر کی سلیبس میں یہ اضافہ 400 فیصد تک کیا گیا ہے۔ اگر روزمرہ کھانے پینے کی اشیاء کی بات کریں تو گزشتہ ڈیڑھ سال میں آٹا 38 روپے سے 75 روپے فی کلو، چینی 52 روپے سے 85 روپے فی کلو، باسمتی چاول 110 روپے سے 180 روپے فی کلو، گھی 170 روپے فی کلو سے 250 روپے فی کلو ہو چکا ہے جبکہ دالوں اور سبزیوں کی قیمتیں بھی سو سے ڈیڑھ سو فیصد بڑھ چکی ہیں، مزید ظلم یہ کہ گزشتہ ڈیڑھ سال میں ادویات کی قیمتوں میں جس رفتار سے اضافہ ہوا ہے اس کی پچھلے 73 سالوں کوئی نظیر نہیں ملتی، دلچسپ امر یہ کہ جن وزیر موصوف کو گزشتہ سال دوا ساز کمپنیوں سے سازباز کر کے قیمتوں میں اضافے کی غلط اجازت دینے کے الزام پر وزارت سے فارغ کیا گیا وہ آج کل تحریک انصاف کے مرکزی جنرل سیکرٹری ہیں اور وہ اضافہ کبھی واپس نہیں ہو سکا۔ تعلیمی اخراجات میں بھی سکولوں کی فیسوں اور دیگر اخراجات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، ایک حالیہ سروے کے مطابق فی بچہ کم از کم پانچ سو سے لے کر آٹھ ہزار روپے ماہانہ تک کا اضافہ ہوا ہے۔
مہنگائی کے اس طوفان پر ملک بھر میں ہر طبقے میں شدید پریشانی پائی جاتی ہے، پیپلزپارٹی نے مہنگائی کے خلاف آواز اٹھانا شروع کر دی ہے اور کچھ شہروں میں چھوٹے پیمانے پر مہنگائی کے خلاف احتجاج بھی کیا ہے جبکہ بلاول بھٹو زرداری اپنی ہر پریس ٹاک میں حکومت کی ان عوام دشمن پالیسیوں پر پورے زور و شور سے کڑی تنقید کرتے نظر آ رہے ہیں اور شنید ہے کہ وہ جلد ہی وسطی پنجاب کا دورہ کر کے مہنگائی کے خلاف بھرپور احتجاج کی کال دیں گے۔
شہباز شریف نے بھی آخر کار اس مسئلے پر اپنی چپ توڑی ہے اور مہنگائی پر لندن سے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔
اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتوں نے پہلے دن سے حکومت کو معاشی بحران سے نکالنے کے لئے اپنے غیر مشروط تعاون کا یقین دلایا تھا مگر یا تو عمران خان اس تعاون سے خائف ہیں یا پھر ان کی جھوٹی انا انہیں اپوزیشن کے ساتھ بیٹھ کر اس مسئلے کو حل کرنے سے باز کر رہی ہے، موجودہ معاشی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے توقع کی جانی چاہئے کہ حکومت فروعی اختلافات کو پس پشت ڈال کر اپوزیشن کے ساتھ مل کر اس مسئلے کا حل نکالے گی ورنہ حالات مزید خراب ہونے کے امکانات ہیں۔
No comments:
Post a Comment