پاکستان کے زیر اتنظام کشمیر میں قوم پرست جماعتوں کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان واقعی کشمیریوں سے یکجہتی دکھانا چاہتا ہے، تو اسے پہلے اپنے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان کو حقوق دینے چاہئیں۔
پاکستان اور اس کے زیر انتظام کشمیر میں پانچ فروری سرکاری سطح پر یوم یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے اور اس سلسلے میں بدھ کو بھی سیاسی اجتماعات منعقد کیے گئے۔
لیکن جموں کشمیر کی خودمختاری پر یقین رکھنے والی قوم پرست جماعتیں اس یوم یکجہتی کو شک کی نظر سے دیکھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی طرف سے 'یوم کشمیر' منانے سے کشمیریوں کی کوئی خدمت نہیں ہوتی بلکہ ان کی جدوجہد آزادی کو نقصان پہنچتا ہے۔
جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی کا کہنا ہے کہ بھارت کا پہلے ہی دعوی ہے کہ کشمیر کے عسکریت پسندوں کو پاکستان کی حمایت حاصل ہے۔
انہوں کہا کہ، "اس طرح کے پروگراموں کو بھارت پروپینگڈے کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ آج کے دن انہوں نے یاسین ملک اور کشمیری عسکریت پسندوں کی تصویریں ایک ساتھ لگا دی ہیں، جس سے جے کے ایل ایف کے ان کارکنان کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے، جو بھارتی مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ ہم نہ عسکریت پسندی میں یقین رکھتے ہیں اور نہ آزادی کے لیے مذہبی کارڈ استعمال کرنے کی حمایت کرتے ہیں۔ ہماری جدوجہد سیکولر ہے، جس کا حصہ مسلمان، ہندو، سکھ اور ہر طرح کا کشمیری ہو سکتا ہے۔"
توقیر گیلانی کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان واقعی کشمیریوں سے یکجہتی دکھانا چاہتا ہے، تو وہ اپنے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان کو آزادی دے۔ ہمیں اسلام آباد میں سفارت خانہ کھولنے دے اور ہمیں سفارتی لڑائی لڑنے دے۔ ہمیں صرف پاکستان کی اخلاقی اور سفارتی مدد چاہیے۔ اس اقدام سے بھارت پر بھی دباؤ بڑھے گا کہ وہ مقبوضہ کشمیر کو خالی کرے۔"
تاہم جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد کی صاحبزادی اور سابق ایم این راحیلہ قاضی قوم پرستوں کا کہنا ہے کہ، "میرے والد کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ انہوں نے یہ دن شروع کیا تھا۔ افغان جہاد کی کامیابی سے کشمیریوں میں بھی جذبہ حریت بیدار ہوا۔ انہوں نے دیکھا کہ جب ایک چھوٹی سے قوم سوویت یونین کو شکست دے سکتی ہے تو وہ بھی اپنی آزادی حاصل کر سکتے ہیں۔ ان کی جدوجہد کو بھارت نے بے دری سے کچلا، جسکی وجہ سے کچھ کشمیری نوجوانوں نے پاکستان میں پناہ لی اور جماعت اسلامی نے ان کی اخلاقی مدد کی اور آج بھی ہم یہ چاہتے ہیں کہ کشمیریوں کو حق خودارادیت ملے اور یوم یکجہتی کشمیر سے اس حق کی راہ ہموار ہوگی۔"
لیکن پاکستان کے زیر اتنظام کشمیر کی سیاسی جماعت جموں کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار احمد ایڈوکیٹ یوم یکجہتی کو 'فراڈ' قرار دیتے ہیں۔
"یہ یکجہتی کےنام پر سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ بھارت اور پاکستان دونوں کشمیریوں کے علاقوں پر قابض ہیں۔ اسلام آباد نے اقوام متحدہ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنی فوجیں کشمیر اور گلگت بلتستان سے نکالے گا۔ انہوں نے اپنی فوجیں آج تک نہیں نکالیں، یہ کیا کشمیریوں سے اظہا یکجہتی کریں گے۔"
ان کا کہنا ہے کہ یہ دن کشمیریوں کی سیکولر جدوجہد کو چھپانے کے لیے شروع کیا گیا تھا۔ "اسی کی دہائی میں نیشنل اسٹوڈینٹس فیڈریشن نے کشمیر کی خودمختاری کے لیے جدوجہد شروع کی تھی، جس سے کشمیریوں کو دنیا بھر میں پذیرائی مل رہی تھی۔ پھر جماعت اسلامی نے اس جدوجہد کو نقصان پہنچانے کے لیے اس دن کو منانا شروع کیا، جس کا مقصد کشمیریوں کو مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرنا تھا اور پورے کشمیر کو چھوڑ کر صرف وادی پر بات کرنا تھا۔ اس لیے ہم اس دن کو نہیں مانتے۔"
کشمیریوں دانشوروں کا خیال ہے کہ جب تک پاکستان کشمیری قوم پرستوں کے موقف کو مانتے ہوئے خود مختاری کی حمایت نہیں کرتا، کشمیری قوم پرست تنظیمیں کبھی بھی اسلام آباد کی حمایت نہیں کریں گی۔
اس کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ معروف کشمیری دانشور پروفیسر خلیق احمد کے مطابق، " پاکستان چاہتا ہے کہ کشمیر کا پاکستان سے الحاق کر دیا جائے لیکن کشمیری قوم پرست تنظیمیں نہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتی ہیں اور نہ بھارت کے ساتھ بلکہ وہ خود مختاری چاہتی ہیں۔"
No comments:
Post a Comment