نامور سماجی کارکن طاہرہ عبداللہ کہتی ہیں کہ پاکستان میں لڑکیوں کی ذہن سازی کر دی جاتی ہے کہ فیمینزم
ہماری تہذیب، مذہب اور مردوں کے خلاف ہے حالانکہ ایسا نہیں۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی سرگرم کارکن طاہرہ عبداللہ کا کہنا ہے پاکستان میں خواتین خود کو فیمینسٹ کہنے سے اس لیے ہچکچاتی ہیں کیونکہ یہاں فیمینزم کو ’گالی سمجھا جاتا ہے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ خصوصی گفتگو میں طاہرہ عبداللہ نے کہا پاکستان میں لڑکیوں کی ذہن سازی کر دی جاتی ہے کہ فیمینزم ہماری تہذیب، مذہب اور مردوں کے خلاف ہے، حالانکہ ایسا بالکل نہیں اور یہ بات لوگوں کو تب سمجھ میں آئے گی جب فیمینزم کے بارے میں ہمارے تدریسی نظام میں پڑھایا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا فیمینزم کی تحریک برسوں سے چلتی آ رہی ہے، بس وقت کے ساتھ اس کی شکل بدلتی رہتی ہے۔
نوجوانوں کی تعلیم کے حوالے سے انھوں نے کہا تعلیم ہر لڑکی اور لڑکے کا حق ہے لیکن یہ دیکھنا ضروری ہے کہ بچوں کو کس طرح کی تعلیم دی جا رہی ہے
طاہرہ نے بتایا کہ انھوں نے حال ہی میں ایک تحقیق مکمل کی ہے جس کے مطابق ملک میں پڑھائے جانے والے نصاب میں آج بھی کسی خاتون ہیرو کا ذکر نہیں جس کی وجہ سے نئی نسل کو ملکی تاریخ میں اہم کردار ادا کرنے والی خواتین کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔’حکومت بھی اکثر خواتین اور ان کی خدمات کو نظر انداز کرتی ہے۔‘
انھوں نے پی ٹی آئی حکومت پرتنقید کرتے ہوئے کہا کہ جب موجودہ حکومت نے 2018 میں معاشی مشاورتی کونسل بنائی تو اس کے اراکین کی فہرست میں ایک بھی خاتون شامل نہیں تھی۔ ’کیا انھیں پورے پاکستان میں ایک بھی عورت نہیں ملی جو معشیت میں ماہر ہو؟ کوئی ایک پی ایچ ڈی خاتون نہیں ملیں؟
’قانون ساز کمیٹیاں بناتے وقت خواتین کو برابری سے شامل نہیں کرتے اور جب شور مچتا ہے تو کوئی ایک عورت کو ٹوکن کے طور پر حصہ دار بنا لیتے ہیں لیکن ان کی نیت ان کی پہلی فہرست سے ہی پتہ چل جاتی ہے۔‘
طاہرہ نے مزید کہا کہ جب وہ نئی پود کو دیکھتی ہیں تو انھیں خوشی ہوتی ہے کہ وہ کتنی خود اعتماد اور پر جوش ہے اور اپنے طور سے خواتین کے
حقوق کے حوالے سے کوشش کر رہی ہے۔
No comments:
Post a Comment