میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف موٹرویز، میٹروز اور اورنج ٹرین منصوبوں کے شوقین ہیں۔
مخالفین الزام لگاتے ہیں کہ وہ اِن بڑے پروجیکٹس کی طرف اس لئے لپکتے ہیں کیونکہ ان میں بڑے پیمانے پر کمائی آسان ہوتی ہے جبکہ ان کا فلسفہ یہ ہے کہ انفراسٹرکچر کے بہتر ہو جانے سے معیشت مضبوط بنیادوں پر استوار ہوتی ہے اور آگے جاکر یہ معاشی سرگرمیوں میں اضافے، غربت کے خاتمے اور عام آدمی کا معیارِ زندگی بہتر بنانے کا موجب بنتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ(ن) کے دور میں تعلیم اور صحت پر براہِ راست خاص توجہ نہیں دی جاتی اور بےنظیر انکم سپورٹ جیسے غریبوں کو براہِ راست فائدہ پہنچانے والے پروگرام بھی بس بادلِ نخواستہ برداشت کئے جاتے ہیں۔ اِس کے برعکس عمران خان بڑے پروجیکٹس کے اِس قدر مخالف کہ کہا کرتے تھے کہ اگر پرویز خٹک نے میٹرو بس بنانے کی حماقت کی تو وہ انہیں جیل میں ڈال دیں گے لیکن اِس حوالے سے بھی عمران خان نے یوٹرن لیا اور اچانک خیبرپختونخوا میں بی آر ٹی منصوبہ شروع کرنے کا اعلان کردیا۔
میری معلومات کے مطابق بی آر ٹی کے لئے ٹھیکیدار کے ساتھ ابتدائی میٹنگز بنی گالہ میں ہی ہوئی تھیں۔
یہ دیکھ کر ہم جیسے طالب علم حیران رہ گئے کیونکہ لاہور اور پنڈی، اسلام آباد کی نسبت پشاور بہت چھوٹا شہر تھا۔ ایک جی ٹی روڈ پورے شہر کے درمیان میں گزرتی تھی جس پر بی آرٹی جیسے پروجیکٹ کی گنجائش نہیں تھی۔
لاہور میں شاید میٹرو بس کا متبادل موجود نہیں تھا لیکن پشاور میں رنگ روڈ کے تین حصے بن گئے ہیں اور ایک باقی ہے۔ چند ارب روپے سے وہ مکمل کرکے اور رنگ روڈ کو کشادہ کرکے ٹریفک کا مسئلہ دائمی طور پر حل کیا جا سکتا تھا لیکن پھر بھی الیکشن سے صرف چند ماہ قبل ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے قرضے سے بی آر ٹی پروجیکٹ کا آغاز کردیا گیا۔
ہم نے سوال اٹھایا کہ جناب آپ تو میٹروز کے خلاف تھے تو جواب ملا شہباز شریف کے میٹروز برے ہیں جبکہ ہمارا بی آر ٹی اچھا ہے۔
سوال اٹھایا کہ یہ چھوٹا سا صوبہ اتنے بڑے پروجیکٹ کا قرضہ کیسے چکائے گا تو جواب دیا گیا کہ یہ چند ہی برسوں میں اپنا خرچہ واپس کردے گا۔
سوال اٹھایا کہ فزیبلیٹی اور پی سی ون کے بغیر آپ لوگ اتنا بڑا پروجیکٹ کیوں شروع کررہے ہیں تو کہا کہ ہم نے باہر سے کنسلٹنٹس کی خدمات لی ہیں۔
ہم نے سوال اٹھایا کہ متعلقہ وزارت جماعت اسلامی کے پاس ہے جس کے وزیر عنایت اللّٰہ خان اس منصوبے کے مخالف ہیں تو کہا کہ جماعت اسلامی پرانی سوچ کی جماعت ہے۔
اس لئے ہم نے یہ منصوبہ اُن کی وزارت سے نکال کر وزارتِ ٹرانسپورٹ کو دے دیا جو پی ٹی آئی کے پاس ہے۔ ہم نے سوال اٹھایا کہ اگر مسلم لیگ(ن) کے بڑے پروجیکٹس میں بقول عمران خان کے کرپشن ہورہی تھی تو اس پروجیکٹ میں تو بڑے پیمانے کی کرپشن ہوئی ہوگی کیونکہ ضروری قانونی تقاضے بھی پورے نہیں کئے گئے تو جواب دیا گیا کہ اوپر عمران خان بیٹھا ہے جو اس پروجیکٹ کی خود نگرانی کررہا ہے۔
سوال اٹھایا کہ پروجیکٹ کا ٹھیکہ ایسی کمپنی کو دیا جارہا ہے جسے شہباز حکومت نے بلیک لسٹ کیا ہے تو جواب ملا کہ یہ پٹواریوں اور لفافہ صحافیوں کا پروپیگنڈا ہے۔
ہم کہا کرتے تھے کہ پختونخوا حکومت کو کپیسٹی کے مسئلے کا بھی سامنا ہے اور مشکل ہے کہ یہ منصوبہ ایک سال میں مکمل ہو تو کہا گیا کہ ہمارے پاس اعظم خان جیسے ذہین اور تیز افسر چیف سیکرٹری ہیں جو ناممکن کو ممکن بنا سکتے ہیں اور چھ ماہ کے اندر اندر بی آرٹی پر بسیں دوڑتی نظر آئیں گی۔
بہر حال بی آر ٹی کا دھوم دھام سے آغاز کیا گیا۔ سوشل میڈیا پر اتنی تشہیر پاکستان میں اب تک بننے والے تمام بڑے پروجیکٹس کی نہیں ہوئی، جتنی پی ٹی آئی نے صرف بی آر ٹی کی کر دی۔
راتوں رات ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک پشاور کے مین جی ٹی روڈ کو خندقوں میں بدل دیا گیا اور یوں پھولوں کا شہر گردوغبار کا شہر بن گیا۔ جی ٹی روڈ کے دونوں طرف دکانوں کا کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا۔
گھنٹوں ٹریفک جام معمول بن گیا۔ لیکن چھ ماہ گزرے، سال، پھر سوا سال گزر گیا اور اب دو سال پورے ہونے کو ہیں تاہم بی آر ٹی مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہی۔
سوا سال بزدار پلس (محمود خان) کی حکومت کو ہو گئے اور ان کی حکومت نے کئی تاریخیں دیں، صحافیوں کو لے کر لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے بس میں سیر بھی کروائی گئی، کئی پروجیکٹ ڈائریکٹر بھی بدل دئیے گئے لیکن بی آر ٹی مکمل ہوتی نظر نہ آئی۔
کسی غیرجانبدار ادارے کی تحقیقات کے بعد تو نہ جانے کیا انکشافات ہوں گے لیکن خود صوبائی حکومت کی انسپکشن ٹیم کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ اربوں روپے کے کک بیکس لئے گئے ہیں۔
اب پشاور ہائی کورٹ نے ایک درجن سے زائد سوالات اٹھا کر ایف آئی اے کو تحقیقات کا حکم دے دیا ہے لیکن دال میں اتنا زیادہ کالا ہے کہ صوبائی حکومت ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف سپریم کورٹ جاکر تحقیقات رکوانا چاہتی ہے۔ پشاور کے شہری کہتے ہیں کہ جیسا بھی ہو اب اس عذاب سے نجات مل جائے۔
پشاور کا جو حشر ہونا تھا وہ تو پی ٹی آئی کے ہاتھوں ہو گیا لیکن اب ہمیں فکر ہے کہ کہیں اس حکومت کے ہاتھوں باقی پاکستان کا وہ حشر نہ ہو جائے جو پشاور کا ہو گیا۔
یہاں بھی ہم سوال اٹھاتے رہے کہ اس پارٹی کی کوئی تیاری نہیں لیکن ہمیں کہا جاتا رہا کہ بہت ہوم ورک کیا ہے۔ تاہم اقتدار میں آنے کےبعد پتا چلا کہ اس پارٹی کے پاس اپنا وزیر خزانہ اور وزیر اطلاعات تک نہیں۔
پرویز مشرف اور پیپلز پارٹی کی ٹیم سے کام چلایا جارہا ہے۔ معیشت کا ستیاناس ہو گیا۔ خارجہ پالیسی کی سمت معلوم نہیں۔ کشمیر ہندوستان نے ہڑپ کرلیا، سی پیک پر کام آگے نہیں بڑھ رہا۔
بلوچستان کو جام میں ڈال دیا گیا ہے، پنجاب بزدار جبکہ پختونخوا بزدار پلس کے سپرد ہے۔ اور تو اور کرکٹر کی حکومت میں کرکٹ کا بھی ستیاناس ہوگیا۔
میرے منہ میں خاک لیکن سچی بات یہ ہے کہ ملکی معاملات سمجھنے والے سنجیدہ حلقے پریشان ہیں کہ کہیں پی ٹی آئی حکومت پورے پاکستان کو بی آر ٹی نہ بنا دے۔
No comments:
Post a Comment