سابق صدر پاکستان و ممبر قومی اسمبلی آصف علی زرداری نے بنا سزا کے گیارہ سال جیل کاٹی، اب بھی تقریباً 160 روز سے آصف علی زرداری صاحب نینشل اکاؤنٹیبلیٹی بیورو (نیب) کی تحویل یا جوڈیشل کسٹڈی میں ہیں۔ ابتدا میں آصف علی زرداری پر نیب نے 1400 ارب کی کرپشن اور جعلی بنک اکاؤنٹس کے الزامات لگائے، اب محض ڈیڑھ کروڑ کے الزامات کے تحت نیب کی تحقیقات کا سامنا کررہے ہیں، جس کا آج تک حتمی چالان بھی پیش نہیں کیا جاسکا ہے، تحقیقات کسی حتمی نتیجہ تک نہیں پہنچ سکی ہیں۔
نیب قانون سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف لائے، جس کا مقصد تھا کہ سیاست کو گندہ کیا جاسکے، اپنی مرضی کی جماعتیں بنائی جاسکیں، اپنے غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات کو آئینی تحفظ فراہم کرنے کے لئے انہے قوانین کو استعمال کیا جاسکے۔ موجودہ حکومت کے آتے ہی مختلف طریقوں سے نیب کو اسی طرح مخالفین کے خلاف آزمایا گیا، لیکن جب بات نہ بنی تو نیب کو دباؤ میں لایا گیا نیب میں بھرتیاں کی گئیں، اس کے باوجود بھی نیب وہ نتائج نہیں دے سکا جو چاہیے تھے۔
پھر اچانک ایک ویڈیو آئی اور وہ بھی ایک ایسے چینل نے آن ایئر کی گئی جس کا مالک اہم حکومتی عہدے پر تھا، بعدازاں اسے عہدے سے ہٹادیا گیا اور اس ویڈیو کی تحقیقات کا اعلان ہوا جو آج تک شروع نہیں ہوسکی۔ موجودہ حکومت بھی نیب قوانین میں ترامیم کرنا چاہتی تھیں، جس کے بارے وفاقی وزیر قانون کئی مرتبہ اعلان کرچکے لیکن دیکھنے میں آیا کہ ایسا آرڈیننس لایا گیا جس کا مقصد صرف مخالف سیاستدانوں کو تکالیف پہنچائی جاسکیں۔
اس ترمیم کے مطابق اگر کسی مخالف پر پانچ کروڑ یا زائد کی کرپشن کا محض الزام بھی لگادے تو اسے جیل میں سی کلاس دیا جائے گا، چاہے وہ محض الزام ہی رہے اور کبھی بھی ثابت نہ ہو، لیکن اسے جیل میں سی کلاس کی ہوا کھانی پڑے گی۔ اس کے علاوہ موجودہ حکومت نے مخالف سیاستدانوں کے خلاف کئی ایسے کیسز بنائے جس کی وجہ سے انہیں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ پیپلزپارٹی کے ممبر قومی اسمبلی خورشید احمد شاہ کے خلاف 500 ارب کی کرپشن کا الزام لگایا گیا لیکن چالان صرف ایک پلاٹ کا پیش کیا گیا
شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل، خواجہ سعد رفیق، حمزہ شہباز و دیگر جیلوں میں قید ہیں یا پھر نیب حوالات میں قید ہیں۔ تقریباً ساڑھے چھ ماہ سے آصف علی زرداری اور تقریباً 6 مہینے سے آصف علی زرداری کی بہن منتخب ممبر صوبائی اسمبلی سندھ محترمہ فریال تالپور نیب تحویل یا جوڈیشل کسٹڈی میں ہیں۔
ابھی تک آصف علی زرداری کے خلاف تحقیقات ابتدائی مراحل میں ہیں، ان پر آج تک کوئی الزام ثابت نہیں ہوسکا ہے، حالانکہ آصف علی زرداری گیارہ سال بنا سزا کے جیل کاٹ چکے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ کا شاید یہ پہلا کیس ہے جس کا وقوع پذیر ایک صوبہ ہے گواہان کا تعلق اسے صوبہ سے ہے لیکن کیس دوسرے صوبے میں چل رہا ہے، نامزد ملزم دوسرے صوبے میں جیل کاٹ رہا، حالانکہ وہ کہیں بھاگ نہیں رہا ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل ہے اور نہ ہی کسی حکومتی اعلیٰ عہدے پر فائز ہے کہ وہ کسی ریکارڈ میں ردوبدل کرسکے۔
اس وقت آصف علی زرداری کی صحت بارے حکومتی ڈاکٹرز بھی کافی تشویش کا اظہار کرچکے ہیں، لیکن حکومت کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ سابق صدر کو ذیابیطس کے بچاؤ کی ویکسین کے لئے ایک فرج تک کی سہولت نہیں دی گئیں۔ نیب کے مطابق گرفتاری کے 6 ماہ بعد بھی الزامات پر ابھی تک تحقیقات ہورہی ہیں۔
حکومتی ڈاکٹروں کے مطابق آصف علی زرداری کی صحت کافی تشویشناک ہے، حکومت چاہتی ہے کہ آصف علی زرداری ان سے ضمانت کی درخواست کریں لیکن آصف علی زرداری اپنے بچوں، پارٹی رہنماؤں اور وکلاء کے بار بار اصرار کے باوجود ضمانت کی درخواست پر دستخط نہیں کررہے ہیں، وہ چاہتے ہیں حکومت اپنا شوق پورا کرے، جتنا انتقام لینا چاہتی ہے انتقام لے، وہ حکومت، نیب و دیگر اداروں سے ضمانت کی درخواست ہرگز نہیں کریں گے
No comments:
Post a Comment