وزیر اعظم صاحب کی صحافی حضرات سے ملاقات ہوئی۔ وہاں انہوں نے بتایا کہ ان کا کوئی اختیار نہیں ہے کہ نواز شریف کو گھر جانے دیں یا ان کی بیٹی کو ان سے ملنے دیں۔ لیکن اسی شام خبر آئی کہ وزیر اعظم نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو فون کر کے کہا ہے کہ مریم نواز کو ان کے والد سے ملنے دیا جائے۔
تحریکِ انصاف کے فیسبک گروپس میں جا کر دیکھ لیں، یا ان کے حامیوں سے بات کر کے دیکھ لیں، ان کا یہی کہنا ہے کہ نواز شریف ڈیل کر کے پاکستان سے جا رہا ہے۔ ساتھ وہ اس بات پر بھی کامل یقین رکھتے ہیں کہ عمران خان این آر او نہیں دے گا، یعنی یہ ڈیل عمران خان سے نہیں، کسی اور سے ہو رہی ہے۔
کچھ جو ذرا زیادہ ہی ’باخبر‘ ہیں، وہ آج کل دعوے کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ کسی ’انتہائی اہم شخصیت‘ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کرنی تھی جس کے لئے یہ بیماری کا ڈرامہ رچایا گیا اور ان کو اسپتال منتقل کیا گیا کیونکہ اس ’انتہائی اہم شخصیت‘ کو نیب کے دفتر میں نواز شریف سے ملاقات کرنا نامنظور تھا۔
ہمیشہ سچ لکھنے والے اور سچ کے سوا کچھ نہ لکھنے والے باخبر صحافی صالح ظافر نے جنگ اخبار میں یہ رپورٹ دی ہے کہ آرمی چیف جنرل باجوہ کی مولانا فضل الرحمان سے ملاقات ہوئی ہے جس میں جنرل صاحب نے مولانا کو واضح الفاظ میں بتا دیا ہے کہ عمران خان جمہوری طور پر منتخب وزیر اعظم ہیں اور کسی صورت ان کی حکومت نہیں ہٹائی جائے گی۔
اس سے کچھ دن پہلے باجوہ صاحب ہی نے ایک ملاقات میں کاروباری حضرات کو بھی ڈانٹ پلائی اور ان کو بتایا کہ وہ بالکل کسی ایسی تحریک کا حصہ بننے کی کوشش نہ کریں کہ بعد میں پچھتانا پڑے۔ انہوں نے یہاں بھی اپنے عمران خان کے پیچھے کھڑے رہنے کے عزم کو دہرایا۔ اس سے پہلے اسد عمر کو کس طرح وزیرِ خزانہ کے عہدے سے ہٹایا گیا، یہ بھی ہم سب کو یاد ہے۔
تو عمران خان صاحب کیا کر رہے ہیں؟ معیشت میں ان کا بندا ہٹا کر کسی اور کو لگا دیا گیا ہے۔ کاروباری طبقے سے معاملات آرمی چیف طے کر رہے ہیں۔ مولانا کو ڈانٹ ڈپٹ کرنے کا فریضہ بھی وہی انجام دے رہے ہیں۔ نواز شریف سے معاملات بھی ’انتہائی اہم شخصیت‘ ہی کر رہی ہے۔ تو پھر اس آزاد منش شخص کو جو کسی کی نہیں سنتا، اور سن بھی لے تو کرتا ہمیشہ اپنی ہے، جس کو نیچا نہیں بٹھایا جا سکتا، جس کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا، کیوں یوں ہاتھ پاؤں باندھ کے بٹھایا ہوا ہے؟
آپ نے جو کرنا ہے کرو۔ بس ہمارے بہادر، نڈر کپتان کو جانے دو۔ عمران خان کو رہا کرو۔
No comments:
Post a Comment