Tuesday, October 22, 2019

پی ایم ڈی سی تحلیل: ’حکومت نوکریاں دینے آئی تھی یا لینے؟‘



ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ پی ایم ڈی سی جیسے بڑے ادارے کو ڈاکٹروں کے بجائے وزیر اعظم کے حوالے کر دیا گیا ہے اور اب ڈاکٹروں کی جگہ صرف وز یراعظم اپنے من پسند ممبران نامزد کریں گے۔

حکومت نے بیس اکتوبر کو صدارتی آرڈیننس کے ذریعے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی حیثیت ختم کرتے ہوئے پاکستان میڈیکل کمیشن بنانے کا آرڈیننس جاری کیا جس کے بعد سے پی ایم ڈی سی کے تین سو سے زائد ملازمین اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ڈاکٹرز اور پی ایم ڈی سی ملازمین حکومت کے اس اقدام کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔
اس حوالے سے فزیشنز اور سرجن ایسوسی ایشن نے اپنے بیان میں تخفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پی ایم ڈی سی کے بارے میں حکومت کی طرف سے نئے آرڈیننس لاگو کرنے کی پْر زور الفاظ میں مذمت کر کے اسے مسترد کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نوکریاں دینے آئی تھی یا نوکریاں واپس لینے؟
پی ایم ڈی سی کا قیام اور فرائض؟
نامہ نگار مونا خان کے مطابق پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل آفیشل ریگولیٹری اتھارٹی تھی جس کے پاس میڈیکل اور ڈینٹل ڈگری کے سرٹیفیکیٹ جاری کرنے کا اختیار تھا۔ قیام پاکستان کے بعد ہر صوبے کا اپنا میڈیکل کونسل تھا لیکن 1962 میں صوبائی میڈیکل کونسلوں کو ختم کر کے ایک ہی مرکزی ادارہ بنا دیا گیا۔
کونسل میڈیکل اور ڈینٹل شعبے سے وابستہ تمام معاملات کی ذمہ دار تھی اور کلئیرنس سرٹیفیکیٹس اور تجرباتی سرٹیفیکیٹ جاری کرنے کی مجاز تھی۔ اس کے علاوہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ڈاکٹرز کو بیرون ملک نوکری کرنے سے پہلے پی ایم ڈی سی سے میڈیکل کلئیرنس لیٹر جاری کیے جاتے تھے۔
 پاکستان میڈیکل کمیشن
صدارتی آرڈیننس کے مطابق پاکستان میڈیکل کمیشن کے نام سے نیا ادارہ قائم کیا جائے گا۔ پاکستان میڈیکل کمیشن نو افراد پر مشتمل ہوگا جبکہ کمیشن کا سربراہ صدر کہلائے گا۔
کمیشن میں تین ممبران کا تعلق سول سوسائٹی سے ہوگا، تین ممبران کا تعلق میڈیکل شعبے سے ہوگا اور ایک ممبر کا تعلق ڈینٹل کے شعبے سے ہوگا۔ آرڈیننس کے مطابق ڈینٹل اور میڈیکل سے تعلق رکھنے والے ممبران کے لیے 20 سال کا تجربہ ہونا لازمی ہو گا۔
آرمڈ فورسز میڈیکل سروس کا سرجن جنرل بھی کمیشن کا ممبر ہوگا۔ اس کے علاوہ صدر کالج آف فزیشن اینڈ سرجنز آف پاکستان بھی ممبران میں شامل ہوگا۔ اس کمیشن کی مدت تین سالہ ہوگی اور یہ ایک کارپوریٹ ادارہ ہوگا جو میڈیکل ایںڈ ڈینٹل کونسل، نیشنل میڈیکل ایںڈ ڈینٹل اکیڈمک بورڈ، نیشنل میڈیکل اتھارٹی پر مشتمل ہوگا۔ نیشنل میڈیکل اتھارٹی کمیشن کے سیکریٹریٹ کے طور پر کام کرے گا۔
نئے قانون کے تحت لائسنس کی تجدید سمیت تمام اختیارات کمیشن کو دے دیے گئے ہیں اور پی ایم ڈی سی کا تمام ریکارڈ بشمول اکاؤنٹس کمیشن کو منتقل کر دیا گیا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے جب متعدد ڈاکٹرز سے رابطہ کیا تو بتایا گیا کہ اس نئے آرڈیننس کے تحت کسی ڈاکٹر کے خلاف کارروائی کرنے کے فیصلے کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا بلکہ تین افراد پر مشتمل ایک میڈیکل ٹربیونل اس کی اپیل سنے گا اور فیصلہ سنائے گا۔
یہ بھی بتایا گیا کہ میڈیکل یونیورسٹیوں کے ڈگری ہولڈرز (ایم ڈی، ایم ایس، ایم ڈی ایس، ڈپلوماز، ایم فل، پی ایچ ڈی) کو مکمل طور پر نظر انداز کر کے ایک مخصوص پرائیویٹ ادارے سی پی ایس پی اور اس کے ڈگری ہولڈرز (ایف سی پی ایس) کو بلا شرکتِ غیرے پی ایم ڈی سی کے اختیارات سونپ دیے گئے۔
پی ایم ڈی سی تحلیل ہونے کے بعد بیرون ملک مقیم ڈاکٹرز کا مستقبل بھی داؤ پر لگ گیا۔ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے ڈاکٹر فضل ربی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کل جب پی ایم ڈی سی ہی نہیں رہا تو جو سرٹیفیکیٹ جاری کیے گئے تھے تو کیا 190ممالک میں پی ایم سی دوبارہ سرٹیفیکیٹ بھیجے گا؟
پی ایم ڈی سی کے سینیئر افسر سعید مسعود نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انگلینڈ یا کسی بھی ملک میں جو پاکستانی ڈاکٹرز جاتا ہے تو اُس کو کہا جاتا ہے کہ اپنی تصدیق شدہ اتھارٹی سے گڈ سٹینڈنگ سرٹیفیکیٹ لے کر آئیں۔ گڈ سٹینڈنگ سرٹیفیکیٹ میں لکھا جاتا ہے کہ اس ڈاکٹر سے کبھی کوئی میڈیکل کوتاہی نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ سٹاف تو کہیں بھی نوکری کر لیں گے لیکن جن کے سرٹیفیکیٹ جا چکے ہیں اُن کے لیے بھی مسئلہ ہے کہ کیا اب وہ دوبارہ پاکستان میڈیکل کمیشن سے سرٹیفیکیٹ لیں گے؟
ان کا کہنا تھا کہ جمعہ کو تقریباً 200 کے قریب بیرون ملک مقیم پاکستانی ڈاکٹرز جنہوں نے وہاں ملازمت کرنی ہے گڈ سٹینڈنگ سرٹیفیکیٹ کے لیے اپلائی کیا۔ اُن کو پیر کے دن سرٹیفیکیٹ بجھوانے تھے کیونکہ انہوں نے اپنے اداروں میں جمع کروانے ہیں لیکن اتوار سے پی ایم ڈی سی سیل ہے تو اُن کو سرٹیفیکیٹ بھی جاری نہیں کیے جا سکتے۔
’اگر 15 دن تک انہیں سرٹیفیکیٹ نہ ملے تو اُن کی نئی نوکریاں داؤ پہ لگ جائیں گی۔‘ انہوں نے سوال اُٹھاتے ہوئے کہا کہ اب اس ساری صورتحال کا ذمہ دار کون ہے؟
ڈاکٹر ذاکر جمال نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پہلے انٹری ٹیسٹ کے بعد سے پانچ سالوں میں پانچ امتحانات ہوتے تھے اس کے بعد پرویژنل میڈیکل سرٹیفیکیٹ مل جاتا تھا اور ڈاکٹر ہاؤس جاب کا اہل ہوتا تھا۔ اب انہوں نے یہ کر دیا ہے کہ پانچ امتحانات دینے کے بعد ہاؤس جاب کے لیے چھ ماہ بعد دوبارہ امتحان دینا پڑے گا اور ہاؤس جاب کے بعد ایگزٹ امتحان دینا پڑے گا۔
’تو کیا حکومت کو اپنے ہی تعلیمی اداروں کے معیار پہ اعتماد نہیں؟ اس سے ڈاکٹرز کا وقت مزید ضائع کیا جائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ بیرون ملک سے جو ڈاکٹرز ڈگری کر کے پاکستان آتے ہیں اُن کو پی ایم ڈی سی کا ٹیسٹ دینا ہوتا تھا۔ 24 اکتوبر کو فارن گریجویٹ کے لیے فارم جمع کروانے کی آخری تاریخ تھی لیکن اب پی ایم ڈی سی نہیں اور پی ایم سی کا وجود سامنے ہے ہی نہیں تو فارن گریجویٹ کہاں جائیں گے؟ اُن کے ضائع ہونے والے وقت کا مداوا کون کرے گا؟
آرڈینینس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میڈیکل کمیشن میں نئی بھرتیاں کی جائیں گی لیکن پی ایم ڈی سی سے بھی سٹاف کو وہاں نوکری کے لیے ترجیح دی جائے گی لیکن پی ایم ڈی سی ملازمین کا کہنا ہے کہ انہیں اس حوالے سے بالکل اعتماد میں نہیں لیا گیا اور نہ ہی کوئی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔
ڈاکٹرز کے یہ بھی تخفظات ہیں کہ نئے صدارتی آرڈیننس کے بعد میڈیکل کالج کو فیس بڑھانے کی اور سٹاف بڑھانے کی چھوٹ مل جائے گی اس سے پہلے پی ایم ڈی سی نے پرائیویٹ کالجز کو کنٹرول کر رکھا تھا۔ کیا ملک میں موجود 150 پرائیویٹ میڈیکل کالجز کو کمیشن کنٹرول کر سکے گا؟
پی ایم ڈی سی ملازمین اور ڈاکٹرز نے صدارتی آرڈینینس کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ کچھ ڈاکٹرز نے کہا کہ یہ اقربا پروری ہے۔ پی ایم ڈی سی جیسے بڑے ادارے کو ڈاکٹروں کے بجائے وزیر اعظم کے حوالے کر دیا گیا ہے اور اب ڈاکٹروں کی جگہ صرف وز یراعظم اپنے من پسند ممبران نامزد کریں گے۔
 ان تمام تخفظات پر جب انڈپینڈنٹ نے حکومتی موقف لینے کی کوشش کی تو وزیراعظم کے مشیر برائے صحت ظفر مرزا سے رابطہ نہیں ہو سکا۔

No comments: