Friday, September 27, 2019

قبائلی طلبہ کلاسوں میں کھڑے ہو کر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور



اول تو قبائلی طلبہ کو آسانی سے داخلہ نہیں ملتا، مل بھی جائے تو پھر کلاسوں میں بیٹھنے کو جگہ نہیں، بورڈ دکھائی نہیں دیتا اور اکثر اوقات کلاس کے دروازے پر کھڑے ہو کر سبق سننا پڑتا ہے۔



ارسطو نے کہا تھا جاہل عالم کو نہیں جانتا کیونکہ وہ کبھی عالم نہیں رہا جبکہ عالم جاہل کو جانتا ہے کیونکہ وہ خود جاہل رہ چکا ہے۔ درحقیقت علم سے دوری خدا شناسی سے ہی نہیں خود شناسائی سے بھی محرومی ہے۔
سابق قبائلی علاقوں میں جب تک امن تھا اس وقت تک یہاں مجموعی طور پر چھ ہزار تعلیمی اداروں میں چھ لاکھ کے قریب طلبہ تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ تاہم ان علاقوں میں دہشت گردی نے تعلیمی سرگرمیوں کو شدید متاثر کیا۔
افسوس کی بات ہے1947 سے لے کر عسکری آپریشن کے بعد تک سابق فاٹا کو بنیادی ضروریات زندگی سے محروم رکھا گیا۔ سادہ سی بات ہے اگر جدید دورکے تقاضوں سے کسی بھی علاقے کو نابلد رکھا جائے گا تو وہاں اسی قسم کی پیچیدہ صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔ قبائلی علاقوں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا اور ہو رہا ہے۔
گیارہ لاکھ سے زائد آبادی والے ضلع باجوڑ میں تین لڑکوں کے کالج، گورنمنٹ ڈگری کالج خار، گورنمنٹ ڈگری کالج برخلوزو اور گورنمنٹ ڈگری کالج ہیں۔ نجی شعبے میں صرف ایک کالج تدریسی عمل جاری رکھے ہوا ہے۔
چند سال قبل اس وقت کے خیبرپختونخوا کے گورنر مہتاب عباسی نے دورے کے موقع پر تحصیل برنگ اور تحصیل سلارزئی کے لیے کالج کے قیام کی منظوری دی تھی، لیکن تاحال ان کالجز کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا، جس کے باعث ہر سال تینوں کالجز کو کوٹے سے زیادہ بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔
اس حوالے سے گورنمنٹ ڈگری کالج برخلوزو کے انگلش لیکچرر لیاقت علی کہتے ہیں بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے کالج (گورنمنٹ ڈگری کالج برخلوزو) کے ساتھ تقریباً ملحق 10 سے 12 سکول ہیں جن سے فارغ ہونے والے طلبہ اس کالج کا رُخ کرتے ہیں۔
اگر اوسطاً ہر سکول سے 70، 70طلبہ بھی فارغ ہو کر کالج میں داخلے کے لیے آئیں پھر بھی ہمارے پاس نشستیں صرف سو، ڈیڑھ سو ہوتی ہیں جبکہ امیدواروں کی تعداد سات، آٹھ سو سے زیادہ۔
ان کالجز میں سنگل سبجیکٹ ٹیچر کا طریقہ کار رائج ہے، مثلاً انگلش کی کلاس میں آرٹس، سائنس، انجنیئرنگ تقریباً سب ہی شعبوں کے طلبہ شریک ہوتے ہیں پھر کلاس میں کچھ طلبہ کو بیٹھنے تک کی جگہ نہیں ملتی اور کچھ طلبہ کو استاد کی آواز بھی نہیں سنائی دیتی۔
لیاقت علی مزید کہتے ہیں اس کے لیے سیکنڈ شفٹ کلاسز کا اجرا، سٹاف کی کمی ختم کرنا اور اگر ممکن ہوسکے تو کالج کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کوئی نجی عمارت کرایے پر لی جائے جیسا کہ چند سال قبل سابق پولیٹیکل ایجنٹ عامر خٹک نے کیا تھا۔
اس سے بدتر صورت حال خار اور زوربندر کالجز کی ہے۔ ان کالجز میں بھی طلبہ کو کلاسوں میں بیٹھنے کی جگہ نہیں ملتی۔ کثرت کے باعث پیچھے بیٹھنے والے طلبہ کو سبق تک سنائی نہیں دیتا۔
باجوڑ کے کالجز میں طلبہ کو درپیش مسائل کے بارے میں باجوڑ کے معروف ماہر تعلیم اور گورنمنٹ کامرس کالج خار کے پرنسپل نے اعتراف کیا کہ سیاسی دباؤ اور چند دیگر وجوہات کے بنا پر ہزاروں طلبہ کو داخلہ دینا پڑتا ہے۔
’مقررہ نشستوں سے زائد طلبہ کے داخلوں کے باعث جو حق دار ہوتے ہیں انہیں بھی کلاس میں بیٹھنے اور صحیح طریقے سے سبق سنائی نہیں دیتا۔‘
دسمبر 2018 کی ایجوکیشن مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم رپورٹ کے مطابق سابق فاٹا کی سات ایجنسیوں اور چھ نیم قبائلی علاقوں میں 73 فیصد طلبا ہیں، جن میں 69 فیصد لڑکے اور 79 فیصد لڑکیاں کلاس پنجم تک سکول چھوڑ دیتے ہیں۔
مڈل اور سیکنڈری سکول لیول پر مزید 50 فیصد لڑکیاں تعلیم ادھوری چھوڑ 
کر گھر بیٹھ جانے کو ترجیح دیتی ہیں۔
قبائلی علاقوں میں اساتذہ کی صورت حال بھی تسلی بخش نہیں۔ سکولوں میں 20 ہزار ٹیچرز موجود تھے جن کی تعداد2017-18 تک کم ہو کر ساڑھے اٹھارہ ہزار رہ گئی ہے۔ ان درس گاہوں میں 5000 آسامیاں خالی ہیں جن میں ٹیچرز کے علاوہ دیگرعملہ بھی شامل ہے۔ ای ایم آئی ایس رپورٹ کے مطابق قبائلی علاقوں میں تعلیم نسواں کی شرح بھی محض تین فیصد ہے۔
مزید یہ کہ کے پی حکومت نے پرائمری سطح پر تمام کتب کو انگریزی زبان میں منتقل کر دیا ہے۔
ای ایم آئی ایس کی تحقیق میں یہ وضاحت سے بتایا گیا کہ قبائلی علاقوں کے ٹیچرز کسی طور پر ایسی قابلیت کے حامل نہیں کہ وہ انگریزی زبان میں تبدیل ہو جانے والا نصاب طلبہ کو باآسانی پڑھانے کی ذمہ داری ادا کرسکیں۔
قبائلی اضلاع میں اب بھی 1940 کے حالات کے مطابق 100 طلبہ کو دو ٹیچرز، دو کمروں میں تعلیم دے رہے ہیں جو کسی طور پر جدید تدریسی اصولوں کے مطابق نہیں۔
کے پی میں ضم شدہ قبائلی اضلاع میں دہشت گری کے لہر میں 1500 سے زائد تعلیمی اداروں کو مکمل یا جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے جو تعلیمی سرگرمیوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا۔
اب اگر ایسی صورت حال سے کچھ طلبہ سیکنڈری لیول سے آگے بڑھ کر کالجز میں داخلوں کے لیے آتے ہیں اور وہاں اول تو انہیں داخلہ آسانی سے نہیں ملتا، خدا خدا کر کے مل بھی جائے تو پھر انہیں کلاسوں میں بیٹھنے کو جگہ نہیں ملتی، بورڈ دکھائی نہیں دیتا اور اکثر اوقات جگہ نہ ملنے کے باعث کلاس کے دروازے پر کھڑے ہو کر سبق سننا پڑتا ہے۔
قبائلی اضلاع میں جب علم کی روشنی پھیلے گی تو مذہبی، سیاسی ولسانی شرپسندی ختم ہونے کے امکانات روشن ہوں گے۔ امید کی جانی چاہیے کہ مستقبل قریب میں حکومت قبائلی اضلاع میں جہاں مزید کالجز کا قیام عمل میں لائے گی وہیں پہلے سے موجود سرکاری سکولوں اور کالجز میں سٹاف کے علاوہ بنیادی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے بھی ٹھوس اقدمات کرے گی۔

No comments: