بختاور بھٹو نے ایک مقامی انگریزی روزنامے میں اپنے مضمون میں کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کا مقصد ان کے والد کو جسمانی اور نفسیاتی طور پر توڑنا ہے۔
سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کی بیٹی بختاور بھٹو زرداری نے الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان کی ’فسطائی حکومت‘ ان کے والد آصف علی زرداری کی جان کے درپے ہے۔
جمعے کو پاکستان کے قومی انگریزی اخبار میں چھپنے والے ایک مضمون میں بختاور کا کہنا تھا کہ آصف علی زرداری کی صحت خراب ہونے کی تمام رپورٹس کے باوجود عدالت نے ان کو اگست میں اڈیالہ جیل بھیج دیا، جہاں وہ اب بھی قید ہیں۔
بختاور نے لکھا: ’ان کے خاندان اور وکیل کو ان سے ملنے کی اجازت نہیں جو ان کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ آصف علی زرداری ایک سابق صدر اور ملک کے قانون کا احترام کرنے والے شہری ہیں۔ مقدمے کی سماعت سے پہلے ان کے ساتھ یہ رویہ نہ صرف ناجائز ہے بلکہ مجرمانہ غفلت بھی ہے، جس کا مقصد ان کو نقصان پہنچانا ہے۔
سابق صدر جعلی بینک اکاؤنٹ کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں 16اگست سے اڈیالہ جیل میں جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں۔
بختاور کے مطابق: ’پی ٹی آئی حکومت میں وزیر داخلہ وہی ہیں جو پرویز مشرف کے دور میں اہم سکیورٹی عہدوں پر فائز تھے اور جو خود میری والدہ کے قتل کے مقدمے میں نامزد ہیں۔ان کو اب زرداری کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کی نگرانی کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے۔‘
جمہوری نظام
بختاور کا کہنا تھا بینظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد ان کے والد نے خود کو ایک ٹوٹے ہوئے ملک میں پایا۔ انہیں افسردہ قوم کو دلاسہ دینا تھا اور ایک زخمی اور دکھی پارٹی کو جوڑنا تھا اور انہوں نے ’پاکستان کھپے‘ کا نعرہ بلند کیا اور بینظیر بھٹو کے ’جئے بھٹو‘ کے نعرے سے سربراہی کا راستہ اپنایا۔
’یہ آصف علی زرداری کا عزم تھا کہ وہ سیاسی مسائل، قدرتی آفات اور دہشت گردی کی خطرات کے باوجود آگے بڑھے اور کسی خون خرابے، مواخذے اور اندرونی بدامنی کے بغیر ملٹری ڈکٹیٹر پرویز مشرف کو ہٹا کر جمہوریت واپس لائے، جوان کی اہلیہ کا ویژن تھا اور جس کے لیے انہوں نے اپنی جان دی۔ ‘
بختاور نے کہا زرداری کے دور میں بڑی کامیابیاں حاصل ہوئیں ، جیسے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام جس سےکم آمدنی والے گھرانوں کی خواتین کو فائدہ ہوا، اور اٹھارویں ترمیم جس سے فنڈز اور اختیارات صوبوں کو دیے گئے۔
بختاور نے کہا زرداری کی سربراہی میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک منتخب حکومت نے اپنی مدت پوری کی، لیکن پھر 2018 کے انتخابات میں پاکستان میں وہی پرانے مسائل آنا شروع ہوئے۔
انہوں نے لکھا عمران خان نے ملک کے رہنماؤں کے خلاف مہم شروع کی اور حزب اختلاف کے لیڈروں پر بیرون ملک پیسے رکھنے کے الزامات لگائے، عمران خان نے ’پالیسی کی نہیں بلکہ ذاتیات کی سیاست کی، عوامی جلسوں میں لیڈروں کے خلاف باتیں کیں، عوام کو اکسایا اور مذہبی تعصب کی آگ کو ہوا دی۔‘
بختاور نے مزید کہا 2018 کے انتخابات سے پہلے زرداری پر کرپشن کے الزامات کا شور میڈیا میں مچ گیا، ان الزامات کا وقت ویسا ہی تھا جیسے امریکی الیکشن میں ہیلری کلنٹن کی ای میلز کا ۔
بختاور نے لکھا: ’سات جون 2018 کو کچھ نجی بینکوں کی ٹرانسیکشن پر ایف آئی اے نے مقدمہ درج کیا، اس میں تفتیشی افسر نجف مرزا وہی تھے جنہوں نے زرداری کی گذشتہ حراست میں ان پر جسمانی تشدد میں کردار ادا کیا اور جن پر ایف آئی آر بھی درج ہے۔ یہ پہلے سے ہی واضع ہوگیا تھا کہ معاملہ ذاتی ہے ‘۔
انہوں نے مزید کہا کچھ ہی ہفتوں میں صدر زرداری کے خلاف کیس کو اچانک بینکنگ کورٹ سے نکال کر ملک کے سب سےاعلیٰ کورٹ میں پہنچا دیا گیا،اس سب کے باوجود زرداری سندھ سے الیکشن جیت کر ایم این اے بنے۔
انہوں نے مزید کہا جس دن قومی اسمبلی وزیراعظم کے لیے ووٹ کرنے کے لیے جمع ہوئی ،اسی دن زرداری کی گرفتاری کے وارنٹ آگئے اور پارلیمان میں ووٹ دینے کے بجائے ان کو ضمانت کے لیے عدالت جانا پڑا۔
انہوں نے کہا پی ٹی آئی کے وزرا اُ س وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار سے کئی بار ملے اور جہاں حکومت نے ڈیم فنڈ میں عطیات کے لیے ان کی مہم کی حمایت کی، وہیں چیف جسٹس نے بینکوں کی ٹرانزیکشن کیس میں جے آئی ٹی بنا دی جس میں حساس اداروں کے اہلکار بھی شامل تھے۔
مضمون میں لکھا ہے: ’صاف ظاہر ہے یہ دہشت گردی کی فنڈنگ یا قومی سلامتی کا معاملہ نہیں تھا۔ یہ بس پروپیگینڈااور بد نظمی تھی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ جنوری میں سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کی تحقیقات کے نتائج کو نیب راولپنڈی میں بھیج دیا اور اسے تحقیقات سنبھالنے کا حکم دیا۔
بختاور کے بقول: ’یہ بالکل ناجائز ہے کیونکہ نہ صرف یہ عدالتی اختیار صوبوں کے درمیان متنازع ہے بلکہ نیب خود ایک متنازع ادارہ ہے، جسے ایک ڈکٹیٹر نے بنایا اور جسے سیاست دانوں کو دباؤ میں ڈالنے اور منتخب حکومتوں کو ہٹانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔‘
جون تک زرداری نیب اور جے آئی ٹی کے بلانے پر جاتے رہے مگر پھر انہیں گرفتار کر لیا گیا اور 10 جون کو نیب کی جیل میں ڈال دیا گیا۔
بختاور نے کہا: ’ان کا طبی معائنہ کروایا گیا جس میں ان کی دل کی بیماری اور خون میں شوگر کی سطح زیادہ ہونے کی تصدیق ہوئی، اس سب کے باوجود انہیں عدالت نے اڈیالہ جیل بھیج دیا اور ان کے اہل خانہ اور وکیل کو ان سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔‘
’میں دوبارہ کہوں گی کہ وہ ایک سابق صدر ہیں کوئی دہشت گرد یا ملک دشمن نہیں، اب تک ان پر کوئی الزامات قانونی طور پر عائد نہیں کیے گئے، ریفرنسز کی تفتیش ہونا ابھی باقی ہے اور عدالت میں سماعت بھی۔‘
’صدر زرداری نے کبھی تحقیقات سے منع نہیں کیا۔ درحقیقت وہ پاکستان کے سب سے زیادہ مقدموں، تفتیش اور قانونی کارروائیوں کا سامنا کرنے والے شخص ہیں لیکن انہیں اب تک ایک بار بھی سزا نہیں سنائی گئی۔ 11 سال جھوٹے کیسوں میں جیل میں گزارنے کے بعد وہ اب پھر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں بھیج دیے گئے ہیں، وہ شہر جہاں میری والدہ کو 2007 میں قتل کر دیا گیا۔ ‘
بختاور کا کہنا تھا: ’ان کا جرم بس یہی ہے کہ انہوں نے پاکستان میں جمہوریت کو کامیاب ہوتے دیکھنے کا میری والدہ اور نانا کا خواب پورا کیا، اب مقصد یہ ہے کہ ان کو توڑ دیا جائے، جسمانی اور نفسیاتی طور پر کیونکہ وہ اس وقت کی طاقتوں کے احکامات کو نہیں مان رہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’پنجاب میں ان کے گورنر کو قتل کر دیا گیا، ان کے اقلیتوں کے وزیر کو قتل کر دیا گیا۔ ان کو لاحق خطرات کو کم نہیں بتایا جا سکتا۔ ان کی حکومت کو ہمیشہ احتیاط سے چلنا تھا کیونکہ اس سے پہلے کسی منتخب حکومت نے اپنی مدت پوری نہیں کی تھی۔‘
دوسری طرف حکومت کا موقف دیکھا جائے تو وہ ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ نیب ایک آزاد ادارہ ہے اور اس پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں۔ حکومتی بیانات کے مطابق نیب اپنے فیصلے کرنے میں مکمل آزاد ہے۔
No comments:
Post a Comment