بھارت کی مرکزی حکومت نے پیر کو آئین کا آرٹیکل 370 ختم کر دیا جس کے بعد کشمیر کو حاصل خصوصی درجہ واپس لے لیا گیا ہے۔
وزیر داخلہ امِت شاہ نے آج راجیہ سبھا (بھارتی قومی اسمبلی) کے خصوصی اجلاس میں بتایا کہ صدر رام ناتھ کووند نے آرٹیکل 370 ختم کرنے کے حکم نامے پر دستخط کر دیے ہیں، جس کے بعد خطے کی خصوصی حیثیت آج ہی ختم ہو گئی ہے۔ اِمت شاہ نے ایوان میں کہا ’یہ قدم فوری طور پر نافذ العمل ہو گا۔‘
اس سے قبل بھارت نے کشمیر میں ہزاروں اضافی فوجی تعینات کرنے کے بعد آج صبح دفعہ 144 نافذ کر دی تھی اور تعلیمی اداروں اور مواصلاتی نظام بند کرنے سے اندازہ ہو رہا تھا کہ بھارت کچھ بڑی کارروائی کرنے جا رہا ہے۔
وزیر داخلہ امت شاہ نے کابینہ اجلاس سے قبل وزیر قانون شنکر پرساد اور این ایس اے اجت دوول کے ہمراہ وزیراعظم نریندر مودی سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی تھی، جس کے بعد یہ کہا جانے لگا تھا کہ امت شاہ کے خطاب کے بعد تمام تر صورتِ حال واضح ہو جائے گی اور ایسا ہی ہوا۔
واضح رہے کہ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کی رُو سے جموں و کشمیر کی حدود سے باہر کسی بھی علاقے کا شہری، ریاست میں غیر منقولہ جائیداد کا مالک نہیں بن سکتا، یہاں نوکری نہیں کر سکتا اور نہ کشمیر میں آزادانہ طور پر سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔
امت شاہ نے راجیہ سبھا میں خطاب کرتے ہوئے جموں اور کشمیر کو دو ٹکڑوں یعنی یونین ٹیریٹری آف لداخ اور یونین ٹیریٹری آف جموں اینڈ کشمیر میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا۔
امت شاہ کا کہنا تھا ’جموں اور کشمیر کا ڈویژن لداخ ایک بہت بڑا علاقہ ہے جس کی آبادی کم ہے اور انتہائی دشوار گزار خطہ ہے۔ لداخ کے لوگوں کا ایک پرانا مطالبہ ہے کہ انہیں یونین ٹیریٹری کا درجہ دیا جائے تاکہ وہ اپنی خواہشات پر عمل پیرا ہو سکیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’یونین ٹیریٹری آف لداخ مجلس قانون ساز کے بغیر ہوگی۔ ان کا کہنا تھا: ’موجودہ جموں اور کشمیر میں سرحد پار سے کشیدگی اور سکیورٹی کی اندرونی صورتحال کے پیش نظر جموں اور کشمیر کے لیے ایک علیحدہ یونین ٹیریٹری بنا دی گئی ہے۔ یونین ٹیریٹری آف جموں اینڈ کشمیر میں مجلسِ قانون ساز ہو گی۔‘
آرٹیکل 370 کے خاتمے کے حوالے سے کشمیریوں کو خدشہ تھا کہ اگر یہ دفعہ ختم ہوگئی تو کروڑوں کی تعداد میں غیر مسلم آباد کار یہاں آ کر ان کی زمینوں، وسائل اور روزگار پر قابض ہو جائیں گے۔
شاید یہی وجہ تھی کہ بھارت نے کسی بھی قسم کے احتجاجی مظاہروں سے نمٹنے کے لیے پہلے ہی وہاں موجود فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا ہے۔
مسئلہِ کشمیر مزید پیچیدہ ہو گیا‘
پاکستان نے اس بھارتی قدم کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کا زیر انتظام کشمیرایک عالمی تسلیم شدہ متنازع علاقہ ہے۔
دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ چونکہ پاکستان اس عالمی مسئلے کا حصہ ہے لہذا وہ ’اس غیرقانونی اقدام کو روکنے کے لیے ہر ممکنہ آپشن استعمال کرے گا۔‘
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا: ’جس کا مجھے خدشہ تھا بھارت نے وہ حرکت کر دی۔ اس سے مسئلہِ کشمیر پہلے سے زیادہ پیچیدہ ہو گیا ہے۔‘
جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے بھی ٹوئٹر پر اپنے ردعمل میں کہا: ’کشمیریوں نے بھارتی پارلیمان اور سپریم کورٹ پر بھروسہ کیا لیکن آج وہ ہارا ہوا محسوس کر رہے ہیں۔‘
Today the people of Jammu & Kashmir who reposed their faith in institutions of India like parliament & Supreme Court feel defeated & betrayed. By dismembering the state & fraudulently taking away what is rightfully & legally ours, they have further complicated the Kashmir dispute
Today the people of Jammu & Kashmir who reposed their faith in institutions of India like parliament & Supreme Court feel defeated & betrayed. By dismembering the state & fraudulently taking away what is rightfully & legally ours, they have further complicated the Kashmir dispute
2,784 people are talking about this
ایچ آر سی پی کا تشویش کا اعلان
ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی) نے بھی بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بھارتی حکومت کے فیصلے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
کمیشن نے اپنے اعلامیے میں کہا ہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں فوج میں اضافہ اور شہریوں پر کرفیو جیسی پابندیاں مستقبل کی خوفناک صورت حال کی طرف اشارہ ہیں۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ موجودہ صورت حال لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف رہنے والے کشمیریوں پر سنگین اثرات مرتب کرے گی جبکہ جنگ کا خطرہ بھی پیدا ہو گیا ہے۔
انسانی حقوق کمیشن کا کہنا تھا کہ ایل او سی پر فائرنگ کے تبادلے اور اس سے ہونے والے جانی نقصان میں اضافہ، خاص طور پر کلسٹر بموں کا استعمال، جس سے بچے بھی متاثر ہو رہے ہیں، انتہائی تشویش ناک ہے۔
انسانی حقوق کمیشن کے اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ بڑھتے ہوئے طوفان کے پیش نظر کنٹرول لائن کے دونوں طرف رہنے والے کشمیریوں کی سلامتی اور بنیادی حقوق داؤ پر لگ گئے ہیں۔ ’کشمیریوں کی سلامتی اور حقوق روندے نہیں جانے چاہییں۔ حقیقت میں علاقائی امن و استحکام کی جتنی ضرورت اس وقت ہے پہلے کبھی نہیں تھی۔‘
کمیشن نے مطالبہ کیا کہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں بھی اپنے علاقائی ساتھیوں کی صبر و تحمل سے کام لینے کی بلند آوازوں میں اپنی آواز بھی شامل کریں۔
آرٹیکل 35 اے کیا ہے؟
آرٹیکل 35 بھی انڈین آئین کی ایک شق ہے جس کے تحت جموں و کشمیر کی اسمبلی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ خود اپنے ’مستقل شہری‘ کی تعریف طے کرے۔ 1954 میں بھارتی صدر کے ایک حکم کے بعد آرٹیکل 35 اے کو آئین میں شامل کیا گیا تھا۔
اس آرٹیکل کے مطابق کوئی شخص صرف اسی صورت میں جموں و کشمیر کا شہری ہوسکتا ہے اگر وہ یہاں پیدا ہوا ہو۔
آرٹیکل 370 کیا ہے؟
بھارتی آئین کی اس شق کے مطابق ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت کا درجہ دیا گیا۔ جس کے تحت ریاست دفاع، امورِ خارجہ، مالیات اور مواصلات کے علاوہ باقی تمام امور میں خود مختار ہو گی۔ بھارتی آئین کے دیگر حصوں کا نفاذ ریاستی اسمبلی کے اتفاق ہی سے ہوسکے گا۔
اسی طرح اس قانون کے تحت ریاست کے شہریوں کو بھارت کے دیگر شہریوں سے مختلف حقوق حاصل ہیں، جس کی وجہ سے اس آرٹیکل کے تحت ریاست کے شہریوں کے علاوہ کوئی اور شخص یہاں غیر منقولہ جائیداد نہیں خرید سکتا۔
آرٹیکل 370 کے تحت بھارتی صدر صرف جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کی ایڈوائس پر ہی آرٹیکل 370 کو ختم کر سکتے ہیں۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آئین ساز اسمبلی 1957 میں توڑ دی گئی تھی جس کی جگہ قانون ساز اسمبلی نے لے لی۔ گذشتہ سال بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور کشمیر کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے درمیان اتحاد ختم ہونے کے بعد قانون ساز اسمبلی برطرف کر دی گئی تھی۔
اہم بات یہ ہے کہ بھارتی صدر کے تازہ حکم میں آرٹیکل 370 میں موجود قانون سازاسمبلی کے لفظ کو گورنر جموں و کشمیر سے بدل دیا گیا ہے۔ اس طرح گورنر کی رضامندی کو ریاست کی رضامندی کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ اس اقدام کو آنے والے دنوں میں بھارتی عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔
یہ نکتہ بھی اہمیت کا حامل ہے کہ پاکستان نے کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق اور آرٹیکل 370 کو جموں و کشمیر پر بھارتی دعوے کی بنیاد کے طور پر کبھی تسلیم نہیں کیا۔ پاکستان کا مؤقف رہا ہے کہ کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے پہلے پاکستان کے ساتھ معاہدہ کیا تھا اور کشمیر پر بھارت کا جبری قبضہ ریاست کی مسلم اکثریتی آبادی کی خواہشات کے خلاف ہے۔
اب کیوں؟
بھارتیہ جنتا پارٹی اپنے انتخابی منشور کے طور پر طویل عرصے سے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کی وکالت کرتی رہی ہے۔ بی جے پی کے مطابق: اس سے نمبر ایک جموں و کشمیر کو مکمل طورپر بھارت کا حصہ بنانے کی راہ ہموار ہوگی۔ نمبردو ریاستی شہریت کا قانون ختم ہونے سے غیرکشمیری وہاں جا کر رہائش اختیار کر سکیں گے اورانہیں ووٹ کا حق مل سکے گا۔ اس طرح ریاست میں مسلمانوں کی اکثریت ختم ہو جائے گی۔
بھارت میں عام انتخابات میں دوسری بار بھارتی اکثریت کے ساتھ کامیابی سے وزیراعظم نریندرمودی کو موقع مل گیا کہ وہ جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی جسے گذشتہ برس ختم کردیا گیا تھا، کے خیالات اور رائے کو خاطر میں لائے بغیر آگے بڑھیں اور آرٹیکل 370 کا خاتمہ کردیں۔
آئینی چیلنجز کیا ہیں؟
بھارت نواز کشمیری اور حزب اختلاف کی قیادت بھارتی حکومت کے تازہ اقدام کو آئین کی روح کے منافی قرار دے کر اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کر سکتی ہے۔ یہ چیلنجز ممکنہ طور پر قانون ساز اسمبلی کی بجائے گورنر کی رضامندی سے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے طریقہ کار کے گرد گھومیں گے۔
2018 میں بھارتی سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ کئی برس گزارنے کے بعد آرٹیکل 370 کو مستقل حیثیت حاصل ہو چکی ہے جسے ختم کرنا ممکن نہیں رہا۔ اس سال جولائی میں بھارتی سپریم کورٹ نے ایک بار پھر کہا تھا کہ عدالت آرٹیکل 370 کے خلاف مفاد عامہ کے حوالے سے سماعت کرے گی۔ یہ معاملہ عدالت میں زیر التوا ہے۔
No comments:
Post a Comment