اگر ’تبدیلی سرکار‘ واقعی تبدیلی چاہتی تھی تو اسے کوشش کرنی چاہیے تھی کہ ایسے قانون سازوں کو ان قابل وقار عہدوں کے لیے منتخب کرتی جو دونوں حکومت اور اپوزیشن کے لیے قابل قبول اور قابل اعتبار ہوتے۔
سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا عہدہ پارلیمان کا ایک اہم ستون ہے اور اس عہدے سے پارلیمان نہ صرف مضبوط ہوتی ہے بلکہ اس سے اچھی روایتیں جنم لیتی ہیں جو کہ پارلیمان کے وقار اور قوت میں اضافہ کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری پارلیمانی تاریخ اس معاملے میں کچھ زیادہ قابل فخر نہیں رہی ہے۔
عموماً مغربی پارلیمانوں میں بڑے قد و کاٹھ کے مدبر سیاستدانوں کو اس اعلیٰ عہدے کے لیے منتخب کیا جاتا ہے اور وہ اپنی ذمہ داریاں جماعتی سیاست سے بالا تر ہو کر ادا کرتے ہیں۔ برطانوی پارلیمان میں جب سپیکر منتخب ہوتا ہے تو اپنی پارٹی سے استعفیٰ دے دیتا ہے اور وہ اس وقت تک سپیکر رہتا ہے جب تک وہ خود ریٹائرمنٹ نہ لے لے۔ اس کے مقابلے میں قومی انتخابات میں کوئی پارٹی اپنا امیدوار نہیں کھڑا کرتی اور وہ بلامقابلہ منتخب ہوتا رہتا ہے۔ اس مرتبے اور عزت کی وجہ سے سپیکر اپنی ذمہ داریاں بغیر کسی جانبداری کے احسن طریقے سے ادا کرتا ہے اور پارلیمان کے ممبران کو اپنی رائے کا اظہار بلا خوف و خطر اور بغیر کسی قیود کے ادا کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اسی پارلیمانی روایت کے تحت سپیکر کبھی بھی بحث میں حصہ نہیں لیتا۔ موجودہ برطانوی سپیکر جان برکاؤ 2009 میں سپیکر منتخب ہوئے تھے۔
سپیکر کی غیر جانبداری کی وجہ سے آپ کو کبھی بھی برطانوی پارلیمان میں ہنگامہ آرائی نظر نہیں آتی اور نہ ہی اپوزیشن واک آؤٹ کرتے ہوئے ایوان سے باہر چلی جاتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود برطانوی پارلیمان میں کافی پرجوش مباحثے بھی ہوتے ہیں اور حکومت کو اور اپوزیشن کو تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے سخت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سپیکر کے قابل احترام رتبے کی وجہ سے اگر کسی قانون میں تشریح کی ضرورت ہو تو سپیکر کی تشریح کو حتمی سمجھا جاتا ہے۔
اس کے مقابلے میں ہم اگر اپنی پارلیمانی تاریخ پر نظر ڈالیں تو خال خال بڑے قد و کاٹھ کا مدبر سپیکر نظر آتا ہے۔ مولوی تمیزالدین اور فخر امام کچھ حد تک پارلیمانی روایات کے امین رہے ورنہ ہماری لنگڑاتی جمہوریت میں آپ کو شاید ہی کوئی بڑے پائے کا مدبر سیاستدان اس اہم ذمہ داری پر فائز نظر آیا ہے۔ عموماً سیاسی جماعتوں نے اپنے وفاداروں کو ان اہم پارلیمانی عہدوں پر تعینات کر کے جمہوریت کی کوئی خاص خدمت نہیں کی۔
پی ٹی آئی نے اس سلسلے میں خصوصی طور پر مایوس کیا ہے۔ عمران خان کے حقیقی جمہوری دعووں اور نظام کی اصلاحات کے اعلانات کے بعد یہ امید کی جا رہی تھی کہ پی ٹی آئی کوئی بڑی قد آور سیاسی شخصیت کا انتخاب کرے گی جسے پارلیمانی روایات کا تجربہ ہو گا اور جو پارلیمان کو، جسے عمران خان ماضی قریب میں چوروں اور ڈاکوؤں کی آماج گاہ قرار دیتے تھے، ایک حقیقی قانون سازی کا ادارہ بنانے کی کوشش کریں گے۔ یہ سب خواب اسد قیصر اور قاسم سوری جیسے سیاسی نابلد اور عقلی کوتا قدوں کی نامزدگی سے شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے۔ ان دونوں قانون سازوں کا قومی اسمبلی میں داخلہ پہلی مرتبہ ہوا تھا اور انہیں نہ قومی پارلیمان کو چلانے کا اور نہ ہی قریب سے دیکھنے کا کوئی تجربہ تھا۔ ان کے دور میں پارلیمان کی طاقت اور عظمت میں اضافے کی امید کرنا ان دونوں حضرات کے ساتھ زیادتی تھی۔ ان دونوں قانون سازوں نے عوام کو مایوس ہی نہیں کیا ہے بلکہ اپنی حال میں کی گئی بہت ساری رولنگز اور خصوصاً لفظ ’سلیکٹڈ‘ پر پابندی لگانے سے اسمبلی کو ایک قومی مذاق بنا دیا۔ اگرچہ اسد قیصر خیبر پختونوا اسمبلی کے سپیکر رہے لیکن وہاں بھی کوئی قابل رشک کارکردگی نہیں دکھائی تھی۔
دنیا بھر میں بھی اس بچگانا قدم کی بازگشت سنی گئی ہے جس سے پاکستانی جمہوریت کا مذاق اڑا۔ اس رولنگ سے نہ صرف پارلیمان کی توہین ہوئی ہے بلکہ وزیراعظم کے کمزور اور ناتواں عہدے کی مزید سبکی ہوئی ہے۔ ان دونوں حضرات اور خصوصاً ڈپٹی سپیکر کی وجہ سے اسمبلی میں ہر وقت ایک محاذ آرائی کی فضا رہتی ہے۔ ڈپٹی سپیکر کے تھانے دارانہ طرز عمل سے لگتا ہے کہ انہیں پارلیمان کے وقار یا ایک صحت مند بحث مباحثے سے کوئی غرض نہیں ہے اور انہیں شاید صرف اپنے آقاؤں کے احکامات بجا لانے سے غرض ہے۔ ڈپٹی سپیکر کا طرز تقلم کسی پڑھے لکھے قانون ساز کا نہیں لگتا بلکہ ان کا رویہ سکول میں داداگیر یا دھونس جمانے والے طالب علم جیسا ہوتا ہے۔
سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کی نااہلیت اور جانبداری اس وقت اور ابھر کر سامنے آئی جب انہوں نے اختیار کے باوجود گرفتار قانون سازوں کے پروڈکشن آرڈر پر لیت و لعل سے کام لیا۔ یہ آرڈر اس وقت جاری کیے گئے جب وزیراعظم کے آفس کی طرف سے اشارہ ملا۔ ابھی بھی کچھ قوتوں کے دباؤ کی وجہ سے کچھ ممبران کے پروڈکشن آرڈر نہیں جاری کیے گئے ہیں۔ پچھلے ایک سال میں ان دونوں حضرات کی کارکردگی نے ثابت کر دیا ہے کہ ان سے پارلیمان کی عزت اور طاقت میں اضافے کی کسی قسم کی امید کرنا بےجا ہو گا۔ یہ تو اپنے موجودہ اختیارات کے استعمال سے بھی گھبراتے ہیں۔ ایسے کم ہمت عہدے دار ان عہدوں پر رہ کر اس کی مزید سبکی کا باعث بنیں گے۔
اسی طرح کی شخصیات کے انتخاب ان اہم اداروں کو بےوقار کرتے ہیں۔ اگر تبدیلی سرکار واقعی تبدیلی چاہتی تھی تو اسے کوشش کرنی چاہیے تھی کہ ایسے قانون سازوں کو ان قابل وقار عہدوں کے لیے منتخب کرتی جو حکومت اور اپوزیشن دونوں کے لیے قابل قبول اور قابل اعتبار ہوتے۔ ایک متفقہ امیدوار کی نامزدگی نہ صرف سپیکر کے عہدے کو عزت دیتی بلکہ پارلیمان کو بھی مضبوط کرتی۔ یہ قدم غیر جمہوری قوتوں کے لیے ایک واضح پیغام بھی ہوتا اور یہی حقیقی تبدیلی ہوتی ہے۔
پی ٹی آئی میں ایسے بڑے قد آور تجربہ کار قانون ساز موجود تھے جو اس عہدے کی عزت میں اضافے کا باعث بن سکتے تھے۔ ان میں شفقت محمود، علی محمد خان، فخرامام، شاہ محمود قریشی اور میاں محمد سومرو جیسے نام شامل ہیں۔ حکمران جماعت کے پاس ابھی بھی موقع ہے کہ ایوان کو مزید مذاق نہ بننے دے اور ان دو اہم عہدوں پر اس عہدے کے قابل لوگوں کو لائے۔ اس تبدیلی سے نہ صرف پارلیمان بہتر طریقے سے ملک کو درپیش مسائل پر بحث کر سکے گی بلکہ اچھے طریقے سے قانون سازی بھی کر سکے گی۔
No comments:
Post a Comment