Tuesday, July 2, 2019

زرداری کے انٹرویو پر پابندی:’کیا اسے جمہوری مارشل لا کہیں گے؟‘


جیو نیوز کے پروگرام ’کیپیٹل ٹاک‘ میں سابق صدر آصف علی زرداری کا انٹرویو روکے جانے پر صحافتی حلقوں میں چہ مگوئیاں جاری ہیں اور سوالات اٹھ رہے ہیں کہ کیا سب سیاستدانوں کے لیے صحافت کے پیمانے ایک جیسے ہیں؟



جیو نیوز کے پروگرام ’کیپیٹل ٹاک‘ میں گذشتہ روز سابق صدر آصف علی زرداری کا انٹرویو روکے جانے پر صحافتی حلقوں میں چہ مگوئیاں جاری ہیں۔ قیاس آرائیاں ہیں کہ زرداری چونکہ نیب کی تحویل میں ہیں اس لیے ان کا ٹی وی انٹرویو روکا گیا۔ یہاں سوال یہ اُٹھتا ہے کہ کیا زرداری وہ پہلے سیاسی ملزم ہیں، جن کا انٹرویو روکا گیا یا اس سے قبل بھی سیاسی ملزمان پر انٹرویو نہ دینے کی پابندیاں لگائی گئیں یا ان کے انٹرویوز روکے گئے؟ اور کیا سب سیاستدانوں کے لیے ایک جیسا معیار ہے؟
ان ہی سوالات کے جوابات جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے کچھ سینئیر صحافیوں سے بات کی اور پوچھا کہ پاکستان میں سیاسی ملزمان کے لیے صحافت کے پیمانے مختلف کیوں ہیں؟
سینیئر صحافی عاصمہ شیرازی نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پیمانے مختلف اس لیے ہیں کہ کچھ سیاسی ملزمان سے انتقام لینا مقصود ہوتا ہے اور اُس کو سلیکٹو جسٹس کہتے ہیں۔ جب کہ کچھ سیاسی ملزمان کو سب کچھ بولنے کی آزادی ہوتی ہے، اسے ہم جمہوری مارشل لا کہہ سکتے ہیں۔‘
عاصمہ شیرازی نے کہا کہ ’ایسا پہلی بار نہیں ہوا بلکہ جب وہ نواز شریف اور مریم نواز کے ہمراہ لندن سے لاہور آ رہی تھیں تو دوران سفر ریکارڈ کیا گیا انٹرویو پرومو چلنے کے بعد نامعلوم احکامات کے بعد رکوا دیا گیا تھا۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’اگر ایسا ہی ہے تو پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث مجرم احسان اللہ احسان کا انٹرویو کیوں نہیں روکا گیا؟ دہشت گردی میں ملوث ملزمہ نورین لغاری کا ویڈیو کلپ کیوں ہر ٹی وی چینل پر چلوایا گیا؟ سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف نے دو بار آئین توڑا، وہ بینظیر قتل کیس میں نامزد ملزم تھے، پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار چلنے والے آرٹیکل چھ کے مقدمے میں مجرم اور عدالت کی جانب سے اشتہاری ہیں لیکن اُن کے انٹرویوز بھی ٹی وی چینلز پر چلتے رہے ہیں، کیونکہ ان سب پر کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا۔‘
پانامہ کیس کی کوریج کرنے والے صحافیوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’2014 کے دھرنے میں موجودہ وزیراعظم عمران خان، صدر عارف علوی اور کابینہ کے دیگر اراکین کے خلاف مختلف مقدمات درج تھے۔ عمران خان، عارف علوی، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر پی ٹی وی حملہ کیس کے نامزد ملزمان تھے اور انسداد دہشت گردی کی عدالت کو مطلوب تھے لیکن اس کے باوجود وہ سب پانامہ کیس کی سماعت سننے سپریم کورٹ جاتے اور واپسی پر باہر میڈیا سے بات کرتے جو ہر ٹی وی چینل پر براہ راست نشر ہوتی تھی اور کبھی پیمرا یا نامعلوم حکام نے میڈیا 
ٹاک بند کرنے کا حکم نہیں دیا۔‘
احتساب عدالت میں موجود صحافی کہتے ہیں کہ ’جب نندی پور کیس میں بابر اعوان کے خلاف مقدمہ چل رہا تھا تو بابر اعوان عدالت کی کینٹین میں میڈیا کو ناشتہ کرواتے اور اپنا بیان بھی جاری کرتے جو ہر ٹی وی چینل اور اخبار کی زینت بنتا تھا۔‘
دوسری جانب پارلیمانی امور کے صحافیوں کا کہنا ہے کہ ’سابق صدر آصف علی زرداری اگر ملزم ہیں تو پروڈکشن آرڈر کے دوران پارلیمنٹ کے چیمبر میں صحافیوں سے گفتگو کرتے رہے جو موبائل میں ریکارڈ ہوتی اور ٹی وی چینلز پر چلتی رہی، اُسے تو کسی نے نہیں روکا۔ اس کے علاوہ خواجہ سعد رفیق بھی سیاسی ملزم ہونے کے باوجود پارلیمنٹ میں میڈیا سے 
گفتگو کرتے ہیں۔‘
دفاعی امور کے صحافیوں کا کہنا تھا کہ ’ہزاروں لوگوں اور فوج کے جری جوانوں کے قاتل احسان اللہ احسان کا انٹرویو تو تمام ٹی وی چینلز پر باجماعت چل سکتا ہے لیکن ملزم آصف علی زرداری کا نہیں، جن پر ابھی سب الزامات ہیں اور ثابت کچھ نہیں ہوا۔ تو کیا اس کو جمہوری مارشل لا کہیں گے؟‘
سینیئر صحافی مطیع اللہ جان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پوری دنیا میں سیاسی کرداروں کے لیے صحافت کی مختلف رائے ہو سکتی ہے۔ لیکن اب جو پاکستان میں ہو رہا ہے اُس کو ہم مثبت نہیں بلکہ منفی رپورٹنگ کہیں گے۔‘
سینیئر صحافی اعجاز احمد نے کہا کہ ’ایک بات یاد رکھیں جہاں آواز دبا دی جائے وہاں باتیں پھر سینہ گزٹ چلتی ہیں اور اس طرح ریاستیں کمزور ہوتی ہیں۔ اسی بات کا مجھے دکھ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اس بات کا احساس نہیں کر رہی۔‘


No comments: