پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ہم سلیکٹڈ اور جعلی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کر رہے ہیں، کٹھ پتلی حکومت، سلیکٹڈ اور سلیکٹرز کے خلاف بغاوت کا اعلان کرتے ہیں، ابھی پارٹی شروع ہوئی ہے، ہماری تحریک جاری رہے گی۔
کراچی کے باغ جناح میں متحدہ اپوزیشن کے بڑے جلسہ عام سے خطاب کر تے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اس وقت جمہوریت، سیاست، آزادی صحافت، انسانی حقوق، غریب مزدور، کسان، تجارت، صوبے اور وفاق نشانے پر ہیں، جب تک سلیکٹیڈ اور کٹھ پتلی حکومتوں کے خلاف جدوجہد نہیں ہو گی، کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ پاکستان کو مسائل سے نکالنے کے لیے متحدہ اپوزیشن کی جماعتیں ایک ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں۔
جلسے سے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سیکریٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر ایاز صادق، اے این پی خیبرپختونخوا کے صدر ایمل ولی خان، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے رضا محمد رضا اور نیشنل پارٹی کے اسحاق بلوچ نے بھی خطاب کیا۔
جلسہ گاہ میں متحدہ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور حامیوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔
اسٹیج پر وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، سابق وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ، سید خورشید احمد شاہ، سعید غنی، وقار مہدی، راشد ربانی عاجز دھامرا، جاوید ناگوری، آصف خان، مسلم لیگ (ن) کے سید شاہ محمد شاہ، اے این پی کے شاہی سید اور دیگر رہنما موجود تھے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ 25 جولائی 2018 پاکستان کی تاریخ کا ایک اور بدترین اور سیاہ ترین دن ہے۔ اس دن ایک جعلی اور سلیکٹڈ حکومت قائم کی گئی۔ آج ہم اس جعلی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں عوام کا شکر گزار ہوں، جنہوں نے ہماری آواز پر لبیک کہا۔
بلاول بھٹو زرداری نے متحدہ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کے ساتھ پیپلز پارٹی کے تعلق کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے مفتی محمود اور دیگر کے ساتھ مل کر 1973ء کا آئین بنایا۔ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ میثاق جمہوریت کیا، جس کی وجہ سے 18 ویں ترمیم منظور ہوئی اور 73 کا آئین بحال ہوا۔ پیپلز پارٹی نے عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ مل کر خیبر پختونخوا صوبے کا نام دیا اور صوبے کے لوگوں کو اپنی شناخت دی۔
پی پی چیئرمین نے کہا کہ ہماری اپنی اپنی سیاسی جماعت ہے۔ ہم نے لڑائی بھی لڑی ہے۔ سب محب وطن اور پاکستانی ہیں اور ہم نے مل کر جمہوریت کے لیے جدوجہد کی ہے۔ آج ہم سب کو نظر آ رہا ہے کہ جمہوریت خطرے میں ہے۔ وفاق پر حملے ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے بہت سے مسائل ہیں۔ کوئی ایک سیاسی جماعت یہ مسائل حل نہیں کر سکتی۔ اس لیے آج ہم پھر متحد ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا آج پارلیمان ہی نہیں، جمہوریت نشانے پر ہے سیاست دان ہی نہیں، سیاست نشانے پر ہے۔ میڈیا اور صحافی ہی نہیں، آزادی صحافت نشانے پر ہے۔ انسان ہی نہیں، انسانی حقوق نشانے پر ہیں۔ غریب، کسان اور مزدور نشانے پر ہیں۔ تاجر ہی نہیں، تجارت نشانے پر ہے۔ سیاسی کلچر ہی نہیں، اصول نشانے پر ہیں۔ غریبوں کو گھر کیا دیں گے، غریبوں کے گھر ہی نشانے پر ہیں۔ چند قوانین ہی نہیں، پورا آئین نشانے پر ہے۔
انہوں نے کہاکہ مرضی کے انتخابی نتائج نہ ملے تو آر ٹی ایس سسٹم بٹھا دیاگیا۔ پھر بھی مرضی کے نتائج نہ ملے تو پولنگ اسٹیشنز سے عملے کو باہر نکال دیاگیا۔ پھر بھی مرضی کے نتائج نہ ملے تو رات کو جیتے ہوئے امیدوار کو ہرا دیا گیا، پھر بھی مرضی کے نتائج نہ ملے تو سابق چیف جسٹس کے ذریعہ گنتی رکوا دی گئی۔ پھر بھی مرضی کے نتائج نہ ملے تو فارم 45 غائب کرا دیا گیا اور 90 فیصد فارمز پر دستخط نہیں تھے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ کراچی کے مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالا گیا اورکراچی سے اپنی مرضی کا نتیجہ حاصل کرنے کی روایت برقرار رکھی گئی۔ لیاری سے نائن زیرو تک کا مینڈیٹ چرایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ پھر بھی جعلی حکومت نہ بن سکی تو آزاد ارکان کو جہانگیر ترین کے جہاز سے اٹھوا کر بنی گالا پہنچا دیا گیا۔ عمران خان نے جن لوگوں کو قاتل اور ملک دشمن کہاتھا، ان لوگوں کو عمران کی جھولی میں ڈال دیا گیا۔
بلاول بھٹو نے سوال کیا کہ یہ سلیکشن نہیں تو کیا ہے۔ میں انہیں سلیکٹڈ نہ کہوں تو کیا کہوں۔
No comments:
Post a Comment