Friday, July 19, 2019

وانا جہاں ’ گڈ طالبان ‘ کی تعداد بڑھ رہی ہے


وانا سکاؤٹس قلعے سے دو کلومیٹر دور جنوب کی جانب موسی قلعہ کے نام سے 1100 کنال اراضی پر ’گڈ طالبان‘ کا ایک بہت بڑا کیمپ موجود ہے البتہ مین شاہراہ پر چیک پوسٹ کو ختم کردیا گیا ہے۔

صوبہ خیبر پختونخوا کا قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان میرا آبائی علاقہ ہے لیکن طالبان شدت پسندوں کی موجودگی کی وجہ سے ہم اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے تھے۔
اب حالت قدرے بہتر ہونے کے بعد پانچ سال بعد اپنے آبائی علاقے وانا جانے کا موقع ملا اور عام شہریوں کی طرح پشاور سے ڈیرہ اسماعیل خان، پھر ڈیرہ اسماعیل خان سے براستے گومل زام روڈ وانا روانہ ہوا۔
اب عام پاکستانی بھی ٹانک سے دس کلومیٹر دور جنوبی وزیرستان کی سرحد گردوائی کے مقام پر انٹری کرکے آگے جاسکتا ہے اور گومل زام روڈ دن رات آمد و رفت کے لیے کھول دیا گیا ہے۔
جنوبی وزیرستان کے علاقے گردوائی میں مقامی اور غیر مقامی لوگ چیک پوسٹ پر قومی شناختی کارڈ دکھا کر انٹری کرکے رسید وصول کرنے کے بعد وانا کی طرف بغیر کسی رکاوٹ کے جاسکتے ہیں۔
جنوبی وزیرستان کے داخلی اور خارجی راستوں پر دو سکیورٹی چیک پوسٹیں قائم ہیں۔ جن میں ایک گردوائی اور دوسری تنائی چیک پوسٹ ہے۔ تنائی چیک پوسٹ پر گردوائی کے مقام پر دینے والے رسید کو چیک کرنے کے بعد وانا میں داخلے کی اجازت ملے گی۔
اس سے پہلے وانا کے لیے ٹانک سے براستہ جنڈولہ جانا پڑتا تھا۔
گومل زام روڈ محسود اور وزیر قبائل کے درمیان تنازعے کی وجہ سے بند پڑا تھا۔ لیکن محسود کے علاقے میں راہ راست اپریشن کے بعد سیکورٹی فورسز نے گومل زام روڈ کو عام شہریوں کے لیے کھول دیا۔ جس کے بعد سے وزیر قبائل کی آمد و رفت  براستے جنڈولہ کی بجائے گومل زام روڈ کے راستے سے ہونے لگی ہے۔
ایک ایسا وقت تھا کہ ڈیرہ اسماعیل سے وانا تک وزیر قبائل کی مسافر گاڑیوں کو براستہ جنڈولہ صرف رات کے وقت جانے کی اجازت تھی اور دن کے وقت بیٹنی قبائل وزیر قبائل کے گاڑیوں کو اجازت نہیں دیتے تھے اور دوسری طرف گومل زام روڈ محسود وزیر قبائل کے تنازعہ کی وجہ سے بند تھی۔
اب ڈیرہ اسماعیل خان سے وانا جانے والی گاڑیوں کے ڈرائیور نے بتایا کہ وانا جانے والی مسافر گاڑیوں میں اضافہ ہوا ہے اور وہ وقت گزر گیا کہ رات کو وانا کے لیے سفر کرتے تھے اب دن کو بھی وانا کے لیے ہر قسم کی گاڑیوں کی اجازت ہے۔ گومل زام روڈ کھلنے کے بعد سے 
روڈ پر بیٹنی قبائل کا قبضہ ختم ہوگیا ہے۔
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن محمد طارق کا کہنا ہے کہ اب چیک پوسٹوں پر اتنی مشکلات نہیں ہیں جتنی پہلے تھیں۔ اب صرف شناختی کارڈ کو دیکھتے ہیں خواہ وہ مقامی ہوں یا غیر مقامی لیکن اگے جانے میں کسی کو کوئی رکاوٹ نہیں رہے گی۔ اب چیک پوسٹوں پر لمبی لمبی قطاریں ہیں اور نہ ہی لوگوں کو کسی قسم کی مشکلات کا سامنا ہے۔
شدت پسندی اور دہشت گردی سے متاثرہ جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا میں 2007 میں شدت پسند طالبان اس وقت ’گڈ طالبان‘ میں تبدیل ہوگئے جب ملا نذیر گروپ کے مقامی طالبان نے ازبکوں کے خلاف لڑائی میں سکیورٹی فورسز کا ساتھ دیا۔
مقامی طالبان اور قومی لشکر مسلح ازبکوں کے خلاف فیصلہ کن آپریشن میں فوج کے ساتھ شانہ بشانہ لڑے جس میں دو درجن سے زیادہ غیر ملکی ازبک مارے گئے اور چند ہی دنوں میں سارا علاقہ غیر ملکی ازبکوں سے صاف کردیا گیا۔
اس آپریشن کے بعد وانا میں ’گڈ طالبان‘ کے نام سے چار تنظمیں وجود میں آ گئیں اور وانا سب ڈویژن کو تحصیل وایز کمانڈروں کے حوالے کر دیا اور اس طرح پورے علاقے پر رفتہ رفتہ کنٹرول حاصل کرلیا۔ وانا بازار میں ٹیکس کے پیسے اور لوگوں کے تنازعت کے پیسے ان چاروں گروپوں کے جیبوں میں جانے لگے۔
پشتون تحفظ موومنٹ وجود میں آنے کے بعد گذشتہ سال وانا میں ایک جلسہ عام کے موقع پر فائرنگ کے نتیجہ میں دو افراد کی ہلاکت جبکہ تیس سے زیادہ زخمی ہونے کے بعد عام شہریوں نے ’گڈ طالبان‘ کے خلاف بولنا شروع کر دیا جس پر مقامی انتظامیہ نے ایکشن لیتے ہوئے ’گڈ طالبان‘ کو بازار سے بے دخل کر کے بازار کا کنٹرول لیویز کے سپرد کر دیا تھا۔ 
 طالبان کا وانا بازار سے کنٹرول ختم ہونے کے بعد خاصہ دار اور لیویز فورس نے بازار کا کنٹرول سنھبال لیا مقامی انتظامیہ نے کہا تھا کہ وانا کے کسی بھی علاقے میں ’گڈ طالبان‘ نہیں رہے گے۔
ان دنوں وانا بازار میں ’گڈ طالبان‘ دوکانداروں سے ٹیکس تو نہیں لیتے مگر وہ اب بھی بازار میں مسلح نظر آتے ہیں۔
وانا سکاؤٹس قلعے سے دو کلومیٹر دور جنوب کی جانب موسی قلعے کے نام سے گیارہ سو کنال آرضی پر ’گڈ طالبان‘ کا ایک بہت بڑا کیمپ موجود ہے البتہ مین شاہراہ پر چیک پوسٹ کو ختم کر دیا گیا ہے۔
وانا کے مقامی صحافیوں نے بتایا کہ ’گڈ طالبان‘ کے فنڈ کے لیے اب انتظامیہ نے روزانہ کے حساب سے انگور آڈہ سے وانا بازار تک ہر ایک کمانڈرز کو دو دو ٹرک غیر ملکی سامان کی اجازت ملی ہے جو انگور آڈہ چیک پوسٹ پر امن کمیٹی کے نام سے رسید دیا جاتا ہے۔ صحافیوں کے مطابق وہ ڈرتے ہیں اور اس طرح کی خبریں نہیں چلا سکتے۔  
اس کے علاوہ وانا کے مختلف علاقوں میں جگہ جگہ افغان طالبان نظر آرہے تھے جس کی وجہ سے مقامی لوگوں میں ایک تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی۔ مقامی لوگوں کے مطابق گذشتہ ایک ماہ سے افغان طالبان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
اس حوالے سے مقامی انتظامیہ نے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔ وانا کی مقامی آبادی کے لوگ اس بات پر خوش تھے کہ وانا میں امن امان لوٹ آیا ہے مگر طالبان کی بدستور موجودگی اور افغان طالبان کی تعداد میں اضافہ پر پریشان اور ناخوش نظر اتے تھے۔

No comments: