صوبہ پنجاب میں 2018 میں غیرت کے نام پر قتل کرنے والے 400 ملزمان میں سے صرف 2 فیصد یعنی صرف آٹھ ملزمان کو سزا سنائی گئی۔
سول سوسائٹی نیٹ ورک فار ہیومن رائٹس پاکستان نے ’رائٹ ٹو انفارمیشن لا پنجاب‘ کے ذریعے پنجاب پولیس سے جو اعدادو شمار حاصل کیے ان کے مطابق پچھلے سال صوبے میں غیرت کے نام پر قتل کے 234 کیس رپورٹ ہوئے، جن میں سے چھ کیس خارج ہو گئے، باقی 228 کیسز میں ملوث 439 ملزمان میں سے 400 کو گرفتار کیا گیا اور ان 400 میں سے صرف آٹھ کو ہی سزا دی جا سکی۔
سول سوسائٹی نیٹ ورک فار ہیومن رائٹس کے صدر ایڈووکیٹ عبداللہ ملک نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جب انہوں نے پنجاب پولیس سے یہ معلومات مانگیں تو انہیں فراہم نہیں کی گئیں، جس کے بعد انہیں ’رائٹ ٹو انفارمیشن لا‘ کے چیف کمشنر کو شکایتی درخواست لکھنی پڑی اور اس کے بعد ہی انہیں پنجاب پولیس سے ساری معلومات فراہم ہوئیں۔
ایڈووکیٹ عبداللہ ملک کہتے ہیں گذشتہ چند برسوں میں غیرت کے نام پر قتل کے کیسز میں اضافہ ہوا، جس پر سول سوسائٹی، میڈیا اور خواتین پارلیمنٹیرینز نے بہت زیادہ آواز بلند کی لہذا 22 اکتوبر 2016 کو قومی اسمبلی نے کرمنل پروسیجر کوڈ کے سیکشن 299 اور 302 میں ترامیم کیں اورغیرت کے نام پر قتل بھی ایک عام شہری کے قتل کے زمرے میں آنے لگا۔
’بدقسمتی سے اس قانون میں ترمیم کے باوجود ان کیسز میں کوئی خاطر خواہ کمی نہیں ہوئی۔‘
ان کے خیال میں جب غیرت کے نام پر قتل کی ایف آئی آر درج ہوجاتی ہے تو مدعی سے ہی ثبوت مانگا جاتا ہے۔ ایسے کیسز میں پولیس یہ اخذ کر لیتی ہے کہ مرنی والی خاتون یا مرد کا کردار ٹھیک نہیں تھا لہذا یہ واقعہ پیش آیا۔
دوسرا آئین کے آرٹیکل نائین اے کے تحت یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کی جان و مال کا تحفظ کرے اور ان کیسز کی پیروی کرے۔ عموماً ہوتا کیا ہے کہ ایف آئی آر درج ہونے کے بعد تفتیشی افسر کو ثبوت اکٹھے کر کے 14 روز میں چالان عدالت میں جمع کروانا ہوتا ہے لیکن وہ عین سماعت والے دن کیس کی فائل پراسیکیوٹر کے حوالے کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ بھرپور تیاری کے ساتھ آئے مخالف وکیل سے ہار جاتا ہے۔
کنگز کالج لندن سے کرمنولوجی اور کرمنل جسٹس میں ماسٹر ڈگری لینے والے سینئر پولیس افسر رفعت مختار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ غیرت کے نام پر قتل کرنے والے کو سزا دینا بہت مشکل ہے اور اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔
’کچھ سال پہلے تک مدعی اور عینی شاہدین گھر کے افراد ہی ہوتے تھے جو ملزم کو معاف کر دیا کرتے یا عینی شاہدین گواہی دینے سے انکار کر دیتے تھے۔ جس کے بعد ریاست نے قانون بنایا کہ قتل کے ان کیسز میں ریاست ہی مدعی ہو گی لیکن یہ قانون بھی مسئلہ حل نہ کر سکا کیونکہ دوبارہ مسئلہ عینی شاہدین کا ہی ہوتا ہے جو اکثر گواہی نہیں دیتے یا ان کی گواہی کمزور ہوتی ہے۔ ‘
ان کا کہنا تھا کہ ملزمان کے بچ نکلنے میں پولیس کی تحقیقات کا کافی عمل دخل ہے کیونکہ تفتیشی افسران ایسے کیسز میں عینی شاہدین کو صحیح طریقے سے ہینڈل نہیں کر پاتے اور کیس کمزور ہوجاتا ہے۔
ایک اور سینئر پولیس افسر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پنجاب پولیس کے ثبوت اکٹھے کرنے کا طریقہ ناقص ہے اور ریاست کا وکیل بھی کیس میں دلچسپی نہیں لیتا۔
ایس پی انویسٹیگیشن ماڈل ٹاؤن ڈویژن انوش مسعود نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایسے کیسز میں ریاست کو مدعی بننا چاہییے مگر زیادہ تر کیسز میں گھر کا ہی کوئی فرد ضد کر کے مدعی بنتا ہے جو آخر میں یا تو قاتل کو معاف کر دیتا ہے یا گواہی ہی نہیں دیتا۔
ایس پی انوش کہتی ہیں اگر ریاست مدعی بن بھی جاتی ہے تو مسئلہ گواہان کو سامنے لانا ہوتا ہے، ظاہر ہے پولیس یا ریاست توعینی شاہد یا گواہ نہیں بن سکتے اس موقع پر بھی کیس کمزور ہوجاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے کیسز میں زیادہ تر بھائی بہن کو یا باپ بیٹی کو مار دیتا ہے اور گھر والے زور دیتے ہیں کہ مدعی وہی بنیں گے، پنجاب کے دور دراز علاقوں میں کئی جگہوں پر یہ قتل رپورٹ ہونے کے بعد باپ بیٹے کو بیٹی کا قتل معاف کر دیتا ہے اور بیٹا باپ کو بہن کا قتل معاف کر دیتا اور کیس عدالت میں پہنچنے سے پہلے ہی ختم ہو جاتا ہے۔
انوش کے مطابق زیادہ تر کیسز میں لڑکی کے چال چلن کے بارے میں شک یا یقین ہونے پر قتل کیا جاتا ہے مگر کچھ کیسز میں جائیداد کے بٹوارے پر بھی لڑکی کو مار دیا جاتا ہے اور بعد میں اس پر بدچلنی کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔
انسانی حقوق کی کارکن سدرہ ہمایوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے پارلیمینٹ میں حلف اٹھا کر آنے والوں سے درخواست کی کہ وہ ایوان میں عورت کی عزت اچھالنا بند کریں کیونکہ جب وہ کسی بھی ایک خاتون رکن کے خلاف غلط الفاظ استعمال کرتے ہیں تو انہیں دیکھنے یا سننے والوں پر منفی اثر ہوتا ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پارلیمان میں بیٹھی عورت کی کوئی عزت نہیں تو گھر میں بیٹھی عورت کی کیا اوقات ہے ؟
No comments:
Post a Comment