Tuesday, June 4, 2019

کسی بھی طرح جائیدادیں چھپانے کی کوشش نہیں کی: جسٹس فائز عیسیٰ


جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف حکومتی ریفرنس سے متعلق صدر مملکت عارف علوی کو پانچ صفحات پر مشتمل ایک اور خط لکھا ہے جس میں ان سے قانونی سوالات پوچھے گئے ہیں۔



جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف حکومتی ریفرنس سے متعلق صدر مملکت عارف علوی کو پانچ صفحات پر مشتمل ایک اور خط لکھا ہے جس میں ان سے قانونی سوالات پوچھے گئے ہیں۔
صدر پاکستان کی جانب سے سپریم کورٹ کے تیسرے سینیئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف بھجوائے گئے ریفرنس پر ردعمل کی شدت میں آئے روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ملکی میڈیا ہو یا سوشل میڈیا ہر طرف اسی معاملہ کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ اپنے خلاف دائر ریفرنس سے متعلق الزامات  کا دفاع کرنے کو تیار جبکہ وکلا کے سب سے بڑے فورم سے ردعمل میں نئے عدالتی بحران کی دھمکی دے دی گئی ہے۔
ایسے میں خفیہ طور پر سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کیے گئے اس ریفرنس سے متعلق الزامات پوچھنے کے لیے جسٹس فائز عیسی کے صدر پاکستان کو لکھے گئے پہلے خط کے بعد ان کی جانب سے دوسرا خط بھی بھجوا دیا گیا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس خط میں لکھا ہے کہ ’جناب صدر اس سے پہلے کہ کونسل مجھے نوٹس بھیجتی میرا جواب آتا لیکن میرے خلاف میڈیا پر کردار کشی کی مہم شروع کر دی گئی ہے، کیا شکایت کے مخصوص حصے میڈیا میں لیک کرنا حلف کی خلاف ورزی نہیں؟‘
انہوں نے لکھا کہ کیا میڈیا میں مخصوص دستاویزات لیک کرنا مذموم مقاصد کی نشاندہی نہیں کرتا؟ وزیر قانون، وزارت اطلاعات کے سینیئر عہدیدار اور حکومتی ارکان ریفرنس کے مخصوص دستاویزات میڈیا میں پھیلا رہے ہیں۔
’جناب صدر حکومتی ارکان میڈیا میں ریفرنس سے متعلق گفتگو کر رہے ہیں اور اسے میرے خلاف احتساب کا شکنجہ قرار دیا جا رہا ہے۔‘
جسٹس قاضی فائز عیسی نے خط میں مزید لکھا ہے کہ ’یہ مناسب رویہ ہے، کیا یہ آئین سے مطابقت رکھتا ہے؟ صدر، وزیر اعظم، وفاقی وزرا اور ججز عہدہ سنبھالنے سے پہلے آئین پاکستان کا حلف لیتے ہیں۔ مخصوص مواد پھیلا کر اور گفتگو کر کے کیا وہ حلف کی خلاف ورزی کے مرتکب نہیں ہو رہے؟‘
خط میں انہوں نے مزید کہا کہ ’جناب صدر میڈیا میں رپورٹ ہوا کہ آپ نے میرے خلاف شکایت بطور ریفرنس کونسل کو بھجوائی، رپورٹ ہوا کہ شکایت وزیر اعظم کی ہدایت پر بھجوائی گئی لیکن مجھے ابھی تک ریفرنس کی نقل فراہم نہیں کی گئی۔‘
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے خط میں لکھا کہ ’میں صرف یہ تصور ہی کر سکتا ہوں کہ الزام لندن کی تین جائیدادوں کے بارے میں ہے، یہ جائیدادیں میرے، میری بیوی اور بچوں کے نام پر ہیں، جناب صدر میں رضا کارانہ طور پر جائیداد کی تفصیلات ظاہر کر رہا ہوں۔ ریفرنس میں کہا گیا کہ یہ بچوں کی جائیداد ہے تو میں کیسے مس کنڈکٹ کا مرتکب ہوا؟ سیکشن 116 کسی طرح بھی سزا کی شق نہیں، سیکشن 116(3)کسی بھی غلطی کو درست کرنے کی اجازت دیتا ہے۔‘
انھوں نے صدر پاکستان کو لکھے اپنے دوسرے خط میں کہا ہے کہ ’اگر میں نے اپنے ٹیکس ریٹرن میں اپنے خود کفیل بیوی بچوں کے اثاثوں کا ذکر نہ کر کے جرم کیا ہے تو کیا وزیر اعظم نے اپنے ٹیکس گوشواروں میں اپنی تمام بیویوں اور بچوں کے اثاثے ظاہر کیے ہیں؟ اگر کیے ہیں تو برائے مہربانی 
مجھے کاپی فراہم کی جائے۔
انہوں نے لکھا کہ ’مجھے اور میرے خاندان کو آدھا سچ بتا کر بدنیتی کی بنیاد پر نشانہ بنایا جا رہا ہے، حکومتی ارکان کا یہ طرز عمل میرے اور میرے اہل خانہ کے لیے پریشان کن ہے، میرے بچے تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک عرصے سے لندن میں مقیم اور وکالت کے شعبہ میں کام کر رہے ہیں، جائیدادیں بچوں کی ملکیت ہیں۔‘
جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے مطابق جائیدادوں کو کسی بھی طرح چھپانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی، یہ جائیدادیں کسی ٹرسٹ یا کسی آف شور کمپنی کی ملکیت نہیں۔ ’قانون کے تحت مجھ پر اپنے مالی معاملات کی تفصیلات ظاہر کرنے کی پابندی نہیں لیکن میں رضا کارانہ طور پر یہ ظاہر کر رہا ہوں۔‘
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا کہ ’میرے بزرگوں نے قائداعظم کے ساتھ شانہ بشانہ آزادی کی جنگ لڑی، بزرگوں کی عزت اور توقیر سے بڑی کوئی چیز نہیں اور میں اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے آئین کا تحفظ اور دفاع کروں گا۔
وکلا قیادت کا حتمی اعلان
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ کنرانی نے اعلان کیا ہے کہ 14 جون کو سپریم جوڈیشل کونسل میں اس ریفرنس کی سماعت کے موقعے پر وکلا سینہ سپر ہوں گے۔ اس مرتبہ شاہراہ دستور پر احتجاج نہیں کیا جائے گا بلکہ عدالتوں کو تالے لگائے جائیں گے، ملک بھر کی بارز کو اعتماد میں لے لیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’وکلا کے ردعمل کو روکنے کے لیے اس بار آنسو گیس نہیں بلکہ ایمبولینسیں منگوائی جائیں کیونکہ وکلا اب مرنے کے لیے بھی تیار ہیں، حکومت گولیاں آزمائے ہم سینہ آزمائیں گے۔‘ انہوں نے کہا کہ ‏جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کو آپ کے سامنے شکار کے طور پر پیش نہیں ہونے دیں گے۔
’چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ ریفرنس خود پھاڑ دیں ورنہ ریفرنس کو آپ کی عدالت میں آگ لگا دیں گے۔‘
واضح رہے کہ امان اللہ کنرانی کا تعلق پی ٹی آئی رہنما معروف قانون دان حامد خان گروپ سے ہے۔
پاکستان بارکونسل، چاروں صوبائی بارکونسلوں، کراچی، راولپنڈی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ بار سمیت ملک بھر کی چھوٹی بڑی وکلا تنظیموں نے صدر سپریم کورٹ بار کے اعلان کو تسلیم کر لیا اور ان کا ساتھ دینے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
معروف قانونی ماہر بابر ستار نے ایک ٹیویٹ میں جسٹس فائز عیسی کے خلاف ریفرنس کو بےبنیاد قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جسٹس عیسی ایک سیدھے انسان ہیں اور آرٹیکل 209 کا اطلاق ان پر نہیں ہوتا ہے۔  
دوسری جانب اپوزیشن سیاسی جماعتیں پہلے ہی اس ریفرنس کو مسترد کرتے ہوئے جسٹس فائز عیسیٰ کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کر چکی ہیں۔ عید کے بعد اپوزیشن احتجاج کے ایجنڈے میں بھی اس معاملہ کو متفقہ طور پر شامل کر لیا گیا ہے۔  پیپلز پارٹی رہنماوں کا کہنا ہے کہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری عید کے بعد پنجاب کی بار ایسوسی ایشنز سے خطاب کریں گے اور مقصد صرف عدالتی خود مختاری کی بحالی کے لیے تحریک کی کامیابی ہو گا۔
وزیراعظم عمران خان کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے کہ ہے کہ ’پاکستان تحریک انصاف ملک میں عدلیہ کی آزادی اور قانون کی حکمرانی قائم کرنے کی جدوجہد کا ہمیشہ سے ہر اول دستہ رہی اور رہے گی، جبکہ مسلم لیگ ن اداروں اور قانون کا احترام اپنی منشا اور سہولت کے مطابق کرتی ہے۔‘
تجزیہ کاروں کے مطابق اس صورتحال کے پیش نظر سب سے اہم ذمہ داری چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ کے کندھوں پر آن پڑی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ بطور سربراہ سپریم جوڈیشل کونسل اس ریفرنس کو مسترد کرتے ہیں یا ججوں کے خلاف کارروائی کے حق میں ہوں گے نئی 
تاریخ رقم کریں گے یا وہ بھی اصولوں پر سمجھوتے کو ترجیح دیں گے؟



No comments: