ٹیسٹوں کے دوران سب سے زیادہ نمونے سرگودھا، فیصل آباد، ننکانہ، چنیوٹ، ساہیوال اور جھنگ میں سامنے آئے،
سندھ کے بعد پنجاب میں بھی ایچ آئی وی کے مریضوں میں اضافہ ہونے لگا ہے، جن کی تعداد حکام کے مطابق 28 سو سے تجاوز کر گئی ہے۔ پاکستان ایڈز کنٹرول پروگرام کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ملک میں گذشتہ دو برس کے دوران ایچ آئی وی کے مریضوں میں مجموعی طور پر اضافہ ہوا ہے، تاہم اس اضافے کے باوجود پاکستان میں ایچ آئی وی کے مریضوں کی شرح 0.1 فیصد سے کم ہے جو اقوام متحدہ کے مقررہ حدف سے مطابقت رکھتی ہے۔ اقوام متحدہ کی عالمی سطح پر ہر ملک میں ایچ آئی وی مریضوں کی شرح زیادہ سے زیادہ 0.3 فیصد سے کم رکھی گئی ہے۔ پنجاب کے مختلف شہروں میں دس لاکھ سے زائد افراد سے خون کے نمونے حاصل کیے گئے۔اس دوران صوبے کے چھ اضلاع میں سب سے زیادہ نمونے مثبت پائے گئے، جہاں پھر اس مرض سے بچاؤ کی مہم چلائی گئی۔ رپورٹ کے مطابق صوبے بھر میں اب تک 28 سو سے زائد افراد میں ایچ آئی وی کی تشخیص ہوچکی ہے اور مزید ٹیسٹ کیے جارہے ہیں۔ اگرچہ ایچ آئی وی پر قابو پانے کے لیے اقدامات جاری ہیں لیکن ماہرین نے علاج سے زیادہ احتیاط کو لازمی قرار دیا ہے۔ اس مرض کے باعث تین سالوں میں 90 سے زائد ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔ مینیجر کمیونیکیشن ایڈز کنٹرول پروگرام پنجاب سجاد حفیظ نے انڈپینڈنٹ اردو سےگفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ دو سالوں کے دوران پنجاب بھر میں ایچ آئی وی سے متعلق شہریوں کے نمونے حاصل کیے گئے اور تین لاکھ 57 ہزار سے زائد شہریوں کے ٹیسٹ کیے گئے۔ ساڑھے تین لاکھ افراد کے ٹیسٹ 2017 جبکہ پونے سات لاکھ افراد کے خون سے نمونے 2018 میں لے کر ٹیسٹ کیے گئے۔ ایڈز کنٹرول پروگرام کے تحت لاری اڈوں، ہسپتالوں، جیلوں اور چوراہوں پر کیمپ لگائے گئے اور خون ٹیسٹ کیے گئے۔ ان میں 24 ہزار خواتین، 90 ہزار قیدی اور 40 ہزار خواجہ سراؤں سے خون کے نمونے لے کر ٹیسٹ کیے گئے۔
انہوں نے بتایا کہ دو سالوں کے دوران پنجاب کے 20 اضلاع میں خون ٹیسٹ کرکے اس مرض سے بچاؤ کے آگاہی کیمپ لگائے گئے۔ اس دوران 0.1 سے کم افراد میں ایچ آئی وی کی تشخیص ہوئی یعنی نمونے مثبت آئے۔
سجاد حفیظ نے بتایا کہ ٹیسٹوں کے دوران سب سے زیادہ نمونے سرگودھا، فیصل آباد، ننکانہ، چنیوٹ، ساہیوال اور جھنگ میں مثبت سامنے آئے جبکہ سرگودھا کے دو گاؤں کوٹ مومن اور کوٹ عمرانہ میں دو سو افراد اس مرض کا شکار نکلے۔
نہوں نے کہا کہ جن افراد کے خون کے نمونے مثبت آئے، ان میں 40 فیصد نشہ آور ٹیکوں کی سرنج بار بار استعمال کرنے والے شامل ہیں جبکہ خواجہ سراؤں اور جسم فروشی کے دھندے سے وابستہ خواتین میں بھی اس مرض کی تشخیص سامنے آئی۔ اسی لیے ٹیکسالی میں خواتین اور فاؤنٹین ہاؤس میں خواجہ سراؤں کے لیے علاج اور اس مرض سے بچاؤ کے لیے مستقل آگاہی کیمپ لگائے گئے ہیں۔
دوسری جانب لاہور میں خواجہ سراؤں کے لیے ایڈز کنٹرول سینٹر بھی قائم کردیا گیا ہے۔
ایچ آئی وی کیسے پھیلتا ہے؟
ایڈز کنٹرول پروگرام پنجاب کے سربراہ ڈاکٹر عاصم الطاف نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ایچ آئی وی لاعلاج مرض ہے اور اس کے پھیلنے کی تین بنیادی وجوہات ہیں۔
1۔ انتقال خون
اکثر اوقات بلڈ بینک سے ملنے والے خون میں احتیاطی تدابیر کا خیال نہیں رکھاجاتا۔ حجام سے شیو بنوانے کے دوران ایک ہی بلیڈ ایک سے زائد افراد پر استعمال ہونے سے یا ایک ہی سرنج کے ایک سے زائد افراد کے لیے یا بار بار استعمال کرنے سے یہ مرض پھیلتا ہے۔
2۔ جنسی تعلقات
جنسی تعلقات کے دوران ایچ آئی وی کا شکار مرد یا خواتین سے ایک دوسرے میں، ہم جنس پرستی کے دوران متاثرہ شخص سے یہ جراثیم دوسرے فرد میں منتقل ہوتے ہیں۔
3۔ متاثرہ ماں سے بچوں میں
ایچ آئی وی مریضہ خاتون کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں میں بھی منتقل ہوسکتا ہے۔ ڈاکٹر عاصم نے بتایا کہ اس مرض سے بچاؤ کے لیے واحد حل حفاظتی تدابیر ہیں۔
خصوصاً خون لگوانے سے پہلے ٹیسٹ کروایا جائے۔ شیو کرانے سے پہلے نیا بلیڈ استعمال کیا جائے۔ ایک بار استعمال ہونے والی سرنج کو دوبارہ استعمال نہ کیاجائے۔ جنسی تعلقات کے دوران صفائی اور کنڈوم استعمال کیا جائے۔ جسمانی طور پر قربت کم سے کم ہو۔ مریضہ خاتون کو بچے کی پیدائش سے پہلے حکومت کی طرف سے مفت ملنے والا انجکشن لگوانا ضروری ہے، جس کے استعمال سے یہ بیماری ماں سے بچوں میں منتقل نہیں ہوتی۔
سربراہ ایڈز کنٹرول پروگرام کے مطابق شوگر، بلڈ پریشر یا ہیپاٹائٹس کی طرح اس مرض کا علاج تو ممکن نہیں لیکن ادویات کے مسلسل استعمال سے اس کے اثرات پر قابو ضرور پایا جاسکتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ کئی مریض 15 سال تک ادویات کے استعمال سے زندگی گزار رہے ہیں۔
ایچ آئی وی سے بچاؤ کے اقدامات
ادویات اور طبی آلات ساز کمپنیوں کی تنظیم پاکستان فارماسوٹیکل مینو فیکچرز ایسوسی ایشن اور ایڈز کنٹرول پروگرام کے درمیان معاہدہ طے پایا ہے کہ جولائی سے ایسی سرنجیں تیار کی جائیں گی جو صرف ایک ہی بار استعمال ہوسکیں گی جبکہ سرکاری ہسپتالوں میں آگاہی کیمپ اور مفت ادویات کی فراہمی یقینی بنائی جارہی ہے۔
پنجاب میں 51 ہزار حجام رجسٹرڈ کیے گئے ہیں اور حکام کے مطابق ایک سے زائد بار بلیڈ استعمال کرنے والے باربر کو جرمانے کیے جائیں گے۔
واضح رہے کہ سندھ میں گزشتہ کچھ ہی عرصے کے دوران سینکڑوں افراد اس مرض کا شکار ہوچکے ہیں۔ اگرچہ پاکستان میں ابھی تک اس مرض کا پھیلاؤ خطرناک تناسب تک نہیں پہنچا لیکن بڑھتا ضرور جا رہا ہے، اس لیے حفاظتی اقدامات ناگزیر ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں جنوبی امریکا اور مغربی افریقہ میں ایچ آئی وی کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ نائجیریا میں 30 فیصد سے زیادہ آبادی اس مرض کا شکار ہے۔ پاکستان میں ابھی تک ایڈز کا مرض دنیا کے کم ترین تناسب پر ہے جبکہ بھارت میں بھی ایڈز کے مریضوں کا تناسب پاکستان سے زیادہ ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان کو اس مہلک مرض سے بچاؤ کے لیے ترجیحی بنیادوں پر حفاظتی اقدامات کرنا ہوں گے۔ خاص طور پر دوسرے ممالک سے آنے والوں کے ایئر پورٹس پر ٹیسٹ کرانے کو یقینی بنانا ہوگا کیونکہ اب تک یہاں تناسب کم ضرور ہے لیکن اگر موثر اقدامات نہ ہوئے تو اس شرح میں اضافے کا خدشہ ہے۔
No comments:
Post a Comment