70 سالہ میمی بی بی گذشتہ تین عشروں سے ضلع خیبر کی تحصیل جمرود کے ایک غار میں رہائش پذیر ہیں۔ ان کی روزمرہ زندگی پر ایک نظر
اکیسوی صدی میں جہاں لوگوں کو اپنے گھروں میں ہی ہر طرح کی آسائشوں بھری زندگی میسر ہوتی ہے، وہیں پر ضلع خیبر کی تحصیل جمرود کے کچھ علاقوں میں لوگ آج بھی غاروں میں رہنے پر مجبور ہیں، جہاں نہ پانی ہے اور نہ ہی کھانا پکانے کو گیس میسر ہے۔
غاروں کی زندگی کیسی ہوتی ہے؟ یہ جاننے کے لیے انہی غاروں میں رہنے والی ایک 70 سالہ بزرگ خاتون میمی بی بی کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ جمرود شہر سے باہر کچھ کلومیٹر کی دوری پر موجود یہ علاقہ ’گودر‘ کہلاتا ہے، جہاں جانے کے لیے آپ کو کافی پیدل سفر کرنا پڑتا ہے۔
میمی بی بی کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ ان کی بیٹیاں شادی شدہ ہیں اور وہ اپنی بیوہ بہو اور پوتے پوتیوں کے ساتھ اس غار میں گذشتہ 30 سال سے رہائش پذیر ہیں۔ 30 سال پہلے وہ تیرہ کے علاقے سے یہاں آئی تھیں اور پھر یہیں کی ہوکر رہ گئیں۔
میمی کے خاندان کے باقی افراد میں ان کے دیور اور اس کا خاندان ان کے غار کے قریب رہتے ہیں۔ان کے دیور نور شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا: ’ہمارا تعلق کوکی خیل قوم سے ہے اور ہمارے آبا و اجداد تیرہ میں رہتے تھے لیکن اب ہم یہاں 30 سال سے رہائش پزیر ہیں۔ ہمارے پاس بجلی کا ٹرانسفارمر تو ہے لیکن ان میں بجلی نہیں ھوتی۔ ہم نے خود پیسے جمع کرکے یہ اپنا ٹرانسفارمر لگایا جس میں آدھا گھنٹہ بجلی آتی ہے اور پھر دس گھنٹے نہیں ہوتی۔‘
میمی بی بی کا کہنا تھا: ’ہمارے پاس نہ تو پانی ہے اور نا بجلی۔ ہم شمسی طریقے سے بجلی حاصل کرکے غار میں ایک بلب جلا لیتے ہیں، جس کی روشنی میں بیٹھ کر میرے پوتے اور پوتیاں سکول کا کام کر لیتے ہیں۔ کھانا پکانے کے لیے ہم گوبر سے بنے اوپلوں کا استعمال کرتے ہیں۔ میں اپنے گھر میں خود ہی گوبر سے اوپلے تیار کرتی ہوں، جس کی مدد سے کھانا بن جاتا ہے۔‘
60 سالہ موری گلا، میمی بی بی کی دیورانی ہیں، انہوں نے انڈپیندنٹ اردو کو بتایا: ’ہم دونوں خاندان 30 سالوں سے یہیں رہتے ہیں۔ میمی کا اکلوتا جوان بیٹا مرگیا لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری اور آج دن تک بہادری سے حالات کا مقابلہ کر رہی ہے۔ وہ خود باہر جا کر دور دراز پہاڑوں سے پانی کے مٹکے بھر کر لاتی ہیں لیکن اپنے پوتے اور پوتیوں سے کام نہیں کرواتی تاکہ وہ اپنے سکول کا کام کرسکیں۔ انہوں نے اپنے سب پوتے پوتیوں کو سرکاری سکول میں داخل کروایا ہوا ہے کیونکہ ان کو نجی سکولوں میں پڑھانے کی حیثیت نہیں رکھتیں۔
No comments:
Post a Comment