Wednesday, June 26, 2019

آل پارٹیز کانفرنس:’حکومت ملکی سلامتی کے لیے خطرہ ہے‘

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی سربراہی میں منعقد ہونے والی اس آل پارٹیز کانفرنس نے پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے ’ملکی سلامتی کے لیے خطرہ‘ قرار دیا۔
اسلام آباد میں منعقدہ اس کانفرنس میں پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کے علاوہ عوامی نیشنل پارٹی، عوامی وطن پارٹی اور پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے وفد بھی شریک ہوئے۔
مولانا فضل الرحمان نے اے پی سی میں اپنی تجاویز رکھتے ہوئے کہا کہ الیکشن کا ایک سال مکمل ہونے پر 25 جولائی کو یومِ سیاہ منایا جائے لیکن ساتھ ہی انھوں نے اپوزیشن کے تمام ارکان کے استعفے جمع کرنے کی بھی تجویز دی۔
اس بارے میں صحافی ایم بی سومرو کا کہنا تھا: ’اس وقت پنجاب میں مسلم لیگ نواز کے سب سے زیادہ ارکان ہیں۔ سندھ میں اپنے ارکان کو استعفیٰ دینے کے لیے آمادہ کرنا پیپلز پارٹی کی حکومت کے لیے مشکل ہو گا اور وہ خود بھی اس بارے میں ہزار بار سوچیں گے۔‘
ان کے مطابق ایک بات جس پر سب متفق ہوسکتے ہیں وہ 25 جولائی کو یومِ سیاہ منانے کی تجویز ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے تجویز رکھی گئی کہ اگر فوری طور پر اسمبلی میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکتے تو سینیٹ چییرمین صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ پیش کیا جا سکتا ہے۔
تاہم ایم بی سومرو کہتے ہیں کہ ’سینیٹ چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ لانا آسان نہیں ہوگا کیونکہ اس وقت ایک انتہائی طاقتور لابی ان کی پشت پناہی کر رہی ہے۔

آّل پارٹیز کانفرنس کے اعلامیے کا متن

اس کانفرنس کے اختتام پر جو اعلامیہ جاری کیا گیا اس میں حکومت اور اس کی کارکردگی پر کھلے لفظوں میں تنقید تو کی گئی لیکن اپوزیشن کی جانب سے کسی قابلِ عمل اقدام کا اعلان اس میں موجود نہیں تھا۔
اسی کانفرنس میں پیش کی گئی 25 جولائی کو یومِ سیاہ منانے اور اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کی تجاویز کا بھی اس اعلامیے میں کوئی نام و نشان نہ تھا۔
کسی قابل عمل اقدام کی جگہ اعلامیے میں کہا گیا کہ تمام جماعتوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ موجودہ حکومت کے فیصلے ملکی سلامتی، خود مختاری اور بقا کے لیے خطرہ بن چکے ہیں اور نئے ٹیکسوں نے ملک میں کاروبار کی سانس روک دی ہے۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ موجودہ حکومت نے 11 ماہ میں اپنی نااہلی پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے اور ملک کا ہر شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے۔
اعلامیے کے مطابق ’غربت اور افلاس کی صورتحال عوامی انقلاب کا راستہ ہموار کرتی دکھائی دیتی ہے جبکہ بیرونی قرضوں کا سیلاب اور معاشی اداروں کی بدنظمی معیشت کو دیوالیہ کرنے کو ہے۔‘

’بلاول کی شرکت پر قیاس آرائیاں‘

بدھ کی صبح کانفرنس سے قبل یہ قیاس آرائیاں عروج پر تھیں کہ حزبِ مخالف کی کون سی جماعت اس کانفرنس کا حصہ بنے گی، شُرکا کا ایجنڈا کیا ہوگا اور کیا حکومت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کو ترجیح دی جایے گی یا نہیں۔
سب سے پہلے بلاول بھٹو زرداری کی شرکت کے حوالے سے سوالات اٹھے اور ایسا تاثر دیا گیا وہ شاید بجٹ اجلاس کی وجہ سے اے پی سی میں شرکت نہیں کر پائیں گے لیکن بلاول نے اجلاس میں شرکت کے بعد پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 'میں نے مولانا فضل الرحمان کو زبان دی ہے کہ میں اے پی سی میں شریک ہوں گا۔'
سینیئر صحافی ایم بی سومرو کے مطابق میڈیا کی قیاس آرائیاں بےوجہ نہیں تھیں۔
’ایک روز پہلے پیپلز پارٹی نے اے پی سی میں شرکت کرنے والے وفد کا اعلان کیا تھا جس میں بلاول کا نام نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سوالات اٹھنا شروع ہو گئے کہ آیا وہ اے پی سی میں شریک ہوں گے بھی یا نہیں۔‘
اپوزیشن جماعتوں کے لیے اس کانفرنس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے صدر اختر مینگل کی عدم شرکت ایک بڑا دھچکا رہی جنھوں نے مولانا فضل الرحمان کے صاحبزادے اسد محمود کو لکھے ایک خط کے ذریعے کانفرنس میں شرکت سے پہلے ہی معذرت کر لی تھی۔
تاہم بلاول نے پارلیمنٹ ہاؤس سے نکلتے ہوئے کہا کہ ’اختر مینگل کے سنجیدہ مسائل ہیں جو اگر حل نہیں ہوئے تو وہ اس بجٹ کو ووٹ نہیں دیں گے۔‘
لیکن پھر کچھ دیر بعد وزیرِ اعظم ہاؤس سے خبر آئی کہ بی این پی مینگل کے ارکان کا ایک وفد اختر مینگل کی سربراہی میں وزیرِ اعظم عمران خان سے ملاقات کے لیے پہنچا ہے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق اختر مینگل نے اپنے چھ نکات وزیرِ اعظم کے سامنے رکھے جبکہ سرکاری اعلامیے کے مطابق ’گذشتہ دس ماہ میں جو مشکلات سامنے آئی ہیں ان کے حل کے لیے طریقہ کار مرتب کر لیا گیا۔
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-48767829

No comments: