Saturday, May 25, 2019

چیئرمین نیب ویڈیو سکینڈل کی خاتون اپنے الزام پر قائم - طیبہ فاروق کون ہیں؟

قومی احتساب بیورو کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کی ان کے دفتر میں طیبہ فاروق نامی خاتون سے مبینہ غیر اخلاقی گفتگو پر مبنی ویڈیو سکینڈل کے اثرات گہرے ہونے لگے ہیں۔
ایک نجی چینل نیوز ون پر جمعرات کو متنازع ویڈیو نشر ہونے کے بعد سیاسی حلقوں میں ہلچل مچ گئی۔ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف، چیئرمین نیب کے حق میں وضاحتیں دے رہی ہے تو حزب اختلاف کی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی معاملے کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
نیب نے متنازع ویڈیو کو منفی پروپیگنڈا قرار دے کر مسترد کر دیا ہے لیکن مبینہ ویڈیو میں موجود خاتون طیبہ فاروق اپنے موقف پر قائم ہیں۔
طیبہ فاروق نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں الزام عائد کیا کہ چیئرمین نیب نے ان کے خاوند فاروق نول کی رہائی کے لیے ان سے ناجائز تعلق قائم کرنے کی کوشش کی اور معاملے کو منظرعام پر لانے کی پاداش میں ایک ہی دن (21 مئی) میں اسلام آباد کے تھانہ مارگلہ میں مختلف نوعیت کے تین مقدمات درج کرا دیے گئے۔
طیبہ نے اپنے آڈیو پیغام میں دعویٰ کیا کہ جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب نامعلوم افراد نے ان کے مکان میں گھسنے کی کوششش کی، جس کے بعد وہ گھر سے بھاگ کر نامعلوم مقام پر پہنچیں۔
طیبہ کے مطابق ان کی جان کو خطرہ ہے اور انہیں فون پر بھی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
طیبہ فاروق کون ہیں؟
طیبہ کا کہنا ہے کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال سے ان کی پہلی ملاقات لاپتہ افراد کمیشن میں ان کے شوہر کے ساتھ ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے شوہر بزنس مین اور وہ خود قانون کی طالبہ ہیں۔ ان کے شوہر کی چچی گم شدہ افراد میں شامل ہیں اور وہ اپنے شوہر کے ہمراہ ان کی چچی کی بازیابی کے لیے مسنگ پرسن کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال سے ملنے گئی تھیں۔
طیبہ نے الزام لگایا کہ ملاقات کے دوران جسٹس (ر) جاوید اقبال نے ان کے شوہر کی موجودگی میں ان کا فون نمبر لیا اور بعد ازاں انہیں ہراساں کرتے رہے۔

طیبہ فاروق کون ہیں؟
طیبہ کا کہنا ہے کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال سے ان کی پہلی ملاقات لاپتہ افراد کمیشن میں ان کے شوہر کے ساتھ ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے شوہر بزنس مین اور وہ خود قانون کی طالبہ ہیں۔ ان کے شوہر کی چچی گم شدہ افراد میں شامل ہیں اور وہ اپنے شوہر کے ہمراہ ان کی چچی کی بازیابی کے لیے مسنگ پرسن کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال سے ملنے گئی تھیں۔
طیبہ نے الزام لگایا کہ ملاقات کے دوران جسٹس (ر) جاوید اقبال نے ان کے شوہر کی موجودگی میں ان کا فون نمبر لیا اور بعد ازاں انہیں ہراساں کرتے رہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ چیئرمین نیب انہیں اپنے گھر اور اسلام آباد کلب میں ملنے کا کہتے رہے لیکن جب انہوں نے غیراخلاقی مطالبات نہیں مانے تو ان پر مقدمات قائم کیے گئے۔
طیبہ نے کہا: ’میں نے یا میرے شوہر نے کبھی کرپشن کی اور نہ دھوکہ دیا۔ مجھے شوہر سمیت نامعلوم وجوہات کی بنا پر گرفتار کیا گیا۔ 15 جنوری 2019 کی صبح میرے شوہر کو نیب نے اسلام آباد سے حراست میں لیا۔ اسی رات نیب نے رات ساڑھے 12 بجے مجھے بھی پکڑ لیا۔‘
’ہمیں موٹر وے کے ذریعے نیب لاہور لے جایا گیا اور اگلے دن سہ پہر چار بجے ہمیں عدالت میں پیش کیا گیا۔ مجھے نیب عدالت نے جیل بھجوا دیا اور دو مئی کو ضمانت پر میری رہائی ہوئی۔‘
طیبہ فاروق کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر جیل میں ہیں اور انہوں نے اپنے شوہر کی رہائی کے لیے تنگ آ کر زبان کھولی ہے۔
طیبہ اورفاروق نول کے خلاف پریس کانفرنس
متنازع ویڈیو سامنے آنے کے بعد نیب نے ایک پریس ریلیز میں کہا تھا کہ ویڈیو کے پیچھے ایک بلیک میلر گروہ ہے۔
جمعے کو لاہور پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اس ’گروہ‘ کے مبینہ متاثرین سردار اعظم رشید، صبا حامد، شمشاد جہاں سامنے آئے اور الزام لگایا کہ طیبہ اور فاروق نول چیئرمین نیب کی وڈیو بنانے والے گروہ کے کارندے ہیں۔
ان کا الزام تھا کہ گروہ میں خواتین سمیت پولیس، آئی بی، سی آئی اے، ایف آئی اے سمیت دیگر اداروں کے افسران ملوث ہیں اور یہ گروہ اغوا، زمینوں پر قبضے اور جعلی ویزے پر بیرون ملک بھیجنے کا کام کرتا ہے۔
سردار اعظم رشید نے کہا کہ یہ گروہ لوگوں سے اب تک کروڑوں کا فراڈ کرچکا ہے اور متاثرہ افراد کے خلاف ایف آئی آردرج کرا کے بلیک میل کرتا ہے یا پھر ان کے بچوں کو اغوا کے بعد ڈرا کر ماہانہ بنیادوں پر لاکھوں روپے ہتھیاتا ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ طیبہ اور فاروق جدید سسٹم کے ذریعے واٹس ایپ ویڈیوز بنا کر لوگوں کو بلیک میل کرتے ہیں۔
ان کا دعویٰ تھا کہ چیئرمین نیب کی وڈیو جعلی ہے اور انہیں ٹریپ کیا گیا، اس گروہ کے مختلف سیاست دانوں کے ساتھ بھی تعلقات ہیں۔
پریس کانفرنس کو ملک کے تقریباً تمام بڑے چینلز نے غیر متوقع طور پر لائیو نشر کیا۔
سکینڈل کے سیاسی اثرات
نیب جیسے ادارے کے سربراہ سے متعلق مبینہ غیر اخلاقی ویڈیو نشر کرنے پر وزیراعظم عمران خان نے اپنے مشیر اور نیوز ون کے مالک طاہر اے خان کو عہدے سے ہٹانے کا اعلان کیا۔
وفاقی مشیر اطلاعات ونشریات فردوس عاشق اعوان نے بھی میڈیا سے گفتگو میں چیئرمین نیب کا بھر پور دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ملکی ادارے کے سربراہ پر الزامات جھوٹ ہیں۔
دوسری جانب مسلم لیگ ن کے رہنماؤں شاہد خاقان عباسی ودیگر نے جمعے کی دوپہر پریس کانفرنس میں اس سکینڈل کی انکوائری کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنانے کا مطالبہ کیا اور پیر کو پارلیمانی رہنما خواجہ آصف کی جانب سے کمیٹی تشکیل دینے کے لیے پارلیمنٹ میں قرارداد جمع کرانے کا اعلان کیا۔
اسی طرح پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے معاملے کو حساس قراردے کر متنازع ویڈیو کا فورینزک معائنہ کرانے کے بعد قانونی چارہ جوئی کا مطالبہ کیا۔
سوشل میڈیا ٹرینڈ
سوشل میڈیا پر جمعے کو بھی اس معاملے کا خوب چرچا رہا اور ٹوئٹر پرChairmanNabScandal، #NABChairmanPhoneLeaks# کے نام سے ٹاپ ٹرینڈ چلتے رہے۔
فیس بک پربیشتر افراد کے سٹیٹس بھی اسی واقعے سے متعلق تھے، جن میں شہریوں نے مختلف رائے کا اظہار کیا۔ کسی نے چیئرمین نیب کا دفاع کیا تو کسی نے خاتون سے ہمدردی دکھاتے ہوئے چیئرمین کے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔
اس تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی صورتحال میں نیب کا اگلا قدم انتہائی اہم مانا جا رہا ہے۔

No comments: