سیاسی حالات کے مزاج اِن دنوں سخت برہم ہیں اور اقتدار کا تیز رفتار کٹاؤ ایک
غیر یقینی مستقبل کی خبر دے رہا ہے۔ عمران خان دیکھنے میں وزیرِاعظم ہیں مگر حکمرانی کا استحقاق تیزی سے کھوتے جا رہے ہیں۔ اُنہوں نے جو خواب دیکھے تھے اور پاکستان کے عوام کو دکھائے تھے، وہ یکے بعد دیگرے چکنا چور ہوتے جا رہے ہیں۔ اُن کی مردم شناسی کے بڑے بڑے دعوے غلط ثابت ہوئے۔ اُنہیں فی البدیہہ تقریر کرنے کا جو زعم تھا، اُس نے ایران کے دورے کے موقع پر جو گُل کھلائے ہیں، اُس کے چرچے غیر ملکی اخبارات اور نشریاتی اداروں میں ہو رہے ہیں۔ وفاقی کابینہ میں جس ڈرامائی انداز سے ردوبدل کیا گیا، اُس نے باہمی اعتماد کی ساری بنیادیں ڈھا دی ہیں۔ معیشت کا پہیہ رک گیا ہے، محاصل میں پانچ سو ارب روپے کی کمی دیکھنے میں آ رہی ہے، جس کے باعث عوام کے لئے سکھ کا سانس لینا دوبھر ہو گیا ہے۔ اعلیٰ تعلیم جس کے ذریعے معاشرہ توانائی اور افکار کی تازگی حاصل کرتا ہے، اُس پر اُٹھنے والے اخراجات میں پچاس فیصد تخفیف کر دی گئی ہے۔ ترقیاتی منصوبوں میں حیرت انگیز تخفیف سے بےروزگاری کا طوفان اُمڈ آنے کی تمام عالمی مالیاتی اداروں نے وارننگ دی ہے۔ عام تاثر یہی اُبھرتا جا رہا ہے کہ حکومت میں ایسے لوگ آ گئے ہیں جو ریاست کے اُمور چلانے کا تجربہ رکھتے ہیں نہ عوام کو زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کی صلاحیت، چنانچہ تمام صاحبانِ نظر اِس امر پر متفق پائے جاتے ہیں کہ سیاسی نظام کو پٹڑی سے اُترنے اور جمہوریت کو بےوقار نہ ہونے دیا جائے۔
ہماری تاریخ میں یہ ہوتا آیا ہے کہ جب ملت پر برا وقت آیا، تو لایعنی اور ذہنی انتشار پھیلا دینے والی بحثیں شروع کر دی گئیں۔ کہتے ہیں کہ جس وقت ہلاکو خاں بغداد میں مسلمانوں کا قتلِ عام کر رہا تھا تو بعض علما کے مابین یہ مباحثہ جاری تھا کہ کوّا حلال ہے یا حرام۔ یہی سب کچھ آج پاکستان میں وقوع پزیر ہو رہا ہے۔ اِس آن جب عوام کے مسائل نہایت گمبھیر ہو چکے ہیں، قومی سلامتی کو ہولناک چیلنجز درپیش ہیں اور پورا نظامِ حکومت شدید ابتری سے دوچار ہے، تو پس پردہ عناصر نے ’اسلامی صدارتی نظام‘ کی بحث چھیڑ دی ہے۔ پارلیمانی نظام کی تباہ کاریوں اور صدارتی نظام کے فیوض وبرکات کے بارے میں فصاحت و بلاغت کے دریا بہائے جا رہے ہیں۔ ہمارے آج کے بقراط یہ ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں کہ ہماری زیادہ تر مشکلات پارلیمانی طرزِ حکومت کی پیدا کردہ ہیں، جس میں اربابِ حکومت کو قدم قدم پر ارکانِ پارلیمان کی حمایت حاصل کرنے کے لئے سمجھوتے اور میرٹ پر سودے کرنا پڑتے ہیں۔ اِس طرح نااہلی، بدانتظامی اور بدعنوانی کی جڑیں گہری ہوتی جاتی ہیں اور کوئی بڑا کارنامہ سرانجام دینا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ ہماری خوش نصیبی ملاحظہ کیجئے کہ پارلیمانی نظام کے حق میں شیخ رشید احمد میدان میں اُترے ہیں۔
اِس ذہنی کھینچا تانی میں لوگوں کو یہ ادراک نہیں ہو پا رہا کہ ملک میں نصف صدارتی نظام تو نافذ ہو چکا ہے۔ پارلیمانی نظام کے اندر صدارتی نظام نے اپنے پنجے گاڑ دیے ہیں اور گاڑتا چلا جا رہا ہے۔ وزیرِاعظم عمران خان کی کابینہ میں سترہ کے لگ بھگ غیر منتخب اور ٹیکنو کریٹ براجمان ہیں اور اُنہی کو اہم وزارتیں سونپی گئی ہیں۔ یہ بات زبانِ زدعام وخواص ہے کہ جناب جہانگیر ترین جن کو عدالتِ عظمیٰ نے خائن قرار دے کر زندگی بھر کے لئے حکومتی معاملات سے بےدخل کر دیا ہے، جناب اسد عمر کو کابینہ سے باہر کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ یہ بھی شنید ہے کہ اُن کے ساتھ وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی اور پنجاب کے گورنر جناب چوہدری محمد سرور کا فیصلہ کن اقتدار کا میچ ہونے والا ہے۔ اِس رسہ کشی میں پارلیمان غیر مؤثر ہوتی جا رہی ہے اور وزراء کی حیثیت ناقابلِ بیان۔ تمام اختیارات وزیرِاعظم کی ذات میں مرتکز ہو گئے ہیں جو کسی سے مشاورت کے بغیر اختیارات استعمال کر رہے ہیں۔ اُنہوں نے تین صوبوں کے معاملات بھی اپنی تحویل میں لے رکھے ہیں اور پنجاب اور خیبر پختونخوا میں جو وزرائے اعلیٰ تعینات کئے ہیں، وہ حکومت چلانے کی صلاحیت سے محروم دکھائی دیتے ہیں۔ پارلیمانی طرزِ حکومت میں پارلیمان بالادست ہوتی ہے، جبکہ صدارتی نظامِ حکومت میں صدرِ مملکت کو لامحدود اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ اب ایسے حالات پیدا کر دیے گئے ہیں جن میں وزیرِاعظم کی ذات میں سارے اختیارات مرتکز ہو گئے ہیں اور منتخب اسمبلیاں ہنگامہ آرائی کی زد میں ہیں۔ اُن میں قانون سازی ہو رہی ہے نہ ملکی مسائل سنجیدگی سے زیرِ بحث آتے ہیں۔ یہ ایک خطرناک صورتحال ہے، جس میں کسی وقت بھی سیاسی نظام کی بساط لپیٹی جا سکتی ہے۔
وہ عناصر جو ’اعلیٰ کارکردگی‘ کے نام پر اِس ملک میں صدارتی نظام پوری طاقت کے ساتھ نافذ کرنا چاہتے ہیں، اُنہوں نے سیاسی عمل میں نقب لگا دی ہے اور وہ آئندہ ایسے اقدامات کرتے چلے جائیں گے جن کے ذریعے سیاسی جماعتیں عوام کے اندر اپنی اہمیت کھو بیٹھیں گی اور آپس میں دست وگریباں ہونے کی وجہ سے غیر سیاسی عناصر کو فتحیاب ہونے کا موقع فراہم کریں گی۔ عوام بھی اِس نظام کے خلاف بغاوت پر اُتر آئیں گے جو اُنہیں ’ڈلیور‘ کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اِن حالات میں قومی اکابرین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سیاسی مفاہمت کی فضا تیار کریں، باہمی احترام، رواداری اور کشادہ ظرفی کو فروغ دیں اور صدارتی نظام کا راستہ روکنے کے لئے مجاہدانہ کردار اَدا کریں۔ یہ جو ریفرنڈم کرانے کی تجاویز دی جا رہی ہیں، وہ پاکستان کی سالمیت کے لیے سمِ قاتل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ خیبر پختونخوا کے گورنر شاہ فرمان صاحب نے جس دستور پر حلف اُٹھایا ہے وہ پارلیمانی نظام کی ضمانت دیتا ہے۔ اُنہیں صدارتی نظام کے حق میں بیانات دینے سے پہلے اِس پہلو پر غور کرنا چاہئے کہ وہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کے مرتکب تو نہیں ہو رہے۔ صدر ایوب خاں نے جو صدارتی نظام عوام پر زبردستی مسلط کیا تھا، اُس کے باعث پاکستان دولخت ہو گیا اور ہم ہاتھ ملتے رہ گئے تھے۔ تاریخ سے نابلد لوگ ہوسِ اقتدار میں ایک بار پھر پاکستان کو اُسی خوفناک تجربے سے گزارنا چاہتے ہیں، اُس کے خلاف پوری قوم کو تمام تر طاقت کے ساتھ مزاحمت کرنا ہو گی اور جمہوری عمل کو طاقتور بنانے کے لئے فروعی باتوں اور تقسیم کرنے والے رجحانات سے بہت اوپر اُٹھنا ہو گا۔
No comments:
Post a Comment