محمد حنیف - صحافی و تجزیہ کار
میں تقریر سن رہا تھا اور دل ہی دل میں عش عش کر رہا تھا۔ پہلے سے بھی بڑے بڑے خانوں والی پگڑی، تقریر کے آغاز میں ہی ایک کتاب کا تذکرہ جو انھوں نے 22 سال پہلے قبائلی علاقوں کا سفر کرکے لکھی تھی، قبائلی علاقوں کی پسماندگی کا دردمندانہ ذکر اور اس کے بعد ان کی زبان پھسل گئی۔
جب عمران خان نے کہا بلاول بھٹو صاحبہ، تو میں نے کہا یہ وہی جرمنی، جاپان ٹائپ ’سلپ آف ٹنگ‘ ہے لیکن میں غلط تھا کیونکہ عمران خان نے بلاول بھٹو صاحبہ کہہ کر ایک وقفہ دیا۔ یہ وہ وقفہ ہے جو خطیب حضرات، سٹیج کے کامیڈین اور شاعر لوگ اس وقت دیتے ہیں جب وہ داد کی توقع کر رہے ہوتے ہیں۔
اور عمران خان کو خوب داد ملی۔ تالیوں اور نعروں کی گونج میں مجھ پر انکشاف ہوا کہ عمران خان کا اصلی روحانی استاد کون ہے۔
دھرنے کے دنوں کا ذکر ہے جب خان صاحب شامیں کنٹینر پر گزارا کرتے تھے اور دن میں کسی شہر کا طوفانی جلسہ بھی کر آتے تھے۔
لالہ موسیٰ کا جلسہ تھا۔ میں پنجاب میں پہلی دفعہ خان صاحب کا شو دیکھ رہا تھا۔ بڑی خلقت تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب شیخ رشید نے نیا نیا پی ٹی آئی کے جلسوں میں خطاب کرنا شروع کیا تھا۔ ان کا کام جلسے میں خان صاحب کے خطاب سے پہلے ماحول گرمانا ہوتا تھا۔
مجھے جلسے کی ایک تقریر یاد نہیں، بس ایک بات یاد رہ گئی جو انھوں نے بلاول بھٹو کے بارے میں کی تھی کہ بلاول میں ایک مینوفیکچرنگ فالٹ ہے، اس کے باپ کے پاس بہت پیسہ ہے اسے ٹھیک کرا لے، ویسے میں بھی ٹھیک کر سکتا ہوں۔ انھوں نے اس کے بعد ایک وقفہ دیا اور لالہ موسیٰ کی عوام نے انھیں مایوس نہیں کیا۔ تالیاں اور نعرے۔ ڈی جے نے بھی ماحول دیکھ کر ’صاف چلی، شفاف چلی‘ والا گانا لگا دیا۔
جلسے سے اسلام آباد واپسی پر جس گاڑی میں جگہ ملی اس میں عمران خان کی ہمشیرہ بھی تھیں اور وہ بہت آگ بگولا تھیں۔ اتنی گھٹیا تقریر، خان صاحب کے ساتھ بیٹھ کر اتنی گندی باتیں، کسی کو پتہ ہے پی ٹی آئی کے جلسوں میں کتنی خواتین آتی ہیں۔
صاف ظاہر ہے ہمشیرہ نے شاید زندگی میں شیخ رشید کی تقریر پہلے کبھی نہیں سنی تھی۔ میں نے دل ہی دل میں کہا کہ شیخ رشید کو بلایا ہے تو نعتیں تو نہیں سنائے گا وہی کرے گا جس کے لیے اسے بلایا تھا۔
گاڑی میں موجود باقی لوگوں سے ہمشیرہ نے وعدہ کیا کہ وہ بھائی کو سمجھائیں گی۔ لگتا ہے وہ یا تو سمجھانا بھول گئیں یا خان صاحب نے فیصلہ کر لیا کہ اب شیخ رشید کی شاگردی کرنی ہے۔
اپنے سیاسی سفر میں عمران خان نے بہت استاد ڈھونڈے ہیں۔ مرحوم جنرل حمید گل سے لے کر معراج محمد خان تک اور بیچ میں کوئی پیر، کوئی سیٹھ، کوئی مزدور یونین لیڈر۔ جہاں جہاں سے جو کچھ حاصل کر سکتے تھے، کرنے کی کوشش کی ہے۔
ان کے اس علمی سفر کی روداد بہت خوبصورتی اور دردمندی کے ساتھ مصروف اور محترم صحافی ہارون رشید گزشتہ دو دہائیوں سے اپنے کالموں میں بیان کرتے رہے ہیں لیکن شاید خان صاحب کو لگتا ہے کہ وہ اصل میں شیخ رشید کا ہاتھ پکڑ کر ہی منزل مقصود پر پہنچے ہیں۔
شیخ رشید کے پاس سب سے بڑا ہنر یہ ہے کہ کوئی کام چل رہا ہوں یا نہ زبان ضرور چلنی چاہیے۔ پاکستان کی ٹی وی صحافت کا ایک راز سب جانتے ہیں کہ موسم کوئی بھی ہو، مسئلہ کوئی بھی ہو، شیخ صاحب کو کیمرے کے سامنے بٹھا کر بس یہ پوچھ لیں کہ آپ آگے کیا دیکھ رہے ہیں تو پروگرام اٹھ جائے گا۔
آج کل ریلوے کے وزیر ہیں لیکن پھر بھی ٹی وی کے لیے وقت نکال لیتے ہیں۔ مجھے سال میں ایک دو دفعہ ٹرین میں سفر کرنا پڑتا ہے پچھلے کچھ برسوں سے خوشگوار سی حیرت ہوتی تھی کہ ٹرینیں زیادہ تر وقت پر آنے جانے لگی تھیں۔
پچھلے مہینے لاہور سے کراچی کے لیے ٹرین لینے کا ارادہ کیا، ٹکٹ لینے کے لیے دوست سے کہا تو اس نے کہا بھول جاؤ، تین دن سے افراتفری ہے کوئی ٹرین نہیں چل رہی۔ میں نے لاہور سٹیشن پر کام کرنے والے ایک صاحب کو فون کیا۔ انھوں نے کہا جس ٹرین نے پرسوں آنا تھا وہ بھی ابھی تک نہیں آئی تو جائے گی کہاں۔
پتہ چلا کہ تین دن پہلے ایک مال گاڑی پٹڑی سے اتر گئی تھی تب سے سب بند ہے۔ اسی دن شام کو کسی ٹی وی پر بیٹھے ہوئے ملک کے مستقبل کا حال بتا رہے تھے۔ دل نے کہا ٹرینیں چلیں نہ چلیں، شیخ رشید تو چل رہا ہے۔
اللہ نہ کرے خان صاحب کسی دن اپنے استاد کے پاس یہ سوال لے کر پہنچیں کہ ملک نہیں چل رہا۔ کیا کروں؟ شیخ صاحب سگار کا کش لے کر کہیں گے، مجھے دیکھو۔ پھر ان کے کان میں کوئی گندہ لطیفہ سنائیں گے۔
خان صاحب کو چاہیے عوام کو وہ لطیفہ سنا کر داد لینے سے پہلے اپنی ہمشیرہ سے پوچھ لیں، آخر اس ملک کی آدھی آبادی صاحبہ ہے۔
No comments:
Post a Comment