Tuesday, February 19, 2019

سعودی پیسے آنے سے پہلے گننا حقیقت پسندانہ سوچ نہیں: معاشی ماہرین

سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان پچھلے دو روز میں آٹھ یادداشتوں پر دستخط ہوئے ہیں جن کی مالیت
20 ارب ڈالرز سے زیادہ بتائی جا رہی ہے۔ لیکن یہ سرمایہ کاری پاکستان کے لیے کتنی کارگر ثابت ہوگی؟
سعودی عرب ایک ایسے وقت میں پاکستان میں سرمایہ لگا رہا ہے جب پاکستان کو معاشی معاونت کی سخت ضرورت ہے اور دوسری جانب انڈیا پاکستان کو بین الااقوامی سطح پر تنہا کرنا چاہتا ہے۔
لیکن اقتصادیات کے ماہرین اور اس پر کام کرنے والوں کے خیال میں پاکستان کو سرمایہ کاری کے اردگرد ہونے والے جشن سے ہٹ کر حقیقت پسندانہ سوچ کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مالیاتی امور پر لکھنے والے صحافی خرم حسین کے مطابق ’سعودی عرب کی طرف سے دیے گئے پیسوں کو ابھی سے گننا حقیقت پسندانہ سوچ نہیں ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ابھی اس ساری سرمایہ کاری کو زمین پر آنے میں سالوں لگ سکتے ہیں اور یہ ایک طویل مرحلہ ہے۔ ’دیکھیں یہ بات تو طے ہے کہ اس سرمایہ کاری سے پاکستان کو فائدہ تو ہوگا۔ پاکستان کو اس وقت آئل ریفائنری کی ضرورت بھی ہے اور گوادر میں اسے بنانے سے گوادر میں جاری دیگر پراجیکٹس کو تقویت ملے گی۔ لیکن یادداشتوں پر دستخط کرنا پہلا مرحلہ ہے۔ ابھی کئی سال تو صرف یہ دیکھنے میں لگ جائیں گے کہ اس ریفائنری کو بنانے کی کوئی کمرشل بنیاد بنانے کا کوئی جواز بھی ہے یا نہیں۔‘
سعودی عرب پاکستان میں کن کن شعبوں میں سرمایہ لگارہا ہے؟
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بورڈ آف انویسٹمنٹ کے چیئرمین ہارون شریف نے بتایا کہ بڑے پراجیکٹس کے حوالے سے ایک پّکی رقم بتانا مشکل ہوتا ہے۔ ’کیونکہ ابھی ان تمام پراجیکٹس کا تکنیکی معائنہ کیا جائیگا، آیا پراجیکٹ شروع کیا جاسکتا ہے یا نہیں اور اگر شروع کریں تو امکانات کیا ہیں۔‘
لیکن اس کے ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ سعودی عرب کی طرف سے پاکستان کو 20 ارب ڈالرز کا ایک راؤنڈ فِگر بتایا گیا ہے۔ ’جس میں آٹھ ارب ڈالرز بلوچستان کے شہر گوادر میں آئل ریفایئنری کے قیام کا حصہ ہے۔ اگر اس میں وہ پیٹروکیمیکل پلانٹ لگا دیتے ہیں یا ہائڈرو ٹریکر کا اضافہ کر دیتے ہیں تو قیمت مزید بڑھ جائے گی۔‘
انھوں نے کہا کہ بلوچستان میں آئل ریفائینری لگانے کے حوالے سے طویل میٹنگز اور ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ ’ابھی تو صرف اس حوالے سے یادداشتوں پر دستخط ہوئے ہیں لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ وہاں کوئی بھی سرمایہ کاری وہاں کے نمائندوں کو شامل کیے بغیر کی جاسکے۔‘
ہارون شریف نے بتایا کہ اسی طرح سعودی عرب چار ارب ڈالرز کا سرمایہ متبادل توانائی کے شعبے میں لگا رہا ہے۔’جس کے تحت وہ وِنڈ اور سولر پر پاکستان بھر میں کام کرنا چاہتے ہیں۔ تو یہ ایک نئی ٹیکنالوجی ہے جس کا ایک ہائبرڈ سسٹم بھی ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ آئل ریفائینری کے لیے سعودی کمپنی آرامکو ہے اور متبادل توانائی کے لیے ایکوا پاور ہے۔ ’ایکوا پاور اس وقت 12 ممالک میں کام کررہی ہے۔ تو یہ ایک تجربہ کار کمپنی ہے۔ تو دو بڑے پراجیکٹ تو یہ ہیں۔‘
بی او آئی چیئرمین ہارون شریف نے بتایا کہ ’باقی پیکج کے لیے شعبے شناخت کیے جا چکے ہیں لیکن اس کی پختہ رقم بتانا اس وقت مشکل ہے جیسے سعودی عرب اس وقت توانائی کے شعبے میں پراجیکٹ خریدنا چاہ رہا ہے۔ جیسے جیسے ان پراجیکٹس کی بولی لگے گی تو اس کے مطابق قیمت لگائی جائے گی۔‘
موجودہ پاور پلانٹ میں سرمایہ کاری
ہارون شریف نے بتایا کہ 12 ارب ڈالرز کے پیکج کے علاوہ، سعودی عرب پاکستان میں موجودہ پاور پلانٹس کے پراجیکٹ میں بھی سرمایہ لگانا چاہ رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’سعودی عرب ہمارے موجودہ پاور پلانٹز کو خریدنے میں دلچسپی لے رہا ہے۔ ان پاور پلانٹز کی پرائیواٹائزیشن کے ذریعے بولی لگے گی، پھر قیمت مختص ہوگی تو تب یہ دونوں اس پیکج کا حصہ ہوجائیں گے۔ اس کے بعد ہم پانچ ارب ڈالرز پر تکیہ کرسکیں گے۔ جس کے اندر معدنیات اور کان کنی کا شعبہ آجاتا ہے اور یہی رقم پھر غذائی تحفظ اور زراعت کے شعبے میں بھی لگائی جاسکے گی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’بنیادی طور پر ان پراجیکٹس کا کچھ حصہ براہِ راست سرمایہ کاری کے ذریعے ہوگا اور اچھی بات یہ ہے کہ باقی مکمل کمرشل سرمایہ کاری ہے، جس کا رِسک سعودی پاکستان میں لے رہے ہیں۔‘
سعودی عرب پاکستان میں سرمایہ کیوں لگارہا ہے؟
بی او آئی چئیر مین ہارون شریف نے کہا کہ ’سعودی عرب اچانک سے پاکستان میں سرمایہ نہیں لگا رہے، بلکہ یہ پچھلے پانچ ماہ کے مذاکرات کا حصہ ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہمیں (پاکستان کو) اس وقت بین الااقوامی سطح پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو اس سے ہمیں ہارڈ کرنسی ملتی ہے۔ دوسرا اس سے نئی ٹیکنالوجی متعارف ہوگی، توانائی میں موجودہ خسارے میں بہتری آئے گی، اور ملک کی برآمد میں بھی مددگار ثابت ہوگی۔‘
اس وقت پاکستان میں خطے میں موجود ممالک سرمایہ لگانا چاہ رہے ہیں۔ ہارون شریف نے کہا کہ چین تو پہلے سے ہی سرمایہ لگا رہا ہے لیکن ساتھ ہی عرب امارات، سعودی عرب، ملیشیا اور جنوبی کوریا بھی اس میں شامل ہوگئے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’تیل کی پیداوار کرنے والے ممالک میں خود مختار دولت کا فنڈ (سوورین ویلتھ فنڈ) موجود ہوتا ہے۔ ان کی حکمتِ عملی ہوتی ہے کہ ایک دو ترقی یافتہ ممالک میں سرمایہ لگانے کے بجائے اس کو دنیا کے مختلف حصوں میں پھیلا دیں۔ ہماری خوش نصیبی یہ ہے کہ وزیرِ اعظم کے دوروں کی وجہ سے سعودی عرب نے پاکستان کو بھی ان پانچ ممالک کا حصہ بنا لیا ہے جہاں وہ سرمایہ لگانا چاہ رہے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ سعودی عرب کے لیے پاکستان ایک اہم ملک ہے۔ ’کیونکہ سعودی عرب کے پاس سرپلس پیسے ہیں، جو وہ خطے میں لگانا چاہتے ہیں۔ یہ ظاہری سی بات ہے کہ کوئی بھی ملک خطے میں اپنا اثر و رسوخ رکھنا چاہتا ہے۔ اور معاشی سرمایہ کاری اس اثر و رسوخ کو برقرار رکھنے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔ تو سعودی عرب ایک سوچے سمجھے طریقے سے جنوبی ایشیا میں سرمایہ لگارہا ہے۔‘
سعودی ولی عہد نے ایسے وقت میں پاکستان کا دورہ کیا جب پاکستان معاشی طور پر اپنے قریب ترین اتحادیوں کی مدد چاہتا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان بہت ہی مضبوط عسکری تعلقات ہیں۔ اس وقت دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی ضرورت بھی ہے۔ جہاں عمران خان قریب ترین اتحادیوں کی معاشی مدد چاہتے ہیں وہیں محمد بن سلمان یمن میں ہونے والی جنگ اور صحافی جمال خاشقجی کی اپنے ہی سفارتخانے میں قتل کے بعد دنیا بھر میں سعودی عرب کا ایک اچھا رُخ دکھانا چاہتے ہیں۔
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-47293030

No comments: