Friday, February 8, 2019

ڈاکٹر عبدالسلام کو خراجِ تحسین

گزشتہ ہفتے پاکستان کے نوبیل انعام یافتہ سائنسدان، ڈاکٹر عبدالسلام کی 93ویں سالگرہ تھی۔ حالیہ دنوں اُن کے کام کا مطالعہ کرتے ہوئے میں نے سائنس کے موضوع پر کالم لکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جب بھی پاکستان میں ڈاکٹر صاحب کا نام لیا جاتا ہے تو ہم اُن کی سائنسی خدمات کی بجائے اُن کے مذہبی عقائد پر بحث شروع کردیتے ہیں۔ڈاکٹر سلام ایک ممتاز سائنسدان تھے۔ دانشور حلقے اُن کی فزکس پر کام، خاص طور پر اس کے بنیادی ذرات کی دریافت، کے معترف ہیں۔ یہاں میں قارئین کے ساتھ ڈاکٹر سلام کے کام کا کچھ ذکر کرنا چاہوں گا۔ آپ کا دنیا کی جس چیز سے بھی واسطہ پڑتا ہے۔ ہر چیز مادے کے چھوٹے چھوٹے ذرات، ایٹموں سے بنی ہے۔ تاہم پانی جو ہم پیتے ہیں، اُس میں دوعناصر ہیں۔ آکسیجن اور ہائیڈروجن۔ پانی کا ایک مالیکیول ہائیڈروجن کے دو اور آکسیجن کے ایک ایٹم پر مشتمل ہوتا ہے۔
تمام ایٹم، چاہے وہ لوہے کے ہوں یا آکسیجن کے، میں ایک مرکزہ(نیوکلیس )ہوتا ہے، جو پروٹانز اور نیوٹرانز پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس کے گرد منفی چارج والے ذرات گردش کرتے ہیں۔ یہ ذرات الیکٹران کہلاتے ہیں۔ الیکٹرانز کا مدار نیوکلیس سے کافی دور ہوتا ہے۔ اس لیے ایٹم کا زیادہ ترحصہ خالی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر نیوکلیس کا حجم ایک کرکٹ بال جتنا ہو تو الیکٹرانز کا مدار اس سے 2.25 میل دورہوگا۔
الیکٹرانز کو سب سے پہلے ایک انگریز سائنسدان، جوزف تھامسن نے 1897ء میں دریافت کیا تھا۔ 1914ء میں نیوزی لینڈ کے ایک سائنسدان، ردرفورڈ نے مثبت چارج رکھنے والا ذرہ پروٹان، اور اُن کے شاگرد، جیمز چاڈوک نے 1932ء میں نیوٹران دریافت کیا۔ ایک امریکی سائنسدان، مرے گلیمن نے تھیوری پیش کی کہ پروٹانز اور نیوٹرانز بذاتِ خود تین بنیادی ذرات سے مل کر بنے ہیں۔ چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں یہ ذرات اور الیکٹرانز فطرت کے ساختی اجزا ہیں۔
فطرت میں چار بنیادی قوتیں کارفرما ہیں۔ پہلی طاقتور نیوکلیئر طاقت ہے جو بنیادی ذرات کو نیوٹرانز اور پروٹانز کے اندر جوڑے رکھتی ہے۔ یہی طاقت نیوٹرانز اور پروٹانز کو باہم جوڑ کر نیوکلیس بناتی ہے۔ دوسری طاقت الیکٹرومیگنیٹک ہے، جو منفی چارج رکھنے والے الیکٹرانز کو مثبت چارج رکھنے والے پروٹانز کے گرد مدار میں گردش کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ تیسری ایک کمزور ایٹمی طاقت ہے جو نیوٹرانز کو پروٹانز میں تبدیل کرتی ہے۔ چوتھی طاقت کششِ ثقل ہے جو تمام مادے اور مادی اجسام کو باہم مربوط رکھتی ہے۔
ماہرِ طبیعات جیمز میکسویل نے 1873ء میں الیکٹرومیگنیٹک طاقت کا فارمولہ وضع کیا۔ طاقتور ایٹمی طاقت کی پہلی کامیاب تھیوری ایک جاپانی سائنسدان، ہدیکی یکوانے 1935ء میں پیش کی۔ تیسری بنیادی طاقت، جو کمزور ایٹمی طاقت ہے، پر اطالوی سائنسدان انریکو فرمی اور ممتاز امریکی سائنسدانوں، رچرڈ فینمین اور میرس گلمین نے کام کیا۔ لیکن یہ ہمارے پروفیسر عبدالسلام تھے جنہوں نے سٹیون ونبرگ کے ساتھ مل کر آزادنہ طور پر کام کرتے ہوئے درست فارمولہ وضع کیا، اور پیش گوئی کی کہ کمزور ایٹمی طاقت اور الیکٹرومیگنیٹک طاقت دراصل ایک ہی طاقت کے کم درجہ حرارت پر مختلف مظاہر ہیں۔ کچھ سال بعد تجربات نے اس بات کی تصدیق کردی کہ بہت بلند درجہ حرارت پر یہ دونوں طاقتیں یکساں ہوجاتی ہیں۔
کشش ِثقل کو سب سے پہلے دنیا کے عظیم ترین سائنسدانوں میں ایک، سرآئزک نیوٹن نے 1760 ء میں دریافت کیا۔ نیوٹن نے ریاضیاتی تجزیہ بھی وضع کیا۔ اُن کے جرمن ہم عصر، گوٹفریڈلبنز نے اپنے طور پر کام کرتے ہوئے اس پیش رفت میں اپنا کردار ادا کیا، لیکن نیوٹن جو بطور انسان بہت وضع دار نہیں تھے، لیبنز کو اس کا کریڈٹ دینے کی بجائے اس کا سہرا اپنے سر سجالیا۔ تاہم الجبرے کی اختراع کے حوالے سے ایسا کوئی تنازع نہیں ہے۔ایرانی اسکالر، محمد ابن موسیٰ الخوارزمی نے بغداد میں نویں صدی میں ’’کتاب المختصر فی حساب الجبروالمقابلہ‘‘ تصنیف کی تھی۔ الجبرا اسی لفظ، ’’الجبر‘‘ سے مشتق ہے۔
نیوٹن کی کششِ ثقل کی تھیوری اگرچہ ایک بہت بڑی پیش رفت تھی، لیکن مکمل طور پر درست نہ تھی۔ اسے درست کیا عظیم جرمن سائنسدان، البرٹ آئن اسٹائن نے۔ آئن اسٹائن کی ریلٹیویٹی کی تھیوریوں نے سائنسی تصورات میں انقلاب برپا کردیا۔ ان کے مطابق وقت اور خلا (یا کسی کی خلامیں پوزیشن ) دونوں باہم مربوط ہیں۔ ہم ایک چہار جہتی دنیا میں رہتے ہیں جس میں تین مکانیت سے تعلق رکھتی ہیں جبکہ چوتھی متغیر جہت ہے۔ ہم جتنی تیز رفتاری سے خلا میں حرکت کریں، وقت کی رفتار اتنی ہی سست ہوجائے گی۔ اس کا مطلب ہے کہ ایک شخص، جو روشنی کی رفتار سے سفر کرتا ہے، اس کی عمر کا وقت اُس شخص کی نسبت سست رفتاری سے گزرے گا جو روشنی کی رفتار سے سفر نہیں کررہا ہوگا۔ نیز کششِ ثقل اجسام کو خلا میں منحنی راستے پر حرکت کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ آئن اسٹائن نے کائنات کی رفتار کی حد بھی دریافت کی۔ یہ روشنی کی رفتار ہے۔ اُنھوں نے دنیا کو وہ شہرہ آفاق فارمولہ دیا جو مادے کو توانائی میں تبدیل کرتا ہے۔
آئن اسٹائن کششِ ثقل کی تھیوری کامیابی سے کائنات کے وسیع نظام کی پیش گوئی کرتی ہے اور لاتعداد تجربات اس کی سچائی کی تصدیق کرچکے ہیں۔ اسی طرح کوانٹم تھیوری بھی بنیادی ذرات کی حرکیات کو کامیابی سے بیان کرتی ہے۔ اس کی تصدیق بھی لاتعدا د تجربات سے ہوچکی ہے۔ واحد مشکل یہ تھی کہ یہ تھیوریز کسی نہ کسی درجے پر ناموافق ہوجاتی ہیں۔ چنانچہ سائنسدان کسی نئی تھیوری کی تلاش میں ہیں جو ان تھیوریز کی وضاحت کردے، لیکن بنیادی طور پر ان کی مخالفت نہ کرے۔ ایسی تھیوریز میں سے ایک اسٹرنگ تھیوری ہے۔ یہ تھیوری فرض کرتی ہے کہ تمام ذرات یک جہتی تھرتھرانے والی اسٹرنگ تشکیل دیتے ہیں۔ اس کے مطابق دنیا، جس میں ہم رہتے ہیں، تین نہیں بلکہ دس یا اس سے بھی زیادہ جہتیں رکھتی ہے۔ فی الحال اسٹرنگ تھیوری کی کسی تجربے سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔ چنانچہ یہ ابھی فزکس کی شرح میں سند نہیں رکھتی ہے۔ سائنسی تحقیق کا سفر جاری ہے۔
https://jang.com.pk/news/606692-dr-miftah-ismail-column-8-2-2019

No comments: