تحریک انصاف نے اپوزیشن میں رہتے ہوئے نئے پاکستان کے جو خدوخال بیان کئے تھے ان میں سے ایک اہم ترین نکتہ یہ تھا کہ سیاسی وابستگی کی بنیاد پر سرکاری عہدے نہیں بانٹے جائیں گے بلکہ میرٹ پر تقرریاں ہوں گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے اس ضمن میں بھی سابقہ تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں اور اپنے لاڈلوں اور چہیتوں کو نوازنے کا سلسلہ جاری ہے۔ وفاقی کابینہ کی تشکیل اور مشیروں کی تقرری کے وقت ’’دوست پروری‘‘ کا جو عظیم الشان مظاہرہ کیا گیا، وہ تو سب کے سامنے ہے ہی مگر گزشتہ کئی ماہ سے ہر چھوٹے بڑے عہدے پر اپنے منظور نظر افراد کو لایا جا رہا ہے۔ جب کسی عہدے پر تقرری کا حتمی فیصلہ ہو جاتا ہے تو پھر وہ اسامی مشتہر کی جاتی ہے اور اس میں قابلیت کا معیار اس طرح سے ترتیب دیا جا تا ہے کہ پہلے سے چنیدہ شخص کے علاوہ کوئی امیدوار میرٹ پر پورا نہ اتر سکے۔ مثال کے طور پر پنجاب میں سمندر پار پاکستانیوں کے لئے اوورسیز پاکستانیز کمیشن (OPC) تشکیل دیا گیا ہے۔ گزشتہ دورِ حکومت میں افضال بھٹی کو اس کا کمشنر لگایا گیا تو اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے از خود نوٹس لیکر اس تعیناتی کو غیر قانونی قرار دیدیا اور کہا گیا کہ چونکہ افضال بھٹی نوازشریف اور شہباز شریف کے سیکرٹری رہے ہیں اس لئے یہ تعیناتی اقربا پروری کے زمرے میں آتی ہے۔ نہ صرف اس شخص سے تنخواہ واپس لی گئی بلکہ نیب کو اس غیر قانونی تعیناتی پر افضال بھٹی کے خلاف ریفرنس بنانے کا حکم بھی دیا گیا۔ یہ اعتراض بھی ہوا کہ برطانیہ میں پیدا ہونے والے ایک شخص کو لاکر پاکستانی ادارے کا سربراہ لگادیا گیا۔ جب تحریک انصاف کی حکومت آئی تو پی ٹی آئی لندن کے عہدیدار اور گورنر پنجاب چوہدری سرور کے ساتھی چوہدری وسیم اختر کو اوورسیز پاکستانیز کمیشن کا وائس چیئرمین لگا دیا گیا اور اب یہ تعیناتی نہ صرف جائز اور قانونی قرار پائی بلکہ کسی نے یہ سوال اٹھانے کی زحمت نہ کی کہ برطانیہ سے ایک شخص کو لاکر پاکستانی ادارے کا سربراہ کیوں بنا دیا گیا ہے۔ اسی طرح تحریک انصاف ملتان کے سابق صدر اعجاز جنجوعہ کو چیئرمین پی ایچ اے لگا دیا گیا ہے۔ ان کی قابلیت کا معیار یہ ہے کہ گزشتہ عام انتخابات کے موقع پر ٹکٹ نہ ملا تو وہ ناراض ہو گئے اور اب یہ عہدہ دیکر انہیں منا لیا گیا ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) کے سابق ایم پی اے ایس اے حمید جنہوں نے2012ء میں پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی اور2013ء کے بعد 2018ء کے عام انتخابات میں بھی ہار گئے، انہیں گوجرانوالہ میں چیئرمین پی ایچ اے لگا دیا گیا ہے۔ اسی طرح پی ٹی آئی کے ایک اور ناراض رہنما عامر شیخ جنہیں گزشتہ عام انتخابات میں ٹکٹ نہ دیا جا سکا، اب انہیں نہ صرف گوجرانوالہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی (جی ڈی اے) کا سربراہ لگایا گیا ہے بلکہ واسا کا اضافی چارج بھی دیا گیا ہے۔ گوجرانوالہ سے ہارنے والے پی ٹی آئی کے مزید دو امیدواروں رضوان اسلم بٹ اور مہر صدیق کو بھی اسی طرح کے عہدوں پر کھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ راولپنڈی میں سابق ارکان صوبائی اسمبلی عارف عباسی اور آصف محمود کو عام انتخابات میں ٹکٹ نہیں دیا جا سکا تھا تو اب ان دونوں کو بالترتیب راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی (RDA) اور پی ایچ اے کا چیئرمین لگا کر ازالہ کیا گیا ہے۔ لاہور میں میاں محمود الرشید کے سابقہ پی آر او حافظ ذیشان کو وائس چیئرمین پی ایچ اے لگا دیا گیا ہے۔
گزشتہ برس کٹاس راج از خود نوٹس کیس میں اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے متروکہ وقف اِملاک بورڈ کے چیئرمین صدیق الفاروق کو گھر بھیج دیا تھا۔ بتایا گیا کہ چونکہ صدیق الفاروق کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہے اس لئے ان کی تعیناتی اقربا پروری کے زمرے میں آتی ہے۔ اس فیصلے کے خلاف صدیق الفاروق نے نظر ثانی درخواست دائر کی جس میں موقف اختیار کیا کہ ثاقب نثار ایڈووکیٹ کی بطور سیکرٹری قانون تعیناتی اور پھر بطور جج لاہور ہائیکورٹ تعیناتی بھی اسی شخص نے کی جس نے صدیق الفاروق کو چیئرمین متروکہ وقف اِملاک بورڈ لگایا، تو کیا اسے بھی قربا پروری ہی کہا جائے گا؟ یہ نظر ثانی درخواست تاحال زیر التوا ہے۔ اب تحریک انصاف کی حکومت نے متروکہ وقف اِملاک بورڈ کا مستقل چیئرمین لگانے کے لئے اشتہار دیا ہے مگر باوثوق ذرائع بتاتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے رہنما ممتاز اختر کاہلوں کو چیئرمین متروکہ وقف اِملاک بورڈ لگانے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ ممتاز کاہلوں تحریک انصاف شمالی پنجاب کے سینئر نائب صدر ہیں، این اے 90سے ٹکٹ نہ ملنے پر خفا ہو گئے تھے اور بطور آزاد امیدوار الیکشن لڑنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن انہیں بعد میں ایڈجسٹ کرنے کے وعدے پر دستبردار ہونے کے لئے منالیا گیا اور اب وعدے کے عین مطابق انہیں چیئرمین متروکہ وقف اِملاک بورڈ لگایا جا رہا ہے حالانکہ سپریم کورٹ صدیق الفاروق کو گھر بھیجتے وقت یہ قرار دے چکی ہے کہ اس عہدے پر اقلیتوں کی نمائندگی ہونی چاہئے۔
چند روز قبل ایوان صدر میں پی آر او کی اسامی کے لئے اشتہار دیا گیا لیکن اس عہدے کے لئے بھی ایک انصافیے کا انتخاب پہلے سے کیا جا چکا ہے۔ لاہور سے پی ٹی آئی کے نوجوان رہنما فرحت عباس کو چیئرمین ٹیوٹا جبکہ فاطمہ چدھڑ نامی ورکر کو چائلڈ پروٹیکشن بیورو کا سربراہ لگانے کا فیصلہ کیا گیا لیکن جب پی ٹی آئی کے اندرونی حلقوں سے شدید مخالفت ہوئی تو یہ ارادہ ملتوی کر دیا گیا۔ اب چیئرمین پی ٹی آئی اور وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان عمران خان کے حکم پر ایک چار رُکنی کمیٹی بنائی گئی ہے جس میں ارشد داد، اعجازچوہدری، کرنل (ر)اعجاز منہاس اور گورنر پنجاب چوہدری سرور شامل ہیں۔ چوہدری سرور نے اپنی جگہ رابعہ ضیاء کو اس کمیٹی کا ممبر نامزد کیا ہے اور اب یہ کمیٹی فہرستیں مرتب کررہی ہے کہ کن سرکاری عہدوں پر اپنے منظورِ نظر افراد کو ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہے۔ یہ کمیٹی فہرست بنا کر نعیم الحق کو بھیجے گی جہاں چیئرمین کی منظوری لینے کے بعد ان افراد کو تعینات کرنے کا حتمی فیصلہ ہو گا اور پھر اخبار میں اشتہار سمیت رسمی کارروائی پوری کرنے کے بعد تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری ہو گا۔ یہ ہے تبدیلی کی ایک لہر جسے نادان دوست تازہ ہوا کا جھونکا سمجھ رہے تھے۔ یہ ہے میرٹ پر تعیناتیوں کی تلخ حقیقت۔ یوں لگتا ہے پی ٹی آئی اپنے لاڈلوں، چہیتوں اور منظور نظر افراد کو نوازنے میں سابقہ حکومتوں کو پیچھے بلکہ بہت پیچھے چھوڑ چکی ہے اور کوئی مقابل نہیں دور تک بلکہ بہت دور تک۔
No comments:
Post a Comment