Saturday, February 23, 2019

ذوالفقار علی بھٹو سے بلاول تک!


معروف سندھی دانشور اور میرے کولیگ کالم نگار جی این مغل نے اپنے اور قومی انگریزی معاصر کے ایڈیٹر علی احمد خان کے حوالے سے ایک واقعہ بیان کیا ہے، لکھتے ہیں ’’بھٹو کی شخصیت میں عجیب مقناطیسیت تھی کہ بھٹو کے کمرے سے باہر نکلتے ہی 60,50لوگ وہاں جمع ہو گئے جن میں نوجوان ڈاکٹر بھی تھے دیگر عملہ بھی تھا، شاید کچھ مریض اور ان کے تیمار دار بھی تھے۔ بھٹو پر نظر پڑتے ہی سب کے سب زور زور سے جئے بھٹو کے نعرے لگانے لگے، جیسے ہی بھٹو لفٹ کے نزدیک پہنچے تو لفٹ کا دروازہ کھلا ہوا تھا، بھٹو کے ساتھ ہم دونوں بھی لفٹ میں داخل ہو گئے۔ بھٹو نے تعجب سے ہماری طرف دیکھا اور انگریزی میں کہا:۔
"You Gentlemen from press here?"اتنے میں مَیں نے اور خان صاحب نے ایک آدھ سوال کر دیا۔ ہم نے پوچھا کہ افواہیں گرم ہیں کہ آپ آج کسی وقت بھی گرفتار ہو سکتے ہیں۔ کیا آپ اپنی گرفتاری کے لئے ذہنی طور پر تیار ہیں۔ بھٹو نے منہ سے سگار ہٹاتے ہوئے جواب میں کہا کہ
"You mean I am mentally prepared to face my arrest?
Look I am mentally prepared to face each and every eventuality.
سچی بات یہ ہے کہ بھٹو نے اس جملے کے ذریعے سب کچھ کہہ دیا تھا، انگریزی لفظ "Eventuality"کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ انہوں نے یہ لفظ استعمال کر کے بین السطور اپنی گرفتاری اور پھانسی تک کی پیش گوئی کر دی تھی!‘‘
اور بلاول بھٹو زرداری پاکستانی قوم کے اسی ذوالفقار علی بھٹو کے نواسہ ہیں جس نے بالآخر 4؍ اپریل 1979ء کی شب تختہ دار کو سرفراز کیا تھا۔‘‘ ان کے سامنے، ’’ہے دلیری دستِ اربابِ سیاست کا عصا‘‘ کے سوا کوئی آپشن نہیں، یہ دلیری اُن کے خون میں بھی گردش کر رہی ہے، یہی دلیری ان کی خاندانی تاریخ کی پیشانی پر جھومر کی طرح چمک رہی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی ہی نے فرد کی بات کی ہے، پیپلز پارٹی ہی نے نارمل طرز حیات کا فلسفہ دیا ہے، پیپلز پارٹی ہی نے ریاست میں انسانی حقوق کی قانون سازی کی ہے، پیپلز پارٹی نے ہی آئینی بالادستی کے تحت قومی اداروں کی بنیادیں رکھی ہیں، پیپلز پارٹی نے ہی ’’بھول جائو، درگزر کرو اور آگے بڑھو‘‘ کے عمرانی معاہدے کے ’’نیلسن ڈاکٹرائن‘‘ کا انتخاب کیا، چنانچہ اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک لوگ صرف اور صرف اسی لئے اس جماعت سے متفق یا اس کے حامی ہیں، اس کی نظریاتی تشکیل اور روح میں انہیں حب الوطنی، عوام دوستی، اقتصادی عدل، قانونی مساوات اور احترامِ انسانیت کے لافانی نغمے ہر لمحے سنائی دیتے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی نظریاتی دنیا میں انسانی عظمت و رفعت کے منشور کی علمبردار ہے، اپنے منشور کی تکمیل کے لئے جس نے پھانسی کے رسے کو بوسہ دیا ہو، دیس سے باہر زہر کا پیالہ پیا ہو، دیس کے اندر اپنے گھر کی دہلیز پر موت کا استقبال کیا ہو، عوام کے سرعام دربار میں شہادت قبول کی ہو۔ اس پیپلز پارٹی کی نظریاتی بنیادیں مخلص بیوقوفوں، لالچی چوہوں، مفاد پرست دیہاڑی بازوں، سیاسی چانس گروں، عوام دشمن اقتدار پرستوں اور متوقع اقتدار کی کمین گاہوں میں گھاتیں لگا کر پہرہ دینے والے ذہنی منصوبہ سازوں کے ہاتھوں مسمار نہیں کروائی جا سکتیں، آپ کو سچ کے کم از کم ناگزیر تقاضوں کا بلا کم و کاست اظہار کرنا چاہئے، عوام کو بتائو ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، شاہنواز بھٹو، مرتضیٰ بھٹو، بیگم نصرت بھٹو، بی بی بے نظیر شہید، آصف علی زرداری، فریال تالپور اور بلاول بھٹو زرداری پاکستان کی قومی سیاسی تاریخ کے باوقار لیکن آبلہ پا مسافر ہیں، یہ جان لیوا آبلہ پائی انہوں نے صرف عوام کی درگاہ میں پیش ہونے کے لئے اختیار کی۔
پاکستان میں آج بھی ایسے افراد کی نسل موجود ہے جو پیپلز پارٹی کی نہیں عوام کی ایجنٹ ہے۔ وہ اپنی غربت اور جدوجہد کی سنگینیوں سے ابھی زمیں بوس نہیں ہوئی، اسے ذوالفقار علی بھٹو کے نظریات سے وابستگی ہے۔ بھٹو کی اولاد نے ان کے نظریات کی آبیاری میں اپنی جانیں نثار کی ہیں، یہ اہل قلم پارٹی کی شخصیات یا افراد کے ترجمان اور کاسہ لیس نہیں ہیں، ان کا اوڑھنا بچھونا پارٹی کے افکار ہیں، یہ قلمکاروں کی وہ نسل ہے جسے آج بھی بختیار خان جیسے جیالوں کی قدر اور تلاش ہے جس نے محترمہ شہید کو ’’تم‘‘ کہہ کر مخاطب کیا، انہیں قانونی بنیاد پر اجلاس سے باہر جانے کو کہا اور بی بی شہید نے سب سے زیادہ بختیار خان کی بات ہی سنی، میرے ایک اور کولیگ کالم نگار شاہد جتوئی نے اپنی یادداشتوں میں یہ وقوعہ تحریر کیا تھا۔
بلاول بھٹو زرداری قومی سیاست کے عہد نو کی علامت ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد پہلی اور دوسری نسل کے سیاستدانوں میں سے پہلی نسل تو قریب قریب معدوم ہو چکی، دوسری عمر رفتہ کے ریٹائرڈ اور اختتام پذیر دائروں میں داخل ہونے کو ہے۔
سیاست میں نوواردوں کا عہد شروع ہو چکا ہے۔ پاکستان کے سیاسی عمل میں شاید سب سے طاقتور سیاسی علامت بلاول بھٹو زرداری ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری اس عظیم ماں اور پُر عزم والد کا فرزند ارجمند ہے جن میں سے ایک نے اپنے قومی سیاسی سفر کو شہادت کی ابدیت سے سرفراز کیا، دوسرے نے ’’درگزر کرو ، بھول جائو اور آگے بڑھو‘‘ کے نصب العین کی راہ میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھی، جوانی بندی خانے کی نذر کر دی اور شب و روز اس منزل کے حصول میں لگا دیئے جسے آئینی بالادستی کا قیام کہا جاتا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو اور بی بی شہید کے بعد محترمہ فریال تالپور بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے قومی سیاسی سفر کے اس عمل میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت اختیار کر چکی ہے، انہیں یہ حیثیت آصف زرداری مخالف ان مہربان، قوتوں نے دی ہے جنہوں نے گزرے دو تین برسوں سے ہی نہیں، آصف زرداری کو پاکستان کا صدر منتخب ہو جانے کے بعد ہی ٹارگٹ کر لیا تھا، ’’فریال تالپور نے پارٹی کے اندر اپنی آمریت قائم رکھی ہے‘‘ کا سلوگن بھی ان بے اصول سیاسی انانیت کے قیدی کرداروں کی فتنہ گری کے مفسدانہ شرارے تھے، فریال تالپور کا سیاسی آشیانہ ان شراروں سے جلنا تو درکنار ایک رتی بھر جھلسا بھی نہیں مگر ان بے اصولوں کا آج سندھ کی سیاسی دھرتی پر وجود ہی دکھائی نہیں دیتا۔
اب چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول زرداری بھٹو کے حوالے سے تھوڑا سا ذاتی احوال۔
گزشتہ ماہ سلیقہ شعار پارلیمنٹرین اور مستند دانشور نفسیہ شاہ سندھ سے خاکسار کی تیمار داری کے لئے تشریف لائیں، پھر چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے پی پی کے منور انجم کے ہاتھ مع دعائوں کے گلدستہ بھجوایا۔ بعد ازاں لاہور سے ہی پنجاب پیپلز پارٹی کے فعال دانشور ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات بیرسٹر عامر حسن کے ذریعہ اپنے ذاتی خط میں نہ صرف میرے لئے نیک تمنائوں اور سعادتمندی کا اظہار کیا بلکہ میرے علاج معالجے کے حوالے سے بھی میرے تمام حالات و معاملات میں عملی تعاون کیا جس کے لئے خاکسار ہمیشہ دعا گو رہے گا۔
پس منظر اس داستان کا یہ ہے کہ گزشتہ تقریباً پانچ چھ ماہ سے میں اسپتالوں میں رہا، ایک بڑے اور دو چھوٹے آپریشنوں کے مراحل سے گزرا، بالآخر سروسز اسپتال کے سلیم الفطرت مسیحا اور سرجن یورالوجی ڈیپارٹمنٹ ڈاکٹر ایوب مرزا کو مولا کریم نے میرے لئے دست شفا عطا فرمایا، اس دورانئے میںکالم نگاری بھی جاری رہی جو صرف اور صرف مالک کل کے کرم و رحم کی عطا تھی اور عطا ہے۔ احباب کی دعائیں بھی مقبول ہو ئیں۔ میں معمولات زندگی شروع کرنے کے قابل ہوا، یہ کالم پیپلز پارٹی جیسی ترقی پسند اور عوام دوست جماعتوں اور افراد کے لئے ہمیشہ سعی و جہد کا آئینہ دار ہو گا۔ ان شاء اللہ۔

No comments: