سعودی خاتون رہف محمد القنون کی ڈرامائی کہانی نے سعودی عرب میں خواتین کو درپیش پابندیوں کو ایک بار پر توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔
18 سالہ رہف محمد القنون نے گذشتہ ہفتے اپنے آپ کو ہوٹل کے ایک کمرے میں بند کرنے اور اپنے آبائی وطن واپس جانے سے بین الاقوامی توجہ حاصل کی تھی۔
انھوں نے سعودی عرب میں اپنے خاندان سے راہ فرار اختیار کی تھی، اور ٹوئٹر پر شروع کی جانے والی مہم کے بعد انھیں کینیڈا میں پناہ مل گئی۔
سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کے بارے میں بحث تاحال جاری ہے، سعودی عرب چھوڑ کر کینیڈا آباد ہونے والی ایک اور نوجوان خاتون نے اپنی کہانی بی بی سی کو بتائی ہے۔
18 ماہ قبل 24 سالہ سلویٰ اپنی 19 سالہ بہن کے ہمراہ بھاگ گئی تھیں اور اب وہ کینیڈا کے شہر مونٹریال میں رہتی ہیں۔ ان کی کہانی انھی کی زبانی پیش کی جا رہی ہے۔
تیاری
ہم وہاں سے بھاگنے کی تیاری تقریبا چھ سال سے کر رہے ہیں لیکن اس کے لیے ہمیں پاسپورٹ اور قومی شناختی کارڈ کی ضرورت تھی۔
اس کے لیے ہمیں اپنے سرپرست کی رضامندی درکار تھی۔ (سعودی عرب میں خواتین کو بہت سے کاموں کے لیے خاندان کے کسی مرد کی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔)
خوش قسمتی سے میرے پاس قومی شناختی کارڈ تھا کیونکہ میرے خاندان نے مجھے یہ بنوا دیا تھا جب میں یونیورسٹی میں پڑھ رہی تھی۔
میرے پاس پاسپورٹ بھی تھا کیونکہ مجھے دو سال قبل انگریزی زبان کا ایک امتحان دینے کے لیے اس کی ضرورت تھی۔
لیکن میرے خاندان نے یہ مجھ سے لے لیا تھا۔ اب مجھے یہ کسی طرح واپس لینا تھا۔
یہ بھی پڑھیں!
میں نے اپنے بھائی کے گھر کی چابیاں چرائیں اور پھر ان ایک دکان سے ان جیسی چابیاں بنوا لیں۔ میں ان کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہیں جا سکتی تھی، لیکن میں نے اس وقت ایسا کیا جب وہ سو رہے تھے۔
یہ بہت خطرہ مول لینے والی بات تھی کیونکہ اگر میں پکڑی جاتی تو وہ مجھے نقصان پہنچا سکتے تھے۔
جب مجھے چابیاں مل گئیں تو میں اپنا اور اپنی بہن کا پاسپورٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی، اور میں نے اپنے والد کا فون بھی اٹھا لیا جب وہ سو رہے تھے۔
اس کا استعمال کرتے ہوئے میں نے وزارت داخلہ کی ویب سائٹ پر ان کے اکاؤنٹ سے لاگ ان کیا اور ان کا فون نمبر اپنے نمبر سے تبدیل کردیا۔
میں نے ان کا اکاؤنٹ استعمال کرتے ہوئے اپنا اور اپنی بہن کے لیے ملک چھوڑنے کی رضامندی بھی حاصل کر لی۔
فرار
ہم رات کو نکلے جب سب سو رہے تھے۔ یہ بہت، بہت دباؤ والی کیفیت تھی۔
ہم ڈرائیونگ نہیں کر سکتے تھے لہذا ہم نے ٹیلسی بلوائی۔ خوش قسمتی سے سعودی عرب میں تقریبا تمام ٹیکسی ڈرائیورز غیرملکی ہیں لہذا انھوں نے ہمارے اکیلے سفر کرنے کو حیران کن نہ سمجھا۔
ہم ریاض کے قریب شاہ خالد بین القوامی ہوائی اڈے کی جانب جا رہے تھے۔ اگر کسی کو اندازہ ہو جاتا کہ ہم کیا کرنے جا رہے ہیں تو ہمیں مارا جا سکتا تھا۔
اپنی تعلیم کے آخری سال سے میں ایک ہسپتال میں کام کر رہی تھی اور میں نے اتنی رقم جمع کر لی تھی کہ ہوائی جہاز کے ٹکٹ اور جرمنی کا ٹرازٹ ویزہ حاصل کر سکوں۔ میرے پاس بے روزگاری الاؤنس کی رقم بھی تھی جو میں نے بچا کر رکھی ہوئی تھی۔
میں اپنی بہن کے ہمراہ جرمنی کے لیے پرواز پکڑنے میں کامیاب ہوگئی۔یہ پہلا موقع تھا کہ میں جہاز میں بیٹھی تھی اور یہ بہت حیران کن تھا۔ میں نے خوشی محسوس کی، میں نے خوف محسوس کیا، میں نے سب کچھ محسوس کیا۔
جب میرے والد کو احساس ہوا کہ ہم گھر پر نہیں ہیں تو انھوں نے پولیس کو اطلاع کی لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔
چونکہ میں وزارت داخلہ کی ویب سائٹ پر ان کے اکاؤنٹ میں ان کا فون نمبر تبدیل کر چکی تھی اس لیے جب انتظامیہ نے انھیں کال کرنے کی کوشش کی تو وہ دراصل مجھے کال کر رہے تھے۔
جب میں نے لینڈ لیا تو مجھے پولیس کی جانب سے پیغامات موصول ہوئے جو میرے والد کو بھیجے گئے تھے۔
آمد
سعودی عرب میں کوئی زندگی نہیں ہے۔ میں صرف یونیورسٹی جاتی اور پھر سارا دن گھر میں کرنے کے لیے کچھ نہیں ہوتا تھا۔
وہ مجھے مارتے تھے، اور مجھے بری باتیں بتاتے کہ مرد برتر ہوتے ہیں۔ مجھے زبردستی نماز پڑھائی اور رمضان میں روزے رکھوائے جاتے۔
جب میں جرمنی آئی تو میں نے پناہ کی درخواست دائر کرنے کے لیے وکیل تلاش کرنے کے لیے قانونی مدد حاصل کی۔ میں نے کچھ فارم بھرے اور انھیں اپنی کہانی سنائی۔
میں نے کینیڈا کا انتخاب کیا کیونکہ انسانی حقوق کے حوالے سے اس کی ساکھ بہت اچھی ہے۔ میں نے شامی مہاجرین کو یہاں دوبارہ آباد کرنے کی خبریں سنی تھیں اور فیصلہ کیا کہ میرے لیے یہی بہترین جگہ ہے۔ میری درخواست قبول ہوگئی، اور جب میں ٹورانٹو میں لینڈ ہوئی میں نے ہوائی اڈے پر کینیڈین جھنڈا دیکھا اور یہ کچھ حاصل کرنے لینے کا حیران کن احساس ہوا۔ .
آج میں مونٹریال میں اپنے بہن کے ہمراہ ہوں اور کوئی ذہنی دباؤ نہیں ہے۔ مجھ پر کام کے لیے زبردستی نہیں جاتی۔
سعودی عرب میں شاید زیادہ دولت ہوتی لیکن یہاں بہتر ہے کیونکہ میں جب بھی اپنے اپارٹمنٹ سے باہر جانا چاہتی ہوں جا سکتی ہوں۔ میں کسی کی رضا مندی کی ضرورت نہیں۔ میں باہر چلی جاتی ہوں۔
اس سے میں بہت، بہت خوش ہوتی ہوں۔ مجھے احساس ہوتا ہے کہ میں آزاد ہوں۔ میں جو کچھ بھی پہننا چاہوں پہن سکتی ہوں۔
مجھے یہاں خزاں کے رنگ اور برفباری پسند ہے۔ میں فرانسیسی زبان سیکھ رہی ہوں لیکن یہ بہت مشکل ہے! میں بائیسکل چلانا بھی سیکھ رہی ہوں اور میں تیراکی کرنا اور آئس سکیٹ بھی سیکھنے کی کوشش کر رہی ہوں۔
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں اپنی زندگی میں واقعی کچھ کر رہی ہوں۔
میرا اپنے خاندان سے کوئی رابطہ نہیں ہے، لیکن میں سمجھتی ہوں کہ یہی میرے لیے اور ان کے لیے بہتر ہے۔ مجھے اب محسوس ہوتا ہے کہ یہی میرا گھر ہے۔ میں یہاں بہتر ہوں۔
https://www.bbc.com/urdu/world-46853272
No comments:
Post a Comment