Tuesday, December 25, 2018

بے نظیر سے جڑی یادیں




’’کیوں مظہر! میرا آخری جلسہ کور کئے بغیر ہی کراچی جا رہے ہو‘‘۔ بینظیر بھٹو شہید کے یہ الفاظ مجھے آج تک یاد ہیں جب میں 27دسمبر 2007ء کے لیاقت باغ، راولپنڈی کے جلسے سے ایک ہفتہ پہلے زرداری ہائوس، اسلام آباد ان سے انٹرویو کرکے واپس جا رہا تھا۔ جب شہادت کی خبر آئی تو میں کراچی میں تھا۔ اس کی سیاست اور میری صحافت کا آغاز تقریباً ساتھ ساتھ ہی ہوا تھا اور اس سے جڑیں کئی یادیں ہیں، کچھ آن ریکارڈ، کچھ آف ریکارڈ باتیں ہیں۔ شہید تو خیر اسے ہونا ہی تھا۔ اس کے پیچھے پوشیدہ کئی عوامل ہیں جن میں عورت کی حکمرانی سے لے کر روشن خیالی تک اور پھر نام کے ساتھ بھٹو لگا ہونا، یہ بھی ہماری سیاسی تاریخ میں کم ہوا ہے کہ باپ، بیٹی اپنی مقبولیت کے عروج پر مارے گئے ہوں۔
بات شروع کی تھی اس آخری ملاقات کی، میں نے کہا کہ الیکشن مہم ختم ہو رہی ہے اور میرا کراچی جانا ضروری ہے، آپ سے ملاقات الیکشن کے بعد ہو گی۔ پھر میں نے سوال کیا کہ کیا یہ سچ ہے کہ آپ کو لیاقت باغ جانے سے منع کیا جا رہا ہے، حملے کا خطرہ ہے۔ جواب آیا ’’ہاں یہ سچ ہے کہ یہ سارے لوگ منع کر رہے ہیں مگر یہ بھی سچ ہے کہ میں جلسے میں جائوں گی، نہیں گئی تو یہ دہشت گردوں کی فتح ہو گی اور میں انہیں کامیاب ہوتا نہیں دیکھ سکتی‘‘۔ بینظیر نے عملی سیاست کا آغاز اپنی والدہ کے ساتھ قذافی اسٹیڈیم، لاہور میں لاٹھیاں کھا کر کیا اور جتنے عرصے وہ سیاست میں رہیں، ڈرائنگ روم سے زیادہ عوامی سیاست کی۔ ایک بار اگست 1986ء میں لیاری سے جلوس نکالنے کا اعلان کیا تو پولیس نے 70کلفٹن کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ لیاری میں ہنگامہ شروع ہو گیا۔ پی پی پی کے کارکنوں کو یقین نہیں تھا کہ بینظیر پہنچ سکیں گی مگر اچانک پولیس کو چکمہ دے کر وہ ایک مقامی رہنما کی گاڑی میں چھپ کر لیاری کی تنگ گلیوں سے نمودار ہوئیں اور وہ بھی اس وقت جب شدید آنسو گیس سے پورا علاقہ متاثر تھا۔ مجھے آج بھی یاد ہے جنرل ضیاء کا وہ دور جب بھٹو کی پھانسی کے وقت دونوں ماں، بیٹی نظر بند تھیں۔ ابھی سپریم کورٹ میں اپیل زیر سماعت تھی۔ ایک دن اچانک سرکاری ٹی وی سے خبر آئی کہ بینظیر کیخلاف غیر ملکی سفارت خانوں کو خطوط بھیجنے کی تحقیقات شروع ہو گئی ہیں۔ بینظیر کیخلاف سازشوں کا سلسلہ پرانا تھا۔ شاید اس وقت جب بھٹو کو پھانسی ہوئی تو اندازہ نہیں تھا کہ پی پی پی اتنی مقبول جماعت بن جائے گی۔ جب وہ 10اپریل 86ء کو واپس آئیں تو بہت بڑا استقبال ہوا جس سے خدشہ پیدا ہونے لگا کہ الیکشن جیتنے کے بعد وہ ان لوگوں سے انتقام لے سکتی ہیں جنہیں وہ بھٹو کی پھانسی کا ذمہ دار سمجھتی ہیں، تاہم میری جب ان سے پہلی ملاقات ہوئی تو میں نے ان کے اندر ایک سچا اور محب وطن پاکستانی پایا۔ میں نے ان سے کہا بھی کہ آج آپ کے بارے میں میرے خدشات دور ہو گئے ہیں‘‘۔
مگر اس کے باوجود بھی ان کا رستہ روکا گیا۔ الیکشن سے پہلے 1988ء میں شوشہ چھوڑا گیا کہ اسلامی ملک کی حکمرانی عورت کیسے کر سکتی ہے، 60کی دہائی میں محترمہ فاطمہ جناح کیخلاف بھی ایسا ہی کہا گیا تھا۔
الیکشن وہ پھر بھی جیت گئیں تو انتقالِ اقتدار میں رکاوٹ ڈالی گئی اور پھر سازشیں اقتدار دینے کے بعد بھی جاری رہیں اور 18ماہ بعد ہی اگست، 90کو حکومت ختم کر دی گئی۔ پہلی بار پیسہ سیاست دانوں میں ان لوگوں نے تقسیم کیا جو حکومتیں بناتے اور گراتے رہے۔ بینظیر سے جڑی یادوں میں ایک یاد اس تاریخی شادی کی بھی ہے جو انہوں نے جلاوطنی ختم کرکے واپس آنے کے صرف ایک سال بعد 1987ء میں کی۔ چونکہ عوامی لیڈر تھیں تو ایک دعوت اپنے دوستوں، عزیز و اقارب کی ہوئی مگر ولیمہ کی عوامی تقریب پیلرز اسٹیڈیم لیاری میں ہوئی، میں نے ایک بار پوچھا کہ شادی کی ایسی بھی کیا جلدی تھی تو مسکرا کر جواب دیا ’’میں مشرقی روایات کی بڑی قائل ہوں۔ شادی ایک خوبصورت بندھن ہے۔ پھر والدہ اور خاندان والے بھی چاہتے تھے کہ شادی ہو جائے تو سیاست جاری رکھوں۔ ویسے بھی تمہیں پتا ہے کہ جس معاشرے میں عورت کے گھر سے باہر جانے، تعلیم حاصل کرنے اور نوکری تک کو مختلف نگاہ سے دیکھا جاتا ہے وہاں غیر شادی شدہ کا سیاست کرنا کتنا مشکل ہے‘‘۔ اس گفتگو میں وہ مجھے مختلف بینظیر نظر آ رہی تھیں۔ کئی بار انہوں نے اپنی سیاسی غلطیوں کا اعتراف بھی کیا جس میں حکومتی امور چلانے میں ناتجربہ کاری اور اچھے مشیر نہ ملنا بڑی وجوہات بیان کیں۔ بینظیر کیخلاف قتل کی پہلی سازش ان کے دوسرے دورِ حکومت میں پکڑی گئی جب بلاول ہائوس کے قریب ایک نالے میں نصب بم برآمد ہوا۔ بعد میں ایک شخص گرفتار بھی ہوا مگر وہ کیس آگے نہ بڑھ سکھا مگر 2007ء کو ان کی واپسی کے اعلان کیساتھ ہی اس طرح کی خبریں آنا شروع ہو گئی تھیں۔ 18اکتوبر 2007ء نے 10اپریل 1986ء کی یاد تازہ کر دی مگر پھر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ ایک خودکش حملے میں پی پی پی کے 150جیالے شہید ہو گئے، سو سے زائد زخمی کوئی اور ہوتا تو گھر سے باہر نہ آتا مگر وہ دوسرے دن صبح جناح اسپتال زخمیوں کو دیکھنے پہنچ گئیں۔ 27دسمبر 2007ء کی رات تین بجے میں ہوٹل پہنچا، پورا سندھ جل رہا تھا مگر جو کچھ اس دن کراچی میں ہوا وہ بیان سے باہر ہے مگر جو واقعہ میں بیان کرنے جارہا ہوں اس کا جواب آج تک تلاش نہیں کر پایا۔
شہید تو خیر اسے ہونا ہی تھا بھٹو کی وارث جو ٹھہری۔ بھٹو نے کال کوٹھڑی میں آخری ملاقات میں بینظیر کو نصیحت بھی لکھوائی اور وصیت بھی۔ ’’میں نوٹس لیتی رہی اور سوچتی رہی کہ اس شخص کا ذہن اس وقت بھی آنے والے حالات کا سوچ رہا تھا جبکہ اسے پتا تھا کہ کچھ گھنٹے بعد پھانسی کے پھندے پر چڑھ جانا ہے۔ کہنے لگے کہ زمین سے رشتہ کبھی نہ توڑنا اور عوام میں رہنا، پھر کہا کہ پھانسی کے بعد یاسر عرفات، قذافی اور حافظ الاسد کا شکریہ ادا کرنا۔ یہ لوگ پاکستان سے محبت کرنے والے رہنما ہیں اور مشکل وقت میں مدد کی ہے پاکستان کی‘‘۔
بینظیر کے قتل کی سازش شاید کبھی بے نقاب نہ ہو پائے، جس طرح ملک کے پہلے وزیراعظم کی سازش آج تک ایک راز ہے۔
شہید تو خیر اسے ہونا ہی تھا مگر وہ جاتے جاتے بھی اپنے سب سے بڑے سیاسی حریف سے ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ کرکے سیاست میں نئی مثال قائم کر گئیں۔ جب دونوں نے اعتراف کیا کہ وہ ایک دوسرے کیخلاف استعمال ہوئے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ آخری جلسے کے دوران خبر آئی کہ میاں صاحب کے جلوس پر فائرنگ ہوئی ہے۔ شہادت سے چند منٹ پہلے ان کی آخری ٹیلی فون کال میاں صاحب کو تھی مگر بات نہ ہو سکی کہ گولی چل گئی، دھماکہ ہو گیا۔ اسپتال پہنچنے والوں میں سب سے پہلے سیاستدان نواز شریف تھے۔ میں وہ آخری الفاظ کیسے بھول سکتا ہوں جو شاید تھے تو آخری انتخابی جلسے کے حوالے سے مگر اب تو لگتا ہے کہ اسے اندازہ تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔
’’کیوں مظہر، میرا آخری جلسہ کور کئے بغیر ہی کراچی جا رہے ہو‘‘۔ میں صرف حیران ہوں کہ پارٹی کی قیادت نے ان لوگوں کو بغیر تحقیق کیسے باہر جانے دیا، کیسے کچھ کو اقتدار میں شریک کیا جن کا ذکر فیروز آباد تھانےکی FIRمیں 18اکتوبر 2007ء کے دھماکے کے بعد کیا گیا تھا۔ اب تو یہ کہہ سکتے ہیں
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
https://jang.com.pk/news/590712-mazhar-abbas-column-25-12-2018

No comments: