Sunday, December 2, 2018

گورنر ہاؤس کی دیوار توڑنے سے کیا ہو گا؟

وسعت اللہ خان

وزیرِ اعظم عمران خان کی زیر صدارت یکم دسمبر کو پنجاب کابینہ کے اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کی تفصیل بتاتے ہوئے صوبائی وزیرِ اطلاعات فیاض الحسن چوہان المعروف حاجی نرگس نے کہا کہ لاہور کے گورنر ہاؤس کا لان جو دو ماہ پہلے ہی عوام کے لیے کھول دیا گیا ہے، اب وزیرِ اعظم کے حکم پر اس کی بیرونی دیواریں بھی اگلے دو تین روز میں گرا دی جائیں گی۔ گورنر ہاؤس کو چڑیا گھر، عجائب گھر اور آرٹ گیلری میں بدل دیا جائے گا۔ اس کے سات سو کنال احاطے میں قائم سکول کو علیحدہ کر دیا جائے گا۔
بقول چوہان صاحب دیوار ڈھانے کا مقصد عوام کے زہن سے ان اداروں اور عمارات کی ہیبت نکالنا ہے۔ یہ کوئی تاریخی عمارت نہیں بلکہ نمائشی جگہ ہے۔ وزیرِ اعلی کے مشیر نے بھی ایک ویڈیو پیغام میں اس فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ عمارات نو آبادیاتی اقتدار کی علامت کے طور پر تعمیر کی گئیں تاکہ یہ جتایا جا سکے کہ حکمران طاقتور اور عوام کمزور ہیں۔
ملک میں اس وقت جیسا علمی و تحقیقی ماحول ہے اس میں یہ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ گورنر ہاؤس کے احاطے میں ہی اکبرِ اعظم کے ایک عم زاد محمد قاسم کی قبر ہے اور اس کے اردگرد موجودہ عمارت مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ایک مصاحب خوشحال سنگھ نے اپنی رہائش کے لیے بنائی تھی۔

انگریزوں نے پنجاب پر قبضے کے بعد یہ جگہ خوشحال سنگھ کے بیٹے تیجا سنگھ سے ڈھائی ہزار روپے میں خریدی اور اسے لیفٹننٹ گورنر ہاؤس قرار دے دیا ۔اس عمارت کے پہلے انگریز رہائشی رابرٹ منٹگمری تھے۔ گویا یہ عمارت لگ بھگ پونے دو سو برس سے زیرِ استعمال ہے۔
اسی طرح عوام کے لیے اتوار کے اتوار کھولا جانے والا گورنر ہاؤس پشاور کم و بیش سو برس پرانا ہے۔ کوئٹہ کا گورنر ہاؤس انیس سو پینتیس کے زلزلے کے بعد دوبارہ تعمیر ہوا۔ کراچی کا گورنر ہاؤس اسی برس پرانا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد کراچی کا گورنر ہاؤس کچھ عرصہ گورنر جنرل ہاؤس اور ایوانِ صدر بھی رہا۔ ان سب عمارات اور ان کے احاطوں پر نادر و تاریخی عمارات کے تحفظ کا ایکٹ مجریہ انیس سو پچھتر لاگو ہوتا ہے۔
حکمرانوں کے زیرِ استعمال محلات و دفاتر عوام کے لیے کھولنا کوئی نئی یا غیر معمولی بات نہیں۔ بکنگھم پیلس، وائٹ ہاؤس، کریملن اور دلی کے راشٹر پتی بھون کے کچھ حصے عوام کے لیے مخصوص دنوں میں کھولے جاتے ہیں۔ تہران کا قصر سعد آباد کمپلیکس تو پورا کا پورا عجائب گھر ہے۔ ریاستیں ان عمارات کی حفاظت تاریخی ورثے کے طور پر کرتی ہیں اور ان کا تشخص توڑ پھوڑ اور خستگی سے بچاتی ہیں۔
پاکستان میں راولپنڈی کا سابق ایوانِ صدر جس میں ایوب خان ، یحییٰ خان اور بھٹو رہے کئی برس پہلے اسے خواتین یونیورسٹی میں تبدیل کر دیا گیا۔ البتہ عمارت کی شکل صورت میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی اور فرنیچر بھی محفوظ ہے۔
سرکاری و تاریخی عمارات تک عام آدمی بالخصوص محققین اور طلبا کی رسائی یوں ضروری ہے کہ ماضی اور طرزِ حکمرانی سے روشناس رہا جا سکے۔ ضروری ہے کہ اسلام آباد کا ایوانِ صدر، وزیرِ اعظم ہاؤس، وزرائے اعلی کی سرکاری رہائش گاہ اور جی ایچ کیو اور بڑے بڑے گالف کورسز اور جمخانوں کو بھی عوام کے لیے کھولا جائے اور گائڈڈ ٹورز کا بندوبست کیا جائے۔
بے شک ان عمارات میں درس گاہ، عجائب گھر یا آرٹ گیلری کھولی جا سکتی ہیں لیکن خود یہ عمارات بھی کسی تاریخی تعلیم گاہ سے کم نہیں۔
اور جب آپ گورنر ہاؤس کی دیوار توڑنے جیسے اہم ترین کاموں سے فراغت پا جائیں تو باقی مسائل کے نپٹارے کے بارے میں بھی سنجیدگی سے دل کے بجائے دماغ سے سوچیے گا۔ پچھلے تہتر برس میں یہ ملک بذات ِخود تماشا بن چکا ہے۔ آپ کو ووٹ جا بے جا تبدیلیوں کے لیے نہیں اس عجائب گھر کو پھر سے ایک نارمل ملک بنانے کے لیے ملا ہے۔ پانچ برس میں سے سو دن گذر چکے ہیں۔

https://www.bbc.com/urdu/pakistan-46418753

No comments: